شب برات پر فضول رسمیں :
شب برات پر تین کام بڑی دھوم دھام سے کئے جاتے ہیں :
1 حلوہ پکانا ۔
2 آتش بازی ۔
3 مردوں کی روحوں کا حاضر ہونا ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس رات حلوہ پکانا سنت ہے ۔ اس سے متعلق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کتاب ما ثبت فی السنۃ : 214 ” بیان فضائل شعبان “ کے ضمن میں رقطمراز ہیں : ” عوام میں مشہور ہے کہ اس رات سیدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے ۔ اور اسی رات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شب حلوہ تناول فرمایا تھا ۔ بالکل لغو اور بے اصل ہے ۔ کیونکہ غزوہ احد تو بالاتفاق مؤرخین شوال 2 ہجری کو واقع ہوا تھا ۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ آج حلوہ ہی واجب اور ضروری ہے ۔ بدعت ہے ۔ البتہ یہ سمجھ کر حلوہ اور مطلقاً میٹھی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب تھی حلوہ پکا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں ۔
” کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحب الحلوۃ والعسل “
نبی صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ اسی طرح بعض لوگ مسور کی دال ، چنے کی دال پکانے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ یہ بھی حلوہ کی طرح بدعت ہوگی ۔ بس صحیح بات یہ ہے کہ حسب معمول کھانا پکانا چاہئیے ۔ شب برات کو تہوار نہیں بنانا چاہئے ۔ کیونکہ اسلامی تہوار دو ہیں : عیدالفطر ، عیدالاضحی ، علامہ عبدالحئی حنفی لکھنوی نے آثار مرفوعہ : 108, 109 میں ستائیس رجب المرجب اور پندرہ شعبان ( شب برات ) کو بدعات میں شامل کیا ہے ۔ کیونکہ یہ اسلامی تہوار نہیں ہیں ۔
ومنھا صلوٰۃ لیلۃ السابع والعشرین من رجب ومنھا صلوٰۃ لیلۃ النصف من شعبان
شب برات کے حلوہ سے متعلق مولانا عبدالحئی حنفی کا فتویٰ ہے کہ اس بارہ میں کوئی نص اثبات یا نفی کی صورت میں وارد نہیں ۔ حکم شرعی یہ ہے کہ اگر پابندی رسم ضروری سمجھے گا تو کراہت لازمی ہوگی ۔ ورنہ کوئی حرج نہیں ۔ ( فتاویٰ عبدالحئی مترجم : 110 )
آتشبازی :
ملت اسلامیہ کا ایک طبقہ اس رات آتش بازی و چراغاں میں جس اسراف و تبذیر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایک طرف اس سے قوم کو بار بار جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے دوسری طرف شرعاً یہ افعال مذموم و قبیح ہیں ۔
محدث شیخ عبدالحق رحمہ اللہ دہلوی ” ما ثبت فی السنۃ “ میں فرماتے ہیں کہ ہندوستان کیا اکثر شہروں میں جو اس وقت بلا ضرورت کثرت سے چراغاں کرتے ہیں اور آتش بازی اور دیگر لہو و لعب میں مشغول ہوتے ہیں ۔ یہ رسم بدسوائے ہندوستان کے اور ملکوں میں نہیں ہے ۔ اصل میں یہ رسم بد ان لوگوں کی ہے جو آتش پرست تھے ۔ اسلام لانے کے بعد یہ لوگ اپنی رسوم جاہلیت پر قائم رہے ۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بھی اس بلائے عظیم میں مبتلا ہوگئے ۔
تحفۃ الاحوذی میں ہے سب سے پہلے چراغاں و آتشبازی کا مظاہرہ کرنے والے برامکہ آتش پرست تھے ۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ملمع سازی کر کے ان رسوم کو اسلام میں داخل کردیا ۔ لوگوں کے ساتھ رکوع و سجود کرتے لیکن مقصود آگ کی پوجا تھا ۔ شریعت میں ضرورت سے زیادہ کسی جگہ کو بھی روشن کرنا جائز نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : ( بنی اسرائیل : 27 )
” اور بے جا خرچ نہ کرو ۔ تحقیق بے جا خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے ۔ “ اس آیت میں لفظ ” تبذیر “ استعمال فرمایا ہے ۔ تبذیر اور اسراف میں فرق ہے ۔ حلال مقام پر حد اعتدال سے زیادہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ناجائز و حرام مقام پر خرچ کرنے کا نام تبذیر ہے ۔ اس جگہ پر ایک پیسہ بھی خرچ کرے تو حرام ہو گا اور شیطان کا بھائی ٹھہرے گا ۔
شب برات کے موقع پر دن کو حلوہ اور رات کو چراغاں و آتش بازی کا مظاہرہ دین حق کے ساتھ مذاق ہے ۔ اسی طرح پہلی قوموں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنایا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوئیں ۔ ان سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم سے بھی اللہ کا عذاب دور نہیں ۔
ارشاد خداوندی ہے :
(( وذر الذین اتخذوا دینھم لعبا ولھوا وغرتھم الحیوۃ الدنیا )) ( الانعام : 70 )
اور چھوڑ دو ( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور ان کی دنیاوی زندگی نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۔
مردوں کی روحوں کا آنا :
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میت کی روح چالیس دن تک گھر آتی ہیں ۔ مومنین کی روحیں جمعرات اور شب برات کو آتی ہے ۔ حالانکہ مردے برزخی زندگی سے وابستہ ہیں ۔ عالم برزخ کا عالمِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
ارشاد خداوندی ہے :
ومن وراءھم برزخ الی یوم یبعثون ( مومنون : 100 )
ان ( مردوں ) کے ورے ایک پردہ ہے جو قیامت تک رہے گا ۔
بعض لوگ روح کے آنے کا مغالطہ آیت تنزل الملائکۃ والروح سے دیتے ہیں ۔ اس روح سے مراد مردوں کی روحوں کا اترنا نہیں ہے بلکہ اس روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ دوسری آیت میں بھی جبرئیل علیہ السلام روح سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
1 اذ ایدتک بروح القدس ( المائدہ : 110 )
2 قل نزلہ روح القدس من ربک ( النحل : 102 )
3 نزل بہ الروح الامین ( الشعراء: 193 )
4 تعرج الملائکۃ والروح ( المعارج : 4 )
5 یقوم الروح والملائکۃ صفا ( النباء: 38 )
مندرجہ بالا آیات میں بھی روح سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔ مردوں کی روح مراد نہیں ہے ۔ اس سے مردوں کی روح مراد لینا ۔ تحریف فی القرآن ہے ۔
فقہاءکا فتویٰ :
من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر ( مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ، فتاویٰ قاضی خاں )
جو کہے کہ اولیاءو بزرگوں کی روحیں حاضر و ناظر ہیں ۔ وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شب برات آئی ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ بھی گزر گیا ۔ تابعین و ائمہ اربعہ کا زمانہ بھی گزر گیا ، لیکن کسی سے بھی شب برات کا حلوہ ، آتش بازی ، مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے اور سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہئے جو راہ نجات ہے اللہ تعالیٰ بدعات سے محفوظ فرمائے ۔ آمین
Bookmarks