حادثے

السلام علیکم۔۔۔۔۔۔ طلحہ السیف


اف! اتنا بڑا اور افسوناک سانحہ، درجنوں لوگ زندہ جل کر جان کی بازی ہار گئے ، ذرا تصور کیجئے اس وقت کی ہولناکی کا، بے بسی اور لاچارگی کا، تڑپنے والوں کی تکلیف کا اور اپنی آنکھوں کے سامنے پیاروں کو جلتا دیکھنے والوں کی بے کسی کا، سوچنے سے ہی جھر جھری آجاتی ہے اور دل ڈوبنے لگتا ہے ، لیکن اس سانحے سے بڑھ کر افسوسناک اور شرمناک وہ سانحات ہیں جو اس کے بعد رونما ہوئے ، کچھ ان پر بھی نظر کرتے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری اور امن کی علامت کے طور پر چلائی جانے والی مسافر ٹرین ''سمجھوتہ ایکسپریس '' میں خوفناک آتشزدگی کا واقعہ ہوا، یہ وقوعہ ہندوستان کی سرزمین پر پیش آیا اس علاقے میں جہاں ہندوؤں نے مسلمانوں کے ہاتھوں ایک ایسی مکمل شکست کا مزا چکھا تھا جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے نقش ہوچکی ہے جی ہاں !پانی پت کا میدان ، احمد شاہ ابدالی کالشکر ، ٤لاکھ مرہٹہ فوج ، دو لاکھ لاشیں ، ذلت اور پسپائی، یہ سب کچھ ایسا ہے جسے بھول جانا یابھلادینا ممکن نہیں اگر چہ کتنے بھی نصاب تبدیل کرلیئے جائےں ، ٹرین بہت سخت سیکورٹی کے انتظامات میں چلتی ہے کاغذات اور سامان کی بہت سخت جانچ پڑتال کی جاتی ہے ، کلوز سرکٹ کیمروں کے ذریعے مسافروں کی نقل وحرکت مکمل نوٹ کی جاتی ہے،سامان کتوں کو بھی سونگھایا جاتا ہے تاکہ کوئی مشکوک یاخطرناک چیز ٹرین پر نہ جانے پائے ان سارے مراحل سے گزرنے کے بعد مسافر جب ٹرین میں سوار ہوجاتے ہیں تو ڈبے باہر سے بھی بند کردئے جاتے ہیں تاکہ آخری منزل یعنی لاہور یادہلی کے علاوہ کوئی مسافر اترنے نہ پائے، ٹرین جب غیر آباد علاقوں سے گزر رہی ہوتی ہے تو رینجرز اور دیگر سیکورٹی فورسز کے جوان ٹرین کے دونوں جانب گھوڑوں پر گشت کرتے ہیں، ہرڈبے کے اندر خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار موجود ہوتے ہیں جومسافروں کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھتے ہیں، ایسے کڑے انتظامات کامقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ کوئی ناخوشگوارر واقعہ پیش نہ آئے۔ لیکن جب ١٩ فروری کو یہ گاڑی دہلی سے لاہور کے لئے روانہ ہوئی تو حالات کافی مختلف تھے ،دہلی ریلوے اسٹیشن پر اس ٹرین کےلئے بنایا جانے والا خصوصی پلیٹ فارم جس پر کلوز سرکٹ کیمرے اور اسکیننگ مشینیں نصب ہیں بند تھا اور اعلان کیا گیا تھا کہ ٹرین لوکل پلیٹ فارم سے چلے گی،بین الاقوامی سفر پر روانہ ہونے والی اس ٹرین میں انڈین میڈیا کے بقول مسافروں کو بغیر پاسپورٹ اور ویزہ کے ٹکٹ جاری کئے گئے۔سامان کی تلاشی سرسری طور پر لی گئی ،بھیڑ بھاڑ کے عالم میں مسافروں کو ڈبوں میں ٹھونس کر باہر سے لاک لگا دئےے گئے اور گاڑی کو روانگی کی کلیئرنس دےدی گئی،جب سے گاڑی چل رہی ہے اس پورے عرصے میں پہلی بار گاڑی راستے میں روکی گئی اور بعض مسافروں کی طرف سے مشکوک قرار دیئے جانے والے ٢ افرادکو اتار دیا گیا اور اس کے ٹھیک دو گھنٹے بعد پراسرار انداز میں دھماکہ ہوا اور ٢ ڈبوں میں آگ بھڑک اٹھی ، ہمہ وقت مسافروں کے سر پر مسلط رہنے والے سیکورٹی افسران بھی اس وقت بعض ناگزیر وجوہات کی بناء پر ان ڈبوں میں موجودہ نہ تھے اور خدمت پر مامور عملہ بھی ٹرین میں میسرنہ تھا، مسافر چیختے چلاتے رہے ، مدد کےلئے پکارتے رہے لیکن مدد کو کون آتا ، جب ڈبے جل کر خاکستر ہو گئے اور ان میں موجود افراد یا تو جان کی بازی ہار بیٹھے یا جھلس کر زخمی ہو گئے اس وقت ٹرین روکی گئی اور امدادی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں، ہندوستان نے حسب معمول جہادی تنظیموں پر الزام دھرا ،ان کےخلاف کارروائیوں کا مطالبہ کیا۔جوائنٹ انٹروگیشن کے ہر امکان کو رد کیا۔اپنی غلطی ماننے سے یکسر انکار کیا اور حد یہ کہ جاں بحق ہونے والوں کی مکمل تفصیل بتانے سے ٹال مٹول کرتا رہا ،زخمیوں کو تفتیش کےلئے حراست میں لیا اور بالآخر پاکستان کو اعتماد میں لئے بغیر لاشیں ناقابل شناخت قرار دے کر انہیں ہندوستان میں ہی دفن کر دیا ، ہندوستان کے مؤقر اخبارات نے جو پس پردہ حقائق لکھے ہیں اور جو سوالات اٹھائے ہیں ان کی بنا پر پاکستان اس پوزیشن میں تھا کہ ہندوستان کے ساتھ سختی سے بات کرتا،وقوعہ ہندوستان کی سرزمین پر ہوا اسے قصور وار قرار دیا جاتا ،ہندوستان کی طرف سے سیکورٹی کے معاملے میں واضح اور سنگین کوتاہی ہوئی اس سے جواب طلب کیا جاتا ، جو افراد خلاف اصول راستے میں اتارے گئے مشکوک ہونے کی بنا پر انہیں حراست میں نہ لئے جانے کا سوال اٹھایا جاتا ۔ان افراد کو پیش کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ، امدادی کارروائیوں میں غفلت اور مجرمانہ سنگدلی کو ہدف تنقید بنایا جاتا ، لاشوں کی شناخت نہ کرنے ، انہیں پاکستان کے حوالے نہ کرنے اور زخمیوں سے بے رحمانہ تفتیش کی مذمت کی جاتی ، تحقیقات میں اشتراک اور مکمل معلومات فراہم کرنے کی مانگ کی جاتی لیکن حادثہ رونما ہونے کے بعد جیسے ہی حسب عادت ہندوستان کی طرف سے الزام آیا پاکستان کی حکومت بھی حسب معمول ڈھیر ہو گئی ۔ سفارتی سطح پر معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کرلیا گیا ، ہٹ دھرمی اور الزام تراشی کے جواب میں ہاتھ جوڑ لئے گئے، سوائے شیخ رشید صاحب کے ہر سطح پر ہندوستان پر کوئی سوال اٹھانے سے گریز کیا گیا اور اسکی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دینے میں سرگرمی دکھائی گئی۔ مجاہدین پر الزام نیم تسلیم کے عالم میں قبول کر لیا گیا اور وعدہ کیا گیا کہ ان کے خلاف کارروائی ہو گی، دوستی ، نرمی اور مذاکرات کی بھیک مانگی گئی اور ہر زیادتی پر زبان بند رکھی گئی ، وزیر خارجہ قصوری صاحب اگلے دن ہندوستان کے دورے پر پہنچ گئے اور ہندوستانی لیڈروں کے تندوتیز بیانات کے جواب میں بس یہی دہائی دیتے رہے کہ اس واقعہ کی بنیاد پر تعلقات خراب نہ کئے جائیں اور دوستی کا عمل جاری رہے ۔نورجہان کہتی تھی قصور میرا ہے قصوری صاحب نے آگے بڑھ کر کہا کہ قصور ہم سب کا ہے ، بے چارے قصوری ہیں تو قصور کیسے تسلیم نہ کریںگے۔
اس واقعے میں دو واضح اشارات موجود ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے ہندوستان کی شدت پسند ہندو تنظیموں کا ہاتھ ہے ۔
1۔ 2003ء میں گودھرا (گجرات) میں اسی طرح ٹرین میں آتشزدگی کا واقعہ رونما ہو ا تھا جس کا الزام مسلمانوں پر ڈال کر گجرات میں مسلمانوں کا بدترین قتل عام کیا گیا ، غیر جانبدار رپورٹوں کے مطابق 20ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا جن میں بہت بڑی تعدا د کمسن بچوں کی تھی ، ہندوستان کی مرکزی حکومت کی جانب سے قائم کردہ کمیشن اور عدالت کی متفقہ رپورٹ جو گزشتہ سال منظر عام پر آئی اس سے ثابت ہوا ہے کہ گودھرا واقعہ آر ایس ایس کی سازش تھی اور یاتریوں کے ڈبے میں خود آگ لگائی گئی تھی تاکہ قتل عام کا بہانہ بنایا جا سکے ، پانی پت کا واقعہ بھی بالکل اسی طرح رونما ہوا ہے جیسے گودھرا میں تھا اور اس کے ڈانڈے بھی آر ایس ایس سے ملتے ہیں۔
2۔شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے نے گزشتہ دنوں ممبئی میں شیوا جی ڈے پر پانی پت کی جنگ میں بدترین شکست کا مسلمانوں سے انتقام لینے کا اعلان کیا تھا۔پانی پت کے مقام پر ہونے والے اس حادثہ کو اسی دھمکی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے بزدل ہندو جنگ کے میدان میں ہزیمت کا بدلہ اسی طرح نہتے اور معصوم عوام سے لیتا ہے اور اس کا یہ طریقہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔
ہم دعا ہی کر سکتے ہیں کہ ہمارے حکمران ''قصوری'' روش چھوڑ کر ان حقائق پر نظر کریں اور غیرت و حمیت کا طریقہ اپنا کر ہندو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے معصوموں کے خون کا حساب طلب کریں۔یقینا ایسے موقع پر انکا یہ بزدلانہ طرزعمل اس سانحے سے بھی زیادہ افسوسناک ہے ۔
دوسرا بدترین سانحہ جس نے ہمیں اپنی قومیت کے بارے میں ہی شدید الجھن کا شکار کر دیا ہے وہ اس غمناک صورتحال میں بھی جشن بہاراں کے نام پر انسانیت سوزتہوار منانے کا فیصلہ ہے ، ہم کبھی اتنی گری ہوئی قوم نہ تھے جو معصوم بچوں کی جلی ہوئی لاشیں دیکھ کر دو دن بعد جشن منانے کے قابل ہو جاتی۔۔۔۔۔۔ہم کبھی اتنے بے درد اور بے حس نہ تھے کہ دشمن کے ہاتھوں اتنے افسوسناک سانحے کا شکار ہو کر ناچتے گاتے سڑکوں پر نکل آتے ۔ہم کبھی اتنے بے غیرت ، بے ضمیر نہیں تھے کہ تڑپتی لاشوں کے بیچ رقص کرتے ۔ ابھی تو شہداء کی تدفین بھی مکمل نہ ہوئی تھی ۔ ابھی تو زخمیوں کا خون بھی نہیں رکا تھا ۔ ابھی تو فضا سے جلے جسموں کی بو بھی نہ مٹی تھی کہ ہم جشن منانے گھروں سے نکل آئے ، کاش آسمان یہ منظر دیکھنے سے پہلے ہم پر ٹوٹ گیا ہوتا ، زمین پھٹ کر ہمیں نگل گئی ہوتی۔کیا ہم مسلمان ہیں ؟ کیا ہم انسان ہیں ؟ دنیا میں کسی کافر ملک میں بھی ایسا سانحہ ہوا ہوتا تو اس کا پرچم سرنگوں کر دیا جاتا اور قومی تقریبات بھی منسوخ کر دی جاتیں مگر پاکستان کے حکمرانوں پر تاریک ترین روشن خیالی کا ایسا عفریت سوار ہے جس نے انہیں دیکھنے ، سننے ، سمجھنے کی تمام صلاحیتوں سے محروم کر دیا ہے ، کاش یہ بے ضمیر ان لوگوں کے درد کا احساس کرتے جن کے گھر بار لٹ گئے ، سہاگ اجڑ گئے ، گود ویران ہو گئی ، کاش ہم سمجھتے ، شاید ہم ذلت اور پستی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں اب عذاب کا کوئی کوڑا، عقوبت کا کوئی تازیانہ ہی ہمیں سیدھی راہ پر واپس لا سکے ، کاش! ہم اس سے پہلے ہی لوٹ آئیں۔
یااﷲ! ہم لاشوں پر بسنت منانے والوں سے بری ہیں ، ہم خزاؤں کی لپیٹ میں جشن بہاراں منانے والوں سے بری ہیں ، ہمیں ان کے ساتھ شامل نہ فرما۔۔۔۔۔۔
٭٭٭


Weekly Alqalam