Results 1 to 2 of 2

Thread: راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینے کی فضی&a

  1. #1
    amiroops's Avatar
    amiroops is offline Senior Member+
    Last Online
    14th April 2013 @ 03:27 PM
    Join Date
    21 Jan 2009
    Location
    Karachi
    Age
    40
    Gender
    Male
    Posts
    441
    Threads
    60
    Credits
    975
    Thanked
    14

    Exclamation راستہ سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینے کی فضی&a


    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ دریں اثناء کہ ایک شخص راستہ میں جا رہا تھا اس نے راستہ میں کانٹوں بھری شاخ پائی، اس نے اس کو راستہ سے ہٹا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کو قبول فرما کر اس کی مغفرت فرمادی‘‘۔
    تشریح۔۔۔کریم مالک کی ذرہ نوازیوں کا کیا پوچھنا، کسی کا کوئی چھوٹا سا عمل بھی مالک کو پسند آجائے وہ کریم آقا کے لطف وعنایت اور رحمت ومغفرت کا ذریعہ بن جاتا ہے اس لئے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چھوٹے سے چھوٹے نیک عمل کو بھی حقیر نہ سمجھا جائے۔ نہ جانے کون سا عمل رب رحیم کی رضا کا موجب بن جائے۔ سید الطائفہ حضرت الحاج مولانا شاہ امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے بقول:
    بس ہے گرپہنچے ہمارا ایک ہی نالہ وہاں
    گرچہ کرتے ہیں ہزاروں نالہ وفریاد ہم
    اس حدیث پاک میں اسی حقیقت کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے، شاہ عبدالحق محدث دہلوی ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’حضرات صوفیا نے اس حدیث سے یہ سمجھا ہے کہ تمہارا وجود مخلوق کے راستہ کا کانٹا اور پتھر نہیں بننا چاہئے۔
    بردار خار وسنگ زراہ ایں چہ رمز بود
    یعنی وجود خود رابردارازمیان
    مجلسیں امانت ہیں
    حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص بات کرکے ادھر ادھر دیکھے (کہ یہاں کوئی اورتو نہیں سنتا) تو یہ بات امانت ہے‘‘۔
    تشریح۔۔۔یعنی راز کی بات امانت ہے اور کسی کا راز فاش کردینا خیانت ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص تم سے رازداری کے انداز میں بات کرے (جس کی علامت یہ ہے کہ وہ بات کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی تو اس بات کو نہیں سن رہا؟) تو اس بات کو امانت سمجھو اور کسی کے سامنے اس کا اظہار مت کرو ورنہ تم خیانت کے مرتکب ٹھہرو گے، البتہ بعض صورتیں اس سے متثنیٰ ہو سکتی ہیں مثلاً کوئی شخص کسی بے گناہ کو قتل کرنا چاہتا ہے اور تمہارے سامنے اپنے منصوبے کا اظہار کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کو اس گناہ عظیم سے باز رکھنے کی کوشش کرنا فرض ہے بلکہ جس شخص کے قتل کا منصوبہ ہے اس کو بھی محتاط رہنے کی تلقین کرنا ضروری ہے۔
    الغرض مجلس میں جو بات کہی جائے اس کو امانت سمجھنا چاہئے، اس کا افشا جائز نہیں الاّ یہ کہ کسی کو ضرر سے بچانے کیلئے اس کا اظہار ضروری ہے۔
    سخاوت کا بیان
    حضرت اسما بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، یارسول اللہ! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی سوائے اس کے جو (میرے شوہر) زبیررضی اللہ عنہ مجھے لا کر دیتے ہیں تو کیا میں (اس میں سے کسی سائل کو) دے دیا کروں؟ فرمایا، ہاں! بندھن لگا کر نہ رکھیو، ورنہ تم پر بھی بندھن لگا دیا جائے گا، اور گن گن کر نہ رکھیو، ورنہ تم کو بھی گن گن کر دیا جائے گا‘‘۔
    تشریح۔۔۔بیوی کو شہر کے مال میں سے اتنا صدقہ وخیرات کرنا جائز ہے جس کی شوہر کی طرف سے عموماً اجازت ہوتی ہے۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرتﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ سخی اللہ تعالیٰ کے بھی قریب ہے، جنت کے بھی قریب ہے، لوگوں کے بھی قریب ہے، دوزخ سے دور ہے۔ اور بخیل اللہ تعالیٰ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، دوزخ سے قریب ہے اور جاہل سخی اللہ تعالیٰ کو عبادت گزار بخیل سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔
    بخل کا بیان
    حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو خصلتیں کسی مومن (کامل) میں جمع نہیں ہوسکتیں، ایک بخل، دوسری بدخلقی‘‘۔
    تشریح۔۔۔حافظ فضل اللہ تورپشتیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ دو خصلتیں کسی آدمی میں بیک وقت جمع ہوں اور پھر وہ اپنی آخری حد کو بھی پہنچی ہوئی ہوں کہ آدمی کبھی ان سے جدا نہ ہوسکے اور وہ ان دونوں پر راضی بھی ہو، ظاہر ہے کہ یہ دو شرطیں کسی مومن کے شایان شان نہیں ہوسکتیں۔
    حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا دغاباز مکار آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا اور نہ بخیل اور نہ (صدقہ دے کر) احسان دھرنے والا (جنت میں داخل ہوگا)‘‘۔
    تشریح۔۔۔یعنی جب تک آدمی ان خصلتوں سے پاک نہ ہوجائے جنت میں داخلہ نصیب نہیں ہوگا اور پاک ہونے کی تین صورتیں ہیں:
    ۱۔ دنیا میں ان چیزوں سے توبہ کرلے۔
    ۲۔ قبر اور آخرت میں ان کے بقدر سزا مل جائے۔
    ۳۔ کریم آقا کی جانب سے عفووکرم کا معاملہ ہوجائے اور نظر عنایت ان خصلتوں سے پاک کردے۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا، مومن بھولا بھالا شریف الطبع ہوتا ہے اور بدکار آدمی، مکار ،چالباز اور بداخلاق ہوتا ہے‘‘۔
    صدقہ کی مختلف صورتیں
    حضرت ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تیرے اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے مسکرانا بھی تیرے لئے صدقہ ہے تم کسی کو بھلائی کا حکم کرو اور برائی سے روک دو یہ بھی تمہارے لئے صدقہ ہے، کوئی شخص کسی اجنبی جگہ میں راہ بھول گیا ہو اور تم اس کو راستہ بتا دو یہ بھی تمہارے لئے صدقہ ہے، کسی کمزور نظر کے آدمی کیلئے تم کسی چیز کو دیکھ دو یہ بھی تمہارے لئے صدقہ ہے، تم راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی وغیرہ کوئی سی تکلیف دہ چیز ہٹا دو تو یہ بھی تمہارے لئے صدقہ ہے، تم اپنے ڈول سے اپنے (مسلمان) بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دو یہ بھی تمہارے لئے صدقہ ہے‘‘۔
    تشریح۔۔۔آنحضرت ﷺ نے صدقہ کی یہ چند صورتیں بطور مثال ذکر فرمائی ہیں، مدعا یہ ہے کہ کسی کے ساتھ کسی نوع کا حسن سلوک کرنا صدقہ میں داخل ہے کیونکہ صدقہ کے ذریعے محض رضائے الٰہی کی خاطر خلق خدا کے ساتھ حسن سلوک کیا جاتا ہے۔ ہرہ وہ کام جس کو رضائے الٰہی کیلئے کیا جائے اور اس میں خلق خدا کی نفع رسانی ہو وہ صدقہ کے حکم میں ہے اور اس میں الاہم فالہم اورالاعظم فالاعظم کی ترتیب ہونی چاہئے، یعنی جس کام میں جس قدر نفع رسانی ہو وہ زیادہ اہم ہوگا اور زیادہ بڑا صدقہ شمار ہوگا۔
    دودھ والا جانور کسی کو دودھ پینے کیلئے عاریتہً دینا
    حضرت برابن عاذب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ جس شخص نے دودھ دینے والا جانور( مثلاً اونٹنی، گائے، بھینس یا بکری) کسی کو (بطور عاریت) عطا کیا یا نقدی (بطور قرض) کسی کو دی یا کسی (ناواقف نابینا) کو راستہ بتا دیا تو اس کیلئے غلام آزاد کرنے کے برابر ثواب ہو گا‘‘۔
    تشریح۔۔۔’’منحہ‘‘ اس جانور کو کہا جاتا ہے جو کسی کو دودھ پینے کیلئے عاریت کے طور پر دیا جاتا ہے۔ ’’دیہات‘‘ میں آج بھی یہ رواج پایا جاتا ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک سے زیادہ دودھ دینے والے مویشی ہیں اور اس کے ہمسائے یا عزیز کے پاس نہیں تو ایک مویشی اس کے یہاں پہنچادیا جاتا ہے کہ وہ اس کا دودھ پیتے رہیں اور جب وہ دودھ دینا بند کردے تو جانور واپس کردیں۔ آنحضرتﷺ نے اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔
    اسی طرح نقدی (روپیہ پیسہ یا سونا چاندی) کسی کو دینا کبھی بطور عطیہ (ہبہ یا صدقہ) کے ہوتا ہے اس کی فضیلت تو بالکل واضح ہے اور کبھی کسی ضرورت مند کو بطور قرض دی جاتی ہے۔ اس حدیث میں قرض دینے کی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ اس کے قرض دینے پر غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ یہ تین کام نفع رسانی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں اور مکارم اخلاق میں شامل ہیں اس لئے ان کا اجروثواب بھی بہت بڑا ہے۔

  2. #2
    MOHAMMEDIMRAN's Avatar
    MOHAMMEDIMRAN is offline Senior Member+
    Last Online
    17th September 2016 @ 11:52 AM
    Join Date
    19 Dec 2008
    Posts
    2,722
    Threads
    161
    Credits
    1,056
    Thanked
    313

    Default

    JazakALLAH...
    Sallallahu Alaa Muhammed, Sallallahu Alaihi Wasallam..

Similar Threads

  1. Replies: 0
    Last Post: 13th August 2011, 03:08 PM
  2. Replies: 0
    Last Post: 13th August 2011, 03:01 PM
  3. Replies: 10
    Last Post: 21st January 2011, 06:42 PM
  4. Replies: 7
    Last Post: 17th December 2009, 11:49 PM
  5. Replies: 9
    Last Post: 4th August 2009, 09:16 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •