نام بے حد تھے مگر ان کا نشاں کوئی نہ تھا
بستیاں ہی بستیاں تھیں پاسباں کوئی نہ تھا
خرم و شاداب چہرے ثابت و سیار دل
اک زمیں ایسی تھی جس کا آسماں کوئی نہ تھا
کیا بلا کی شام تھی صبحوں، شبوں کے درمیاں
اور میں ان منزلوں پر تھا جہاں کوئی نہ تھا
ہر مکاں اک راز تھا اپنے مکینوں کے سبب
رشتہ میرا اور جن کے درمیاں کوئی نہ تھا
تھا وہاں موجود کوئی بام و در کے اس طرف
خامشی تھی اس قدر جیسے وہاں کوئی نہ تھا
کوکتی تھی باسنری چاروں دشائوں میں منیر
پر نگر میں اس صدا کا رازداں کوئی نہ تھا
Bookmarks