اپنے بوجھ کو ڈھوتے آدمی تھک جاتا ہے
دن بھر فا رغ بیٹھے آ دمی تھک جاتا ہے
ہم سفروں سے باتیں کرتے وقت گزرتا رہتا ہے
تنہاچلتیچلتے آدمی تھک جاتاہے
اب تک تیر ے ناز اٹھائے جاتے ہیں
آ خر رنج ا ٹھا تے آدمی تھک جاتاہے
جیون لمبی دوڑ ہے اتنا تیز نہ چل
کہتے ہیں کہ ا یسے آدمی تھک جاتا ہے
اک دن شاید ہم بھی ہجرت کر جائیں
طا قتور سے لڑ تے آدمی تھک جاتا ہے
بجھ جا نے سے پہلے شمع دیکھ ذرا
رک جا نے سے پہلے آدمی تھک جاتا ہے
آ خر شعر میں سچی با تیں آ جا تی ہیں
آ خر جھو ٹ سنا تے آدمی تھک جاتا ہے
چھوٹی چھوٹی باتیں سادہ لفظوں میں
اتنا زیادہ سو چے آدمی تھک جاتا ہے
تیرا میرا جیون سب اک سایا ہے
اس کے پیچھے بھا گے آدمی تھک جاتا ہے
Bookmarks