لغوی لحاظ سے ادناءکا معنی قریب کرنا ، جھکانا اور لٹکانا ہے ، قرآن میں یدنین کے بعد علی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کسی چیز کو اوپر سے لٹکا دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، جب اس کا معنی لٹکانا ہے تو اس کا معنی سر سے لٹکانا ہے جس میں چہرہ کا پردہ خود بخود آ جاتاہے ۔
عقلی اعتبار سے اس لئے غلط ہے کہ اگر کوئی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اسے لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی سارا جسم دکھا دیا جائے ، تو وہ اس پر اطمینان کا اظہار نہیں کرے گا یہ ممکن ہے کہ لڑکی کا صرف چہرہ دکھا دیا جائے تو وہ مطمئن ہو جائے ، جب یہ چیزیں ہمارے مشاہدہ میں ہیں تو چہرے کو پردے سے کیونکر خارج کہا جا سکتا ہے ۔
نقل کے اعتبار سے یہ معنی درست نہیں ہے کیونکہ سورت احزاب5 ہجری میں نازل ہوئی ، اس کے بعد واقعہ افک 6ہجری میں پیش آیا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں کہ میں اسی جگہ بیٹھی رہی ، اتنے میں میری آنکھ لگ گئی ، حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ وہاں آئے ، اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا اور اونچی آواز سے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا ، اتنے میں میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا ۔ ( صحیح بخاری ، المغازی : 1041 )
بہرحال روشن خیال لوگوں کا یہ مؤقف مبنی برحقیقت نہیں ہے کہ چہرے کا پردہ مطلوب نہیں ، بلکہ اس سلسلہ میں صحیح مؤقف یہی ہے کہ چہرے کا پردہ اسلام میں مطلوب ہے ، اسلامی معاشرتی زندگی کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ ( واللہ اعلم )
Bookmarks