Results 1 to 2 of 2

Thread: نیک نیتی سے بدعت ایجاد کرنا

  1. #1
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow نیک نیتی سے بدعت ایجاد کرنا



    کچھ بھائیوں کے ذہن میں آنے والا ایک خیال جس کا اظہار بعض دفعہ زبان سے بھی ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں لیکن وہ انہیں اچھی نیت سے کرتے ہیں۔ و0 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:
    انما الاعمال بالنیات
    “اعمال نیتوں سے ہیں”
    ان کے استدلال اور باتوں کے بارے میں حق بات معلوم کرنے کے لیے میں کہتا ہوں:
    جو مسلمان حق کو پانا چاہتا ہے، حق کی معرفت کا طلبگار ہے اور حق پر عمل کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سنت نبوی کی تمام نصوص کو سامنے رکھے نہ یہ کہ بعض کو اختیار کرے اور بعض کو ترک کر دے۔ یہی طریقہ ہے حق سے قریب اور خطا سے دور ہونے کا۔
    اس مسئلے میں صحیح بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان “اعمال نیتوں سے ہیں”، ان دو شرائط میں سے ایک ہے جن پر عبادت کے درست ہونے اور اسکی قبولیت کا دارومدار ہے۔ پہلی یہ کہ جو عمل بھی کیا جائے وہ سچے دل سے خالصتًا اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، اس میں غیراللہ کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ دوسری یہ کہ وہ عمل سنت کے موافق ہو۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے:
    من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد

    "جِس نے ایسا کام کیا جو ہمارے طریقے کے مطابق نہیں تو وہ کام مردود ہے
    (صحیح مسلم کتاب الاقضیہ باب
    نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمورآن لائن لنک۔
    ان دو عظیم الشان حدیثوں میں دین کے اصول و فروع، ظاہر اور باطن بلکہ پورا دین داخل ہے۔ پہلی حدیث یعنی “اعمال نیتوں سے ہیں” اعمال کے باطن کی اصلاح کرتی ہے اور دوسری حدیث “جس نے کوئی بھی ایسا عمل کیا ۔ ۔ ۔” اعمال کی ظاہری صورت کے لیے میزان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی متابعت اور پیروی ہر قول و عمل کے ظاہر و باطن کو جانچنے کا پیمانہ ہیں۔ جس نے اعمال کو اللہ کے لیے خالص کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اتباع کی تو اس کا عمل مقبول ہے اور جس نے ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو چھوڑا تو اس کا عمل مردود اور ناقابل قبول ہے۔
    اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے:
    لیبلوکم ایکم احسن عملا (سورۃ الملک آیت 2)
    “تا کہ اللہ آزمائے کہ تم میں سے اچھا عمل کرنے والا کون ہے”

  2. #2
    tiks88's Avatar
    tiks88 is offline Senior Member+
    Last Online
    28th October 2016 @ 06:59 PM
    Join Date
    09 Jul 2009
    Location
    Jeddah
    Age
    51
    Posts
    388
    Threads
    95
    Credits
    0
    Thanked
    55

    Arrow بدعت

    فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
    “اچھے عمل سے مراد یہ ہے کہ وہ خالص ہو اور درست ہو۔ عمل خالص ہو لیکن درست نہ ہو تو قبول نہ ہو گا اور درست ہو لیکن خالص نہ ہو تو بھی قبولیت نہ پا سکے گا۔ خالص سے مراد یہ ہے کہ اسے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جائے اور درست ہونے کا مطلب ہے کہ وہ سنت نبوی کے مطابق ہو” (ابونعیم فی حلیۃ الاولیاء8/95، تفسیر بغوی 5/ 419، علم اصول البدع للشیخ علی بن حسن ص 61)
    تابعین اور تبع تابعین میں سے بعض کا کہنا ہے کہ
    “ ہر چھوٹے بڑے عمل کے لیے دو دیوان نشر کیے جاتے ہیں (یعنی اس کی قبولیت کو دو پیمانوں سے ناپا جاتا ہے) پہلا یہ کہ “عمل کس لیے کیا” اور دوسرا یہ کہ “عمل کس طرح کیا”۔
    “عمل کس لیے کیا” کا مطلب ہے کہ اس کے پیچھے کیا نیت، محرک اور باعث تھا۔ دنیا کے فوائد سمیٹنے، لوگوں سے تعریف سننے اور ان کی تنقید سے بچنے وغیرہ کے لیے کیا یا اللہ کی عبادت، اللہ کی محبت میں اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کیا۔
    “کس طرح کیا” یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر کے مطابق تھا یا اپنی مرضی اور فہم سے نکالا گیا ۔
    اِمام البیہقی نے اپنی '''سنن الکبری ''' میں صحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا کہ ''' سعید بن المُسیب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر طلوع ہونے کے بعد دو رکعت سے زیادہ نماز پڑہتا ہے اور اِس نماز میں خوب رکوع اور سجدے کرتا ہے تو سعید رحمۃ اللہ علیہ نے اُسے اِس کام سے منع کیا ،
    اُس آدمی نے کہا:
    ::: یا ابَا مُحَمَّدٍ یُعَذِّبُنِی اللَّہ ُ عَلٰی الصَّلَاۃِ
    اے ابا محمد کیا اللہ مجھے نماز پر عذاب دے گا ؟ :
    :: تو سعید رحمۃُ اللہ علیہ نے جواب دِیا :
    :: لَا وَلَکِن یُعَذِّبُکَ اللہ بِخِلَافِ السُّنَّۃِ '
    '' نہیں لیکن تمہیں سُنّت کی خِلاف ورزی پر عذاب دے گا ''' :
    :: سنن البیہقی الکبریٰ / حدیث٤٢٣٤ /کتاب الصلاۃ /باب ٥٩٣ من لم یصل بعد الفجر الا رکعتی الفجر ثم بادر بالفرض ، کی آخری روایت ، اِمام الالبانی نے "اِرواء الغلیل جلد 2 ، صفحہ 234 " میں اِس رواہت کو صحیح قرار دِیا ،
    قارئین کرام ، یہ میرا نہیں ، دو چار سو سال پہلے بنے ہوئے کسی """ فرقے """ کا نہیں ، ایک تابعی کا فتویٰ ہے ، اِس پر غور فرمائیے ، اور بار بار فرمائیے۔

    خلاصہ کلام یہ کہ نیک نیتی سے کیا گیا ہر کام قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مہرتصدیق ثبت نہ ہو۔ اور نیک نیتی اسی وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے جب عمل بذات خود درست ہو

Similar Threads

  1. Replies: 13
    Last Post: 6th August 2014, 04:29 AM
  2. Replies: 57
    Last Post: 31st March 2013, 02:22 PM
  3. Replies: 20
    Last Post: 17th December 2010, 11:45 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •