بساطِ تارِ نظر میں جو شکل یار نہ تھی
ہزار پھول کھلے تھے مگر بہار نہ تھی
یہ اور بات کہ ایسا غبا ر نہ تھا کبھی
فضائے شہر تو پہلے بھی ساز گار نہ تھی
جنوں میں اب کے کوئی اور غم بھی شامل ہے
قبا دریدہ سہی یوں بھی تار تار نہ تھی
وہ عمر بھر کی تھکن ساتھ لے کے سو ہی گیا
وہ ایک پل بھی جسے تابِ انتظار نہ تھی
کہاں سے آئے گی سوچو تو موسموں میں نمی
کسی کی آنکھ بھی ساون میں اشک بار نہ تھی
Bookmarks