پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ
محفل ِ وقت تری روحِ رواں ہیں ہم لوگ
دوش پر بار شب ِ غم لیے گل کی مانند
کون سمجھے کہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ
خوب پایا ہے صلہ تیری پر ستاری کا
دیکھ اے صبح ِ طرب آج کہاں ہیں ہم لوگ
اک متاع ِ دل و جاں پاس تھی سو ہار چکے
ہائے یہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں ہم لوگ
نکہت ِ گل کی طرح ناز سے چلنے والو
ہم بھی کہتے تھے کہ آسودہ جاں ہیں ہم لوگ
کوئی بتلائے کہ کیسے یہ خبر عام کریں
ڈھونڈتی ہے جسے دنیا وہ نشاں ہیں ہم لوگ
قمست شب زدگاں جاگ ہی جائے گی علیم
جرسِ قافلہ خوش خبراں ہیں ہم لوگ
Bookmarks