ہم سے پھر شمس و قمر چھین لیا
ایک دربان نے در چھین لیا
اس نے بیگا ر میں چلنا لکھا
اس نے تاوان میں سر چھین لیا
بات کرنے کی سزا یہ دی ہے
بات کرنے کا ہنر چھین لیا
حوصلہ گھر سے نکل جا نے کا
دل نے پھر وقت سفر چھین لیا
کتنے معصو م پرندوں کا کلیم
ایک طوفان نے گھر چھین لیا
Bookmarks