بنا گلاب تو کانٹے چھبا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص
تمام رنگ مرے اور سارے خواب مرے
فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اک شخص
میں کس ہوا میں اڑوں کس فضا میں لہرائوں
دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اک شخص
پلٹ سکوں ہی نہ آگے بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اک شخص
محبتیں بھی عجب اُس کی نفرتیں بھی کمال
مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اک شخص
محبتوں نے کسی کی بھلا رکھا تھا اُسے
ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اک شخس
وہ ماہتاب تھا مرہم بدست آیا تھا
مگر کچھ اور سوا دل دُکھا گیا اک شخص
کھلا یہ راز کہ آیئنہ خانہ ہے دنیا
اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اک شخص
Bookmarks