Results 1 to 4 of 4

Thread: سورۃ آل عمران آیت نمبر (۱۵۹)۔

  1. #1
    hazratg is offline Senior Member+
    Last Online
    20th April 2007 @ 06:54 AM
    Join Date
    21 Feb 2007
    Age
    58
    Posts
    45
    Threads
    13
    Credits
    1,000
    Thanked
    0

    Default سورۃ آل عمران آیت نمبر (۱۵۹)۔

    سورۃ آل عمران آیت نمبر (۱۵۹)۔


    ترجمہ :
    پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب سے تو ان کیلئے نرم ہوگیا اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو ضرور تیرے گرد سے بھاگ جاتے پس انہیں معاف کردے اور ان کے واسطے بخشش مانگ اور کام میں ان سے مشورہ لیا کر پھر جب تو اس کام کا ارادہ کرچکا تو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
    معارف الجہاد:
    غزوہ احدکے موقع پر اگر چہ آپ کے بعض مخلص رفقاء سے غلطی سرزد ہوئی۔۔۔۔۔۔ اس غلطی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ان پر سختی کرتے تو آپ حق بجانب تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اللہ تعالیٰ کافضل ہے کہ آپ ان کے لئے نرم مزاج ہیں۔۔۔۔۔۔ (اس نرم مزاجی کو اللہ تعالیٰ کا فضل اوررحمت اس لئے فرمایا کہ خوش اخلاقی عبادت ہے اورعبادت کی توفیق اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہوتی ہے) اگر آپ سخت مزاج اورسخت دل والے ہوتے تویہ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے (پھر ان کویہ فیوض و برکات کیسے میسر ہوتے ) پس آپ کے حکم میں ان سے جو کوتاہی ہوئی ہے اس کو آپ (دل سے بھی) انکو معاف کر دیجئے (اور جو کچھ ان سے اللہ تعالیٰ کے حکم میں کوتاہی ہوئی) اس میں آپ ان کے لئے استغفار کیجئے آپ کا استغفار ان کے ساتھ آپ کی زیادہ شفقت کی علامت ہوگی جس سے ان کو اورزیادہ خوشی نصیب ہوگی اورآپ (بدستور) ان سے خاص خاص باتوں (مثلا ً جہاد وجنگ وغیرہ کے معاملات) میں مشورہ لیتے رہا کیجئے (تاکہ امت میں مشورہ کی سنت قائم ہوجائے اورمسلمانوں کی جماعت مضبوط ہوجائے) پھر (مشورہ لینے کے بعد) جب آپ (ایک جانب)رائے پختہ کرلیں (خواہ وہ ان کے مشورہ کے موافق ہو یا مخالف ہو) تو اللہ تعالیٰ پر اعتماد (کر کے اس کا م کوکر ڈالا)کیجئے بے شک اللہ تعالیٰ اپنے اوپر توکل کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔ (مستفاد من بیان القرآن وجلالین وغیرھما)
    فائدہ
    سورۃ آل عمران کی اس آیت ( ١٥٩)سے لےکر آیت (١٦٤) تک مسلمانوں کے امیر اورقائد کی صفات کا بیان ہے کہ اس میں کون کون سی صفات ہونی چاہئیں اوراس بات کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتاہے کہ جب شکست کیوجہ سے جماعت کا شیرازہ بکھر چکا ہو تو امیر جماعت کو جماعت کو جوڑنے اوردوبارہ ابھارنے کے لئے کیا کیا اقدامات کرنے چاہئیں۔ نیز شکست کے بعد امیر اورمامورین کے تعلق میں جو کھچاؤ اورپھیکاپن آجاتا ہے اس کو دور کرنے کا طریقہ بھی سمجھا یا گیا کہ امیر اپنے دل کو صاف کر کے نرمی کا معاملہ کرے ، شوریٰ کانظام قائم کرے وغیرہ اورمامورین اپنے امیر کے خلاف منافقین کے پھیلائے ہوئے وساوس کا شکار نہ ہوں بلکہ پہلے سے بڑھ کر اسکی قدرومنزلت اپنے دل میں رکھےں تاکہ اطاعت آسان رہے اورجماعت مضبوط ہو۔ (و اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)۔

  2. #2
    hazratg is offline Senior Member+
    Last Online
    20th April 2007 @ 06:54 AM
    Join Date
    21 Feb 2007
    Age
    58
    Posts
    45
    Threads
    13
    Credits
    1,000
    Thanked
    0

    Default

    اقوال وحوالے
    (١) مسلمانوں کو ان کی کوتاہیوں پر متنبہ فرمانے اورمعافی کا اعلان سنانے کے بعد نصیحت کی تھی کہ آئندہ اس مار آستین (منافقین کی) جماعت کی باتوں سے فریب مت کھانا اس آیت میں ان کے عفو تقصیر ( یعنی غلطی کی معافی) کی تکمیل کی گئی ہے۔ چونکہ جنگ احد میں سخت خوفناک غلطی اورزبردست کو تاہی مسلمانوں سے ہوئی تھی۔ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل خفا ہو اہوگا اورچا ہا ہوگاکہ آئندہ ان سے مشورہ لےکر کام نہ کیا جائے اس لئے حق تعالیٰ نے نہایت عجیب پیرایہ (یعنی انداز ) میں ان کی سفارش کی۔ اوّل اپنی طرف سے معافی کا اعلان کر دیا، کیونکہ خدا کو معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ اوررنج خالص اپنے پروردگار کے لئے ہوتا ہے پھر فرمایا فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم یعنی اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی رحمت آپ پر اور ان پر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر خوش اخلاق اورنرم خو بنادیا۔ کوئی اورہوتا تو خدا جانے ایسے سخت معاملہ میں کیا رویہ اختیار کرتا، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی مہربانی ہے کہ تجھ جیسا شفیق ،نرم دل پیغمبر ان کو مل گیا۔ فرض کیجئے اگر خدا نخواستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سخت ہوتا اورمزاج میں شدت ہوتی تو یہ قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کہاں جمع رہ سکتی تھی۔ ان سے کوئی غلطی ہوتی اورآپ سخت پکڑتے تو شرم ودہشت کے مارے پاس بھی نہ آسکتے اس طرح یہ لوگ بڑی خیر اورسعادت سے محروم رہ جاتے اورجمعیت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا لیکن حق تعالیٰ نے آپ کو نرم دل اورنرم خو بنایا۔ آپ اصلاح کے ساتھ ان کی کوتاہیوں سے اغماض (یعنی چشم پوشی) کرتے رہتے ہیں۔سو یہ کوتاہی بھی جہاں تک آپ کے حقوق کا تعلق ہے معاف کردیجئے اور گو خدا اپنا حق معاف کر چکا ہے ، تاہم ان کی مزید دلجوئی اور تطییب خاطر کے لئے ہم سے بھی ان کے لئے معافی طلب کریں تا(کہ ) یہ شکستہ دل آپکی خوشنودی اورانبساط محسوس کرکے بالکل مطمئن اورمنشرح ہوجائیں اورصرف معاف کردینا ہی نہیں آئندہ بدستور ان سے معاملات میں مشورہ لیا کریں ،مشاورت کے بعد جب ایک بات طے ہوجائے اورپختہ ارادہ کر لیا جائے پھر خدا پر توکل کر کے اس کو بلا پس وپیش کر گذریئے، خدا تعالیٰ متوکلین کو پسند کر تا اوران کے کام بنا دیتا ہے۔ (تفسیرعثمانی)
    تنبیہ
    حضرت علی کر م اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا ''عزم'' کیا ہے؟ فرمایا مشاورۃ اہل الرائے ثم اتباعھم (ابن کثیر)اور مجمع الزوائد میں حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے یارسول اللہ جو بات ہم کتاب و سنت میں نہ پائیں اس میںکیا طریقہ استعمال کریں ؟ فرمایا فقہاء عابدین (سمجھدار خدا پرستوں ) سے مشورہ کرو ولا تمضو افیہ رأی خاصہ اور کسی اکی دکی کی رائے مت جاری کرو( تفسیر عثمانی)
    (٢) نرمی کی حدود:
    لیکن نرمی و ملاطفت کے بھی شریعت میں حدود مقرر ہیں ، جہاں دین کی توہین ہورہی ہو یا احکام دین کے اجرا کی ضرورت ہو وہاں سختی اورسز ا لازم ہوجاتی ہے۔
    اللین والرفق انما یجوز اذالم یفض الی امھال حق من حقوق اللہ فاما اذا ادی الی ذلک لم یجز (کبیر) (تفسیر ماجدی)
    (٣) اسلام کے نظام سیاسی کو شخصی اورجمہوری (یا عمومی) دونوں سے الگ جو نظام شوریٰ دیا گیا اسکی یہ ایک اہم بنیادیہی آیت قرآنی ہے۔ اس مشاورت کے بارے میں دونوں قول فقہا ء امت سے منقول ہیں ، ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مشورہ لینا واجب تھا۔ دوسرا یہ کہ محض مستحب تھا ،وقد اختلف الفقہاء ھل کان واجباً علیہ او من باب ا لندب تطییبا لقلو بھم علی قولین (ابن کثیر ) ظاہرالامر للوجوب فقولہ شاورھم یقتضی الوجوب وحمل الشافعی رحمہ اللہ ذلک علی الندب (کثیر)
    بہر صورت (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی) عادت مبار ک مشورہ کی تھی بہت زائد (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت کثرت سے مشورہ فرماتے تھے) عن عروۃ عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہاقالت مارأیت رجلاً اکثر استشارۃ ً للر جال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (معالم) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشورہ کرنے والا نہیں دیکھا (تفسیر ماجدی)
    (٤) فیصلہ کثرت رائے پر یا ؟
    اس سے معلوم ہو ا کہ امور انتظامیہ متعلقہ بالرائے والمشورہ(یعنی وہ انتظامی معاملات جن میں رائے اورمشور ہ لینے کا حکم فرمایاگیا) میں کثرت رائے کا ضابطہ محض بے اصل ہے ورنہ یہاں عزم میں یہ قید ہوتی کہ بشرطیکہ آپ کا عزم کثرت رائے کے خلاف نہ ہو( بیان القرآن)
    (٥) امیر کی نرم مزاجی محبوب ہے
    وقال علیہ الصلوۃ والسلام لاحلم احب الی اللہ تعالیٰ من حلم امام ورفقہ ولا جھل ابغض الی اللہ من جھل امام وخرقہ۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ امیر کا تحمل اور اسکی نرمی اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اورامیر کی جہالت اورخودسری اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے( تفسیر کبیر)
    (٦) خوش اخلاقی کی وجہ
    حسن خلق کا باعث یہ ہوتاہے کہ جب روح پر انوار قدس (یعنی مقدس انوارات) فائض (یعنی جاری) ہوتے ہیں تو اس (روح) کی قوت نظریہ اورعلمیہ (یعنی عقیدہ اورعمل کی قوت) دونوں مکمل ہوجاتی ہیں پھر جو کچھ صدمہ اس کو پہنچتا ہے اس کو خدا ہی کی طرف سے جانتا ہے نہ کسی پر اس کو (اپنی ذات کی خاطر) غصہ آتاہے نہ ( اپنی ذا ت کے لئے) انتقام لیتاہے یا جو راحت (اس کے) غیر کو پہنچتی ہے حسد نہیں کرتا علی ھذا القیاس جس قدر باتیں بدخلقی کی خام خیالی کے متعلق ہیں سب دور ہوجاتی ہیں اور جب اس کو روحانیات کا مشاہدہ ہوتا ہے تو جسمانیات اوریہاں کے لذائذ اسکی آنکھو ں میں حقیر ہوجاتے ہیں۔ نہ شہوت ناجائز رہتی ہے نہ حب جاہ و مال جو تمام خرابیوں کا سر چشمہ ہے اوراسی لئے بزرگوں کے اخلاق حمیدہ (یعنی اچھے اورپسندیدہ ) ہوتے ہیں۔ آنحضرت علیہ السلام کے اخلاق اس درجہ حمیدہ تھے کہ قرآن میںمتعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے آپکی مدح کی ہے انک لعلی خلق عظیم(تفسیرحقانی)
    (٧) بعض جگہ سختی کا حکم
    انہ تعالیٰ منعہ من الغلظۃ فی ھذہ الایۃ وامرہ بالغلظۃ فی قولہ واغلظ علیھم (التوبہ٧٣) فھھنا نھاہ عن الغلظۃ علی المومنین وھناک امرہ بالغلظۃ مع الکافرین الخ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سختی کرنے سے منع فرمایا اوردوسری جگہ فرمایا واغلظ علیھم اورآپ ان پر سختی کریں تو دراصل یہاں آپ کو مسلمانوں پر سختی کرنے سے روکا گیا اور وہاں کافروں پر سختی کرنے کاحکم دیا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین(المائد٥٤)کہ وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب لوگ مسلمانوں کے لئے نرم ہوںگے اور کافروں کے لئے سخت ہوںگے۔
    اور اللہ تعالیٰ کا فرمان اشداء علی الکفار رحماء بینھم (الفتح٢٩)
    (صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کافروں پر سخت اورآپس میں رحم دل ہیں )
    تحقیقی بات یہ ہے کہ افراط اورتفریط دونوں بُری ہیں اورفضیلت اعتدال میں ہے اس لئے بعض جگہ سختی کا حکم اوربعض جگہ سختی سے منع کیا گیا تا کہ افراط وتفریط سے دور رہیں اوراس اعتدال پر قائم رہیں جو صراط مستقیم ہے(التفسیرالکبیر)
    (٨) امت کے لئے مشورہ کی افادیت
    قال علیہ السلام ! ''ماتشاور قوم قط الا ھدوا لارشد امرھم''حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاجو قوم مشورہ کرتی ہے اسے درست معاملے کی طرف رہنمائی عطا ء کردی جاتی ہے ( امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے حسن بصری رحمہ اللہ کا قول قرار دیا ہے۔قرطبی)قال الحسن وسفیان بن عیینۃ انما امر بذلک لیقتدی بہ غیرہ فی المشاورۃ ویصیر سنۃ فی امتہ۔حسن بصری رحمہ اللہ اورسفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کاحکم اس لئے دیا گیا تاکہ دوسرے لوگ اس میں آپ کی اقتداء کریں اورمشورہ اس امت کا طریقہ بن جائے۔ (تفسیر کبیر)
    (٩) مشورہ کا حکم جہاد کے ساتھ خاص تھا یا نہیں ؟
    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رفقاء کے ساتھ مشاورت کا حکم دیا گیا تھا یہ مشاورت امور جہا د میں تھی یا ان تمام امو ر میں جن میں وحی کانزول نہیں ہوتاتھا۔ امام رازی رحمہ اللہ نے دونوں طرح کے اقوال دلائل کے ساتھ جمع فرمادئیے ہیں تفسیر کبیر ملا حظہ فرمالیجئے ۔
    (١٠) اسباب توکل کے منافی نہیں ہیں۔
    دلت الایۃ علی انہ لیس التوکل ان یھمل الانسان نفسہ کما یقولہ بعض الجھال والالکان الامر بالمشاورۃ منافیا بالتوکل بل التوکل ھو ان یراعی الانسان الاسباب الظاہرۃ ولکن لا یعول بقلبہ علیھا بل یعول علی عصمۃ الحق (التفسیر الکبیر)
    یعنی اسباب کا اختیار کرنا تو کل کے منافی ہوتا تو مشورہ کاحکم نہ دیا جاتا۔ اس لئے توکل کا معنیٰ یہ ہے کہ ظاہری اسباب اختیار تو کئے جائیں مگر اعتماد ان پر نہیں اللہ تعالیٰ پر رہے۔

  3. #3
    hazratg is offline Senior Member+
    Last Online
    20th April 2007 @ 06:54 AM
    Join Date
    21 Feb 2007
    Age
    58
    Posts
    45
    Threads
    13
    Credits
    1,000
    Thanked
    0

    Default

    اعتماد کی چیز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے نہ کہ انسانی مشورے:
    قال قتادۃ امر اللہ تعالیٰ نبیہ علیہ السلام اذا عزم علی امر ان یمضی فیہ ویتوکل علی اللہ لا علی مشاورتھم۔(قرطبی)
    قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ جب آپ کسی کام کا عزم کرلیں تو وہ کر گزریں اورتوکل اللہ تعالیٰ پر کریں نہ کہ ان کے مشورہ پر۔ (یعنی مشورہ اچھی چیز ہے مگر وہ بھی سبب کے درجہ میں ہے اس لئے اصل بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو)
    (١٢) مشورہ کے بارے میں چند اقوا ل۔
    ٭قال ابن عطیۃ: والشوریٰ من قواعد الشریعۃ وعزائم الاحکام من لا یستشیر اہل العلم والدین فعزلہ واجب ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشورہ شریعت کی بنیادوں اوراھم احکامات میں سے ہے پس جو حاکم اہل علم اور علم دین سے مشورہ نہ کرتاہو اسے معزول کردینا واجب ہے۔
    ٭ وکان یقال ماندم من استشار۔یعنی کہاجاتاتھا کہ جو مشورہ کرتاہے اسے پچھتانا نہیں پڑتا۔
    ٭ وکان یقال من أ عجب برایہ ضل۔اورکہا جا تا تھا کہ جسے اپنی رائے پر عجب ہو وہ گمراہ ہوجاتا ہے۔
    ٭وقال بعضھم شاور من جرب الامور ،فانہ یعطیک من رأیہ ماوقع علیہ غالیا وانت تأخذہ مجانا۔بعض بزرگوں کا قول ہے کہ تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں ایسی رائے مفت دے دے گا جس تک وہ بہت قیمت خرچ کر کے پہنچا ہوگا۔
    ٭ قال البخاری رحمہ اللہ وکانت الائمۃبعد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یستشیرون الامناء من اہل العلم فی الامور المباحۃ لیا خذواباسھلھا۔
    ٭وقال سفیا ن الثوری :لیکن اہل مشور تک اہل التقویٰ والامانۃ ومن یخشی اللہ تعالیٰ۔
    سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمہارے اہل مشورہ تقویٰ والے امانت دا ر اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے لوگ ہونے چاہئیں۔یہ تمام اقوال امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں نقل فرمائے ہیں۔
    امیر کی صفات
    اس آیت مبارکہ سے امیر کی درج ذیل صفات معلوم ہوئیں۔
    (١) نرم دل اوراچھے اخلاق والا ہو۔
    (٢) اپنے رفقاء کو ( شرعی حدود میں رہتے ہوئے )معاف کرنے والا ہو۔
    (٣) اپنی جماعت اوررفقاء کے لئے استغفار کرتاہو۔ (اشارۃً معلوم ہو ا کہ خود اپنے لئے بھی کثرت سے توبہ استغفار کا عادی ہو)
    (٤) جماعت کا نظام مشورہ سے چلاتاہو۔
    (٥) صاحب عزم یعنی پختہ عزم کا مالک ہو۔
    (٦) توکل صرف اللہ تعالیٰ پر کرتاہو۔(و اللہ اعلم بالصواب)۔

  4. #4
    Doctor is offline Senior Member+
    Last Online
    13th September 2009 @ 08:57 AM
    Join Date
    26 Sep 2006
    Location
    Alkamuniya
    Age
    52
    Posts
    21,458
    Threads
    1525
    Credits
    1,000
    Thanked
    36

    Default

    ماشا اللہ جناب بہت اعلیٰ تحریر لکھی ہے آپ نے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہترین اجر عطاء فرمائء آمین، مذید اچھی اچھی تحریروں کا انتظار رہے گا

Similar Threads

  1. Replies: 10
    Last Post: 14th May 2015, 11:40 AM
  2. Replies: 6
    Last Post: 10th January 2011, 11:37 AM
  3. Replies: 4
    Last Post: 27th November 2010, 11:12 AM
  4. سورہ آل عمران آیت نمبر10
    By naeemprince in forum Quran
    Replies: 1
    Last Post: 9th March 2010, 06:47 PM
  5. Replies: 3
    Last Post: 10th March 2007, 01:56 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •