امریکی حکومت کی جانب سے سی آئی اے کے کئی تفتیشی افسران اور کنٹریکٹرز سے اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات کے لئے اٹارنی جنرل ہولڈر کو آزاد کونسل کے قیام کی ہدایت احتساب کی جانب پہلا قدم تو قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن صرف یہی کچھ کرنا کافی نہیں ہے۔ الزام ثابت ہونے پر سی آئی اے کے افسران کے خلاف ممکنہ طور پر اختیارات سے تجاوز کا مقدمہ چل سکتا ہے کیونکہ محکمہ انصاف نے ان افسران کو لامحدود اختیارات تفویض نہیں کئے تھے۔
حق تو یہ ہے کہ تفتیشی افسران کے ساتھ اُن حکام کا بھی احتساب ہو جنہوں نے مجرمانہ اقدامات کئے۔ سی آئی اے کو ملزمان کے ساتھ نہایت سفاکانہ، ظالمانہ اور تشدد آمیز تفتیشی طریقے استعمال کرنے کی اجازت دینے والوں کو دائرہ قانون میں لانے کے بجائے صرف تفتیش کاروں سے تحقیقات کرنا حقیقی احتساب نہیں ہو گا بلکہ اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ حقیقی کرداروں کے بجائے دوسروں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے ۔
اس سارے معاملے کی جامع تحقیقات وقت کی ضرورت ہے۔ احتساب کا یہ عمل صرف نچلے درجے کے افسران تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس کا دائرہ اُن اعلیٰ شخصیات تک بھی بڑھایا جائے جو امریکی قوم کو تشدد کے راستے پر ڈالنے کی حقیقی ذمہ دار ہیں۔
اس سلسلے میں محکمہ انصاف کے لیگل کونسل کے وکلاء کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جن کی قانونی پیچیدگیوں کے نتیجے میں آج حالات تحقیقات تک پہنچ چکے ہیں۔ محکمہ انصاف کے جان یو، جے بائی بی اور سٹیون بریڈبری سمیت کئی وکلاء نے سن 2002 سے لے کر سن2005 تک ایسی متعدد یادداشتیں لکھی ہیں کہ جن کا قانون دانوں نے غلط مطلب اخذ کیا اور سی آئی اے کو ملزمان سے تفتیش کے لئے تشدد کا راستہ اپنانے کا راستہ مل گیا۔ پھر سی آئی اے بھی پیچھے نہیں رہی اور مشتبہ ملزمان کو بند سلاخوں کے پیچھے رکھنے سمیت تشدد کا ہر حربہ آزما ڈالا۔ ملزمان کو برہنہ ہونے پر مجبور کیا اور کئی گھنٹے انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دو چار کئے رکھا۔ دوران تفتیش بیان اگلوانے کے لئے ملزمان کو برہنہ کر کے اُن کے جسموں پر پانی بھی پھینکا جاتا رہا۔
محکمہ انصاف کے قانون دانوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ سی آئی اے کو اس تمام عمل اور ملزمان کے ساتھ روا رکھے گئے طریقہ کار کے غیر قانونی ہونے سے آگاہ کرتے، لیکن قانونی الفاظ اور منطق کی غلط تشریح کرتے ہوئے وہ بھی ان طریقوں کے جائز ہونے کی سازش میں شریک رہے۔
اس معاملے کی شفاف تحقیقات تو اُسی وقت ممکن ہے جب بش کابینہ کے اُن حکام کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جنہوں نے براہ راست یہ طریقے اپنانے کی منظوری دی۔ کہا جاتا ہے کہ بش انتظامیہ کے ان ارکان میں نائب صدر ڈک چینی، اٹارنی جنرل جان ایشکرافٹ، وہائٹ ہاؤس کے کونسل البرٹو گونزلز اور اُس وقت کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈو لیزا رائس شامل ہیں۔ سابقہ امریکی صدر کی انتظامیہ میں شامل یہ تمام شخصیات نہ صرف بااثر اور طاقت ور تھیں بلکہ اُن کے ایک دوسرے کے ساتھ گہرے روابط بھی تھے، لیکن ان افراد کو کسی بھی طرح اس بات کی تحقیقات سے مبرا نہیں کیا جانا چاہیے کہ امریکی قوم کو تشدد کے راستے پر ڈالنے میں ان کا کتنا کردار اور عمل دخل تھا۔
فی الحال اس سوال کا جواب تو نہیں دیا جا سکتا کہ آیا ان بااثر شخصیات پر مقدمہ چل سکتا ہے یا نہیں، لیکن اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ یہ حکام سی آئی اے کے اُن جرائم میں برابر کے شریک ضرور رہے ہیں جن کے تحت ملزمان سے تفتیش کے لئے تشدد کا راستہ اپنایا گیا۔ اگر امریکی قوم صرف اُن لوگوں کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہے جن کے پاس کوئی سیاسی طاقت نہیں ہے تو پھر قانون کی حکمرانی کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکا میں اس تجربے سے پاکستان جیسی نئی اور ابھرتی ہوئی جمہوریت کے لئے کیا سبق پنہاں ہے؟ اگر پاکستان میں بھی احتساب کے نام پر صرف آئی ایس آئی کے چند افسران کو سزا دے دی جائے تو کیا امریکا آئی ایس آئی کے مبینہ غلط کاموں کی شکایتیں بند کر دے گا، میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔
امریکا کی طرح پاکستان میں بھی ماضی میں انٹیلی جنس اداروں نے طاقت کا غلط استعمال کیا ہے۔ مستقبل میں یہ مشق روکنے کے لئے ان اداروں کی اصلاحات کا معاملہ سرفہرست ہونا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو جمہوریت کا مستحکم سفر شروع کرنے سے پہلے آئی ایس آئی کی غیر آئینی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو درست کرنا چاہیے۔
حکومت پاکستان کو لازمی طور پر سول اور فوجی خفیہ اداروں کو الگ الگ کرنا ہو گا۔ آئی ایس آئی کے سابق ایجنٹس کی سول اداروں اور خصوصی طور پر آئی بی میں شمولیت محدود یا مکمل طور پر روک دی جانی چاہیے ۔ ایک ہی جیسی خدمات انجام دینے والے افراد کی ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں منتقلی سے اداروں کی آزادی قائم نہیں رہتی۔
پاکستان کو پولیس فورس بھی مزید مضبوط اور تربیت یافتہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اچھی تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس پولیس فورس دہشت گردوں کی سرگرمیاں روکنے میں بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔ فی الحال پاکستان میں یہ کام انٹیلی جنس ایجنسیاں کر رہی ہیں اور اس طرح انہیں ملکی سیاست میں اپنی سرگرمیوں کو قانونی حیثیت دینے کا جواز بھی مل جاتا ہے۔
امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت پاکستان ایرک ہولڈر کے اس جرات مندانہ اقدام سے سبق سیکھتے ہوئے جمہوری اداروں کے استحکام کی کوششیں کرے گی اور اُن لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا جنہوں نے ہماری محبوب قوم کو اپنی خوہشات کی بھینٹ چڑھایا ہے
Bookmarks