تعداد آیٰت کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں در اصل اختلاف آیتوں کی مختلف تعریفوں کی وجہ سے ہے بعض کے علم میں جو اک آیت ہے دوسروں کے نزدیک وہ اک نہیں بلکہ دو میں شمار ہوتیں ہیں. لہٰذا قرآن میں کمی و بیشی کا کوئی احتمال نہیں. تعداد آیٰت کے بارے میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ (849 تا 911 ھجری) کی تصنیف التقان فی علوم القرآن میں مختلف اقول درج ہیں جن میں سے اک یہ بھی ہے "الدرانی کا قول ہے تمام علماء سلف نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ قرآن کی آیتوں کی تعداد چھ ہزار ہے مگر پھر اس تعداد سے زیادتی کے بارے میں ان کے آپس میں اختلاف ہو گیا ہے بعض لوگوں نے کچھ زیادتی ہو نہیںمانی ہے اور چند صاحبوں نے دو سو چار آیتں زائد بتائی ہیں اور کئی اقوال میں دوسو کی تعداد سے اوپر ہونے والی آیتوں کی نسبت چودہ، انیس، پچیس اورچھتیس آیتیں کہا گیا ہے" (التقان فی علوم القرآن، نوع 19، ص 196، اردو، ناشر: مشتاق بک کارنر)
آپ نے جو مذکورہ بالا تحریر کی تصورپیش کی ہے اس میں یہ بات بلا تحقیق معلوم ہوتی ہے "6236 ہے پر ایمان رکھیں" اس بارے میں علماء سلف کی تحقیقات زیادہ معتبر ہیں میری رائے ہے آپ یوں کہیں جس طرح سورۃ البقرہ کی آخر میں آیت "آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ ترجمہ: رسول (خدا) اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی۔"
واللہ اعلم
Bookmarks