د و دو د ر وا ز ے تھے تین دریچے تھے
چھوٹا سا اک گھر تھا گھر میں رشتے تھے
کو ن بنا تا بگڑی ہوئی تقدیر وں کو
کو ن مٹا تا ہاتھوں پر جو نقشے تھے
اک گٹھڑی میں یادیں روشن چہروں کی
اک گٹھڑی میں سورج ، چاند ، ستارے تھے
یوں بستی کے ا و پر گدھ منڈلاتے تھے
جیسے مر دہ لو گ یہا ں پر بستے تھے
اس کی آنکھ میں آنسو تیرتے رہتے ہیں
اس کو جانے مجھ سے کیا کیا شکوے تھے
گھر آنگن کے پیڑ پہ پنچھی ہو تے تھے
دن بھر اڑتے شام کو واپس آ جاتے تھے
اب تو نیند کی گولی کھا کے سوتا ہوں
ان آنکھوں میں خواب مچلتے رہتے تھے
Bookmarks