او دیس سے آنے والے بتا
کس حال میں ہیں یارانِ وطن
وہ باغِ وطن فردوسِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وہاں کے باغوں میں
مستانہ ہوائیں آتی ہیں
کیا اب بھی وہاں کے پربت پر
گھنگھور گھٹائیں چھاتی ہیں
کیا اب وہاں کی برکھائیں
ویسی ہی دلوں کو بھاتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا
وہ شہر جو ہم سے چھُوٹا ہے، وہ شہر ہمارا کیسا ہے
سب لوگ ہمیں پیارے ہیں مگر وہ جان سے پیارا کیسا ہے
او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سر مست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے
کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا
شب بزمِ حریفاں سجتی ہے یا شام ڈھلے سو جاتے ہیں؟
یاروں کی بسر اوقات ہے کیا ہر انجمن آرا کیسا ہے
او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی مہکتے مندر سے ناقوس کی آواز آتی ہے
کیا اب بھی مقدس مسجد پر مستانہ اذان تھراتی ہے
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر
پنہاریاں پانی بھرتی ہیں
انگڑائی کا نقشہ بن بن کر
سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے
ہنستی ہوئی چہلیں کرتی ہیں
او دیس سے آنے والے بتا
مہران لہو کی دھار ہُوا
بولان بھی کیا گُلنار ہوا
کس رنگ کا ہے دریائے اٹک
راوی کا کنارہ کیسا ہے
اے دیس سے آنے والے مگر تم نے تو نہ اتنا بھی پوچھا
وہ کَوی جسے بن باس ملا، وہ درد کا مارا کیسا ہے
او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی کسی کے سینے میں
باقی ہے ہماری چاہ بتا
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے
اب یاروں میں کوئی آہ! بتا
او دیس سے آنے والے بتا
للہ بتا للہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا
Bookmarks