نماز کے اسرار و رموز

اذان کا جواب
شرع شریف میں نماز با جماعت کیلئے اذان دینا واجب ہے۔ بعض صحابہ کرامؓ نے خواب میں اذان کے کلمات سنے۔ جب نبی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا تو نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ بلالؓ کو یہ کلمات بتا دو۔ صحابہ کرامؓ میں سے چار حضرات کو مسجد نبوی کا مؤذن ہونے کا شرف حاصل رہا۔ (۱)حضرت بلالؓ بن رباح (۲) عمر بنؓ ام مکتوم (۳) سعد بن قرظؓ (۴) حضرت ابو محذورہ

اذان کے علمی نکات
جب اذان میں چار مرتبہ اللہ اکبر کہا جاتا ہے تو یہ پیغام دیا جا رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی کی طاقت آگ پانی ہوا اور مٹی گویا ہر چیز کی طاقت سے زیادہ ہے پس اس پروردگار کی طرف آ جاؤ، تمہیں اسکے گھر میں بلایا جا رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی کہ چاروں اطراف میں پیغام پہنچانے کیلئے چار مرتبہ اللہ اکبر کہا گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ جب اذان کی اللہ اکبر سنتے تو اتنا روتے کہ چادر بھیگ جاتی۔ کسی نے پوچھا تو بتایا کہ میں اللہ اکبر کے الفاظ سنتا ہوں تو عظمت الہٰی اور ہیبت الہٰی کی ایسی کیفیت دل پر طاری ہوتی ہے کہ گریہ طاری ہو جاتا ہے۔
اذان میں حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے الفاظ سے یہ بتایا گیا کہ نماز میں فلاح ہے۔ یہی پیغام قرآن مجید میں دیا گیا کہ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلوٰ تِھِمْ خَاشِعُوْنَ (المؤمنون : ۱۔۲) (کامیاب ہو گئے ایمان والے، جو اپنی نماز میں جھکنے والے تھے) پس اذان اور نماز کے پیغام میں مطابقت موجود ہے۔
مؤذن اللہ اکبر کے الفاظ کہہ کر اللہ تعالٰی کی عظمت کی گواہی دے رہا ہوتا ہے لہذا قیامت کے دن اللہ تعالٰی مؤذن کو عزت و شرافت سے نوازیں گے۔ حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے دن مؤذن کا چہرہ منور ہو گا اور اسکی گردن دوسروں کی نسبت اونچی ہو گی۔ یہ اعزاز اسے اذان دینے کی وجہ سے ملے گے۔
علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی کافر اپنے ارادے سے اذان دے تو اسکے مسلمان ہونے کا فتوٰی دیا جائے گا۔
ایک مرتبہ نبی علیہ السلام نے مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان کھڑے ہو کر فرمایا کہ مؤذن اذان دے تو سننے والے کو چاہئے کہ وہی الفاظ کہے جو مؤذن کہتا ہے البتہ حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے۔ اسی طرح فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہے تو جواب میں یوں کہا جائے صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ (تو نے سچ کہا اور تو بری ہو گیا)
جب بچہ پیدا ہو تو اسکے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔ اس کا مقصد اصلی اس بچے کے کان میں اللہ رب العزت کی عظمت کو پہنچانا ہوتا ہے۔
مولانا احمد علی لاہوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ انسان جب اذان کی آواز سنے تو ادب کی وجہ سے خاموش ہو جائے، اذان کا جواب دے اور آخر پر مسنون دعا پڑھے۔ تجربہ ہے کہ اذان کے ادب کی وجہ سے اسے موت کے وقت کلمہ پڑھنے کی توفیق نصیب ہو گی۔
زبیدہ خاتون ایک نیک ملکہ تھی۔ اس نے نہر زبیدہ بنوا کر مخلوق خدا کو بہت فائدہ پہنچایا۔ اپنی وفات کے بعد وہ کسی کو خواب میں نظر آئی۔ اس نے پوچھا کہ زبیدہ خاتون! آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ زبیدہ خاتون نے جواب دیا کہ اللہ رب العزت نے بخشش فرما دی۔ خواب دیکھنے والے نے کہا، آپ نے نہر زبیدہ بنوا کر مخلوق کو فائدہ پہنچایا آپ کی بخشش تو ہونی ہی تھی۔ زبیدہ خاتون نے کہا نہیں، نہیں۔ جب نہر زبیدہ والا معاملہ پیش ہوا تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ کام تو تم نے خزانے کے پیسوں سے کروایا۔ اگر خزانہ نہ ہوتا تو نہر بھی بنتی۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے میرے لئے کیا عمل کیا۔ زبیدہ نے کہا کہ میں تو گھبرا گئ کہ اب کیا بنے گا۔ مگر اللہ رب العزت نے مجھ پر مہربانی فرمائی۔ مجھے کہا گیا کہ تمہارا ایک عمل ہمیں پسند آ گیا۔ ایک مرتبہ تم بھوک کی حالت میں دسترخوان پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی کہ اتنے میں اللہ اکبر کے الفاظ سے اذان کی آواز سنائی دی۔ تمہارے ہاتھ میں لقمہ تھا اور سر سے دوپٹہ سرکا ہوا تھا۔ تم نے لقمے کو واپس رکھا، پہلے دوپٹے کو ٹھیک کیا ، پھر لقمہ کھایا۔ تم نے لقمہ کھانے میں تاخیر میرے نام کے ادب کی وجہ سے کی چلو ہم نے تمہاری مغفرت کر دی۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے مکان کے سامے ایک لوہار رہتا تھا۔ بال بچوں کی کثرت کی وجہ سے وہ سارا دن کام میں لگا رہتا۔ اسکی عادت تھی کہ اگر اس نے ہتھوڑا ہوا میں اٹھایا ہوتا کہ لوہا کوٹ سکے اور اسی دوران اذان کی آواز آ جاتی تو وہ ہتھوڑا لوہے پر مارنے کی بجائے اسے زمین پر رکھ دیتا اور کہتا کہ اب میرے پروردگار کی طرف سے بلاوا آ گیا ہے میں پہلے نماز پڑھوں گا پھر کام کروں گا۔ جب اسکی وفات ہوئی تو کسی کو خواب میں نظر آیا۔ اس نے پوچھا کیا بنا؟ کہنے لگا کہ مجھے امام احمد بن حنبلؒ کے نیچے والا درجہ عطا کیا گیا۔ اس نے پوچھا کہ تمہارا علم و عمل تو اتنا نہیں تھا۔ اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کے نام کا ادب کرتا تھا اور اذان کی آواز سنتے ہی کام روک دیتا تھا تاکہ نماز ادا کروں اس ادب کی وجہ سے اللہ رب العزت نے مجھ پر مہربانی فرما دی۔
امام ابن سیرینؒ کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا کہ میں نے دیکھا کہ خواب کی حالت میں اذان دے رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا تجھے عزت نصیب ہو گی۔ کچھ عرصے کے بعد اس شخص کو عزت ملی۔ دوسرے شخص نے خواب دیکھا کہ اذان دے رہا ہوں۔ ابن سیرینؒ نے فرمایا کہ تجھے ذلت ملے گی وہ شخص کچھ عرصے بعد چوری کے جرم میں گرفتار ہوا اسکے ہاتھ کاٹے گئے۔ ابن سیرینؒ کے ایک شاگرد نے پوچھا کہ حضرت دونوں نے ایک جیسا خواب دیکھا مگر تعبیر مختلف کیوں ہوئی؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب پہلے نے اذان دیتے ہوئے دیکھا تو میں نے اس شخص میں نیکی کے آثار دیکے تو مجھے قرآن میں یہ آیت سامنے آئی وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِا لْحَجِّ (الحج:۲۶) "اور پکار دے لوگوں کو حج کے واسطے" میں نے تعبیر دی کہ اسے عزت ملے گی۔ جب دوسرے نے خواب سنایا تو اسکے اندر فسق و فجور کے آثار تھے۔ مجھے قرآن مجید کی یہ آیت سامنے آئی۔ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنْ اَیَّتُھَا الْعِیْرُ اِنَّکُمْ لَسَارِ قُوْنَ (یوسف: ۷۰) "پھر پکارا پکارنے والے نے، اے قافلہ والو: تم تو البتہ چور ہو) پس میں نے یہ تعبیر لی اس شخص کو ذلت ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔"
اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ میں بے وقت اذان دے رہا ہوں تو اسکی تعبیر یہ ہے کہ اسے ذلت ملے گی۔ اگر عورت خواب میں دیکھے کہ اذان دے رہی ہے تو وہ بیمار ہو گی۔
ایک شخص نے ابن سیرینؒ سے خواب بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ میں مردوں کے منہ پر اور عورتوں کی شرمگاہوں پر مہر لگا رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا لگتا ہے کہ تم مؤذن ہو اور ماہ رمضان میں وقت سے پہلے فجر کی اذان دیتے ہو۔ تحقیق کرنے پر تعبیر صحیح نکلی۔ چونکہ اذان کی آواز سن کر لوگ روزے کی نیت کر لیتے تھے لہذا وہ لوگوں کو کھانے پینے اور جماع سے روکتا تھا حالانکہ ابھی اذان کا وقت نہیں ہوتا تھا۔
اذان کا جواب
مؤذن جب اذان دیتا ہے تو اسکا جواب دینے کے دو انداز ہیں پہلا یہ کہ زبان سے اسکا جواب دے یہ سنت ہے۔ دوسرا یہ کہ عملی جواب دے اور نماز باجماعت کیلئے مسجد میں آ جائے یہ واجب ہے۔

سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے۔

عن عائشۃؓ کان رسول اللہ ﷺ یحد ثنا و نحدثہٗ فا ذا حضرت الصلوۃ فکانہ لم یعرفنا ولم نعرفہ؁ٗ (احیاء)
(حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے باتیں کرتے رہتے ہم بھی آپ سے باتیں کرتے لیکن جب نماز کا وقت آ جاتا تو آپ ایسے ہو جاتے جیسے نہ آپ ہمیں پہچانتے ہیں نہ ہم آپ کو پہچانتے ہیں)

امام زین العابدین جب اذان کی آواز سنتے تو آپ پر ہیبت طاری ہو جاتی۔ آپ فرمایا کرتے۔

اتدرون بین یدی من اردید ان اقوم (احیاء)
(کیا تم جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہوں)

حضرت سعید بن المسیبؓ کے بیس برس ایسے گذرے کہ جب اذان ہوئی تو وہ مسجد میں پہلے سے موجود تھے۔

حضرت سالم حداد اذان کی آواز سن کر کھڑے ہو جاتے۔ دکان کھلی چھوڑ کر چل دیتے اور یہ اشعار پڑھتے۔

اذا ما دعا دا عیکہ قمت مسرعًا
مجیبًا لمولیٰ جل لیس لہٗ مثل(جب تمہارا منادی پکارنے کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے تو میں جلدی سےکھڑا ہو جاتا ہوں۔ ایسے مالک کی پکار کو قبول کرتے ہوئے جس کی بڑی شان ہے اسکی مثل کوئی نہیں)

اجیب اذا نادیٰ بسمع و طا عۃٍ
وبی نشوۃ لبیک یا من لہ الفضل(میں جواب میں کہتا ہوں اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ بحالت نشاط میں، اے فضل و بزرگی والے میں حاضر ہوں)

و یصفر لو نی خیفۃً و مھا یۃً
و یرجع لی عن کل شغل بہٖ شغلً( اور میرا رنگ خوف اور ہیبت سے زرد پڑ جاتا ہے اور اس ذات کی مشغولیت مجھے ہر کام سے بے خبر کر دیتی ہے)

و حقکم ما لذلی غیر ذ کر کم
و ذکر سوا کم فی فمی قط لا یجدو( اور تمہارے حق کی قسم ۔ تمہارے ذکر کے سوا مجھے کو ئی چیز لذیذ نہیں لگتی اور تمہارے سوا کسی کے ذکر میں مجھے مزہ نہیں آتا)

متٰی یجمع الایام بینی و بینکم
ویفرح مشتاق اذا جمع الشمل(دیکھیں زمانہ مجھے اور تمہیں کب جمع کرے گا اور عاشق تو تبھی خوش ہوتا ہے جب اسے وصل حاصل ہو)

فمن شا ھد ت عیناہ نور جما لکم
یموت اشتیاقًا نحوکم قط لا یسلوا(جسکی آنکھوں نے تمہارے جمال کا نور دیکھ لیا ہے۔ وہ تمہارے اشتیاق میں جان دے دیگا مگر تسلی نہ ہو گی)

حضرت معاذ ابن انسؓ سے روایت ہے۔

عن رسول اللہ ﷺ انہ قال الجفاء کل الجفاء والکفر والنفاق من سمع منادی اللہ ینادی الی الصلوٰۃ فلا یجیبہٗ
(سراسر ظلم اور کفر اور نفاق ہے ، جو شخص اللہ کی منادی کی آواز سنے کہ وہ مسجد کی طرف بلاتا ہے اور پھر یہ اس کا جواب نہ دے یعنی مسجد میں جماعت کیلئے حاضر نہ ہو) (احمد)

نبی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے۔

عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ من سمع النداء فلم یمنعہٗ من اتباعہٖ عذر قالوا وما العذر قال خوف او مرض لم تقبل صلوٰۃ التی صلّٰی۔ (ابوداؤد)
(حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اذان سنی اور اس نے اسکی اتباع نہ کی، سوائے اسکے کہ اس کو کوئی عذر مانع ہو تو ایسے شخص کی نماز قبول نہ ہو گی۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا خوف اور بیماری۔)