سمٹ رہا تھا کوئی رات اور بادل تھے
یہی قرار تھے جو اس گھڑی کا حاصل تھے
ہمارے بعد بھی محفل میں دم رہا تھا کل
ہمارے بعد بھی کچھ لوگ جانِ محفل تھے
جو شام شام کو نکلے وہ بال بال بچے
پھر اس کے بعد جو نکلے وہ سخت گھائل تھے
وہ جن کے جانے پہ آنکھیں تمہاری روتی ہیں
تمہارے لوٹنے والوں میں وہ بھی شامل تھے
تری عنائتیں اب بھی مری ضرورت ہیں
تجھے پکارتے ہیں آج ، کل بھی سائل تھے
Bookmarks