کوئے خواہش میں خم بہ خم ٹھہروں
دم نہ لوں اور دم بہ دم ٹھہروں
فرصت ِ یک نفس نہیں ورنہ
میں تو خود میں قدم قدم ٹھہروں
دور ِ مستی میں جام ٹھرے تُو
میں جو ہوں، میری جاں ! جم ٹھہروں
آرزو ہے کہ دشت ِ وحشت میں
اے غزالہ! میں تیرا رم ٹھہروں
میں ہوں ایک ایسی راہ میں کہ جہاں
نہ چلوں اور بہت ہی کم ٹھہروں
ساری دنیا کے غم ہیں میرے غم
میں بھی اخر کسی کا غم ٹھہروں
ایک ہوس ہے کہ تیرے لب پر میں
اپنی ہی جان کی قسم ٹھہروں
صحفہ ذات پر رقم ہو حیات
تو دوات اور میں قلم ٹھہروں
Bookmarks