Results 1 to 2 of 2

Thread: چینی بحران ، حکمرانوں کی ڈکیتی

  1. #1
    waseem1963's Avatar
    waseem1963 is offline Senior Member+
    Last Online
    5th September 2020 @ 04:59 PM
    Join Date
    11 Apr 2009
    Age
    60
    Posts
    1,782
    Threads
    816
    Credits
    1,235
    Thanked
    601

    Arrow چینی بحران ، حکمرانوں کی ڈکیتی



    لاہو ر (عظمان عمر) بحران بلا وجہ جنم نہیں لیتے ایسے بحران جن کا پاکستانی قوم کو گزشتہ 62 سال سے سامنا ہے ان کی پشت پناہی ہر دور میں حکمران طبقہ یا سرکاری مشینری نے کی۔ ورنہ کوئی مافیا حکومت کو بے بس کر دے یہ بات حلق سے نہیں اترتی ، حکمران اگر دیانتداری اور عوام کو ریلیف دینے کے خواہش مند ہوں تو مضبوط سے مضبوط مافیا بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

    کچھ بہت پرانی بات نہیں اب بھی تاریخ کے طالب علموں کے ذہن میں وہ واقعہ تازہ پڑگا، جب چین میں حکومتی جماعت کے 25 اراکین پر مشتمل کا رٹل نے غذائی اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیاءکی قیمت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی، حکمرانی جماعت نے فوری ایکشن لیا اور کمیونسٹ پارٹی سربراہ ڈونگ کے حکم پر ان منافع خور اور ذخیرہ اندوز ارکان کو فائرنگ سکواڈ کے حوالے کر دیا گیا جس نے انہیں سر عام گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تب سے آج تک چین میں غذائی اجناس کا بحران پیدا نہیں ہوا۔ پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت والے ممالک میں شمار ہے اور اس فہرست میں اس کا گیارہواں نمبر ہے لیکن حال ہی میں چینی کے خود ساختہ بحران اور من مرضی کی قیمتیں مقرر کرانے کیلئے پاکستان شوگر مافیا نے جو گیم کھیلی ہے اور جس طرح پوری حکومت کو بے بس کر کے اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کی۔ وہ امریکی اور یورپی تاجروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گی اور دلچسپ بات ہے اس مافیا میں صدر مملکت آصف زرداری، اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف اور سابق وزیز اعظم چودھری شجاعت حسین سمیت دیگر ارکان اسمبلی 26 شوگر ملوں کے مالک ہیں شریف برادران کی ملوں کی تعداد 10، چودھری برادران اور ان کے ساتھیوں کی 9 ملیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان کی ملکیتی ملوں کی تعداد 6 ہے سرحد میں قائم 6 شوگر ملوں میں سے 5 ملیں ایک وفاقی وزیر کے خاندان کی ملکیت ہیں ملک بھر میں 78 شوگر ملوں میں سے نصب سیاستدانوں کی ملکیت ہیں اور حالیہ بحران میں سیاستدانوں کی ملکیتی ملوں نے بلا جواز چینی کے نرخ میں 20 روپے کلو اضافہ کر کے 20 سے 25 ارب روپے کمائے ہیں اور اس حرام کی کمائی سے اپنے 72 فیصد بنک قرضے ادا کر دئیے ہیں۔

    یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سٹیٹ بینک اور کمرشل بنکوں نے بھی اس حوالے سے انتہائی گھناﺅنا کردار ادا کیا ہے مختلف بنکوں نے چینی کے 12 لاکھٹن سے زائد سٹاک ہو ان شوگر ملوں کو دئیے جانے والے قرضوں کی واپسی کی معیار جون 2009ءسے بڑھا کر اکتوبر 2009ءکر دی۔ جس سے شوگر ملوں نے دہرا فائدہ اٹھایا۔ انکا سرمایہ بھی .... رہا اور انہوں نے یہ سرمایہ مارکیٹ میں پھیلا کر اربوں روپے کمالیہ، کیونکہ جو چینی 30 سے 35 روپے کلو گروی رکوائی گئی تھی وہ اس وقت 55 روپے کلو ہے حکومتی شخصیات کے پیدا کردہ اس بحران میں سٹیٹ بنک نے قرضوں کی واپسی کی معیار بڑھا کر شوگر ملز مالکان کو چینی کا سٹاک کرنے کیلئے دراصل سرمایہ فراہم کیا۔ پاکستان میں رواں سال چینی کی پیداوار 32 لاکھ ٹن رہی جبکہ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق چینی کی طلب 36 لاکھ ٹن ہے اس طرح ہمیں چار لاکھ ٹن چینی کی قلت کا سامنا ہے جبکہ کابینہ کو ری بریفنگ میں بتایا کہ اس وقت ملک میں 12 لاکھ ٹن چینی کے ذخائر موجود ہیں جب اتنی بڑی مقدار میں چینی ملک میںموجود تھی تو مصنوعی قلت کیوں کر پیدا ہوئی ٹریڈنگ کارپوریشن ملز مالکان کے مطالبہ کے جواب میں فوری سرکاری سٹاک مارکیٹ میں لے آئی تو سازش ناکام ہو جاتی۔ دوسری طرف وزارت پیداوار نے قلت پوری کرنے کیلئے چینی درآمد کرنے کیلئے اپریل میں ٹینڈر جاری کئے۔ لیکن نامعلوم وجوہ کی بنیاد پر بعدازاں منسوح کر دئیے گئے جبکہ وفاقی وزیر پیداوار منظور وٹو متعدد بار کابینہ کو چینی کی قیمت میں اضافہ کی سفارش کر چکے تھے۔ اس تناظر میں واضح دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے با اثر ارکان اسمبلی، وزرائ، سٹیٹ بنک، ٹریڈنگ، کارپوریشن اور وزارت پیداوار عوام کی جیبوں پر دن دہاڑے ڈکیتی کے ذمہ دار ہیں اور یہ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ ہائیکورٹ کے حکم کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کردیا گیا ہے جس سنے ملک بھر میں چینی 40 روپے کلو میں فروخت کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

    وزارت پیداوار نے بحران کے بعد چینی کی درآمد کی اجازت حاصل کر لی ہے لیکن لگتا ہے کہ درآمدی چینی آئندہ سال کا کرشنگ سیزن شروع ہونے کے بعد پاکستان پہنچے گی اور تب پاکستان شوگر مافیا 20 روپے فی منافع کے ساتھ اپنی سٹاک چینی فروخت کر چکا ہو گا۔ حیرتناک بات یہ ہے کہ کریک ڈاﺅن کے دوران نشانہ صرف وہ ڈیلر بنے جنہوں نے سو پچاس بوریاں ذخیرہ کر رکھی تھیں مگر ہزاروں بوریاں ذخیرہ کرنے والے اس آپریشن میں محفوظ رہے حکومت اداروں اور کریک ڈاﺅن کرنے والوں نے مگر مچھوں کو کیوں چھوڑا؟ اس کا جواب حکمران دیں گے مگر وہ جواب نہیں دینگے اس لئے کہ وہ خود چینی بحران کے ذمہ دار ہیں۔

  2. #2
    mkasikandar's Avatar
    mkasikandar is offline Senior Member+
    Last Online
    6th May 2015 @ 02:27 PM
    Join Date
    14 Nov 2006
    Location
    »-(¯`v´¯)-» Hujra »-(¯`v´¯)-»
    Posts
    4,003
    Threads
    119
    Credits
    980
    Thanked
    50

    Default

    جب چین میں حکومتی جماعت کے 25 اراکین پر مشتمل کا رٹل نے غذائی اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیاءکی قیمت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی، حکمرانی جماعت نے فوری ایکشن لیا اور کمیونسٹ پارٹی سربراہ ڈونگ کے حکم پر ان منافع خور اور ذخیرہ اندوز ارکان کو فائرنگ سکواڈ کے حوالے کر دیا گیا جس نے انہیں سر عام گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تب سے آج تک چین میں غذائی اجناس کا بحران پیدا نہیں ہوا۔
    ======================
    کاش ایسی سزائیں یہاں کے بالا طبقے کو بھی ملے جب وہ کسی ایسی جرم میں ملوث پائے جائے

Similar Threads

  1. Replies: 15
    Last Post: 18th March 2017, 09:01 AM
  2. Replies: 1
    Last Post: 2nd April 2012, 10:13 PM
  3. Replies: 0
    Last Post: 21st October 2011, 12:34 AM
  4. Replies: 7
    Last Post: 27th February 2010, 05:35 PM
  5. Replies: 0
    Last Post: 17th September 2009, 04:26 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •