Page 4 of 6 FirstFirst 123456 LastLast
Results 37 to 48 of 66

Thread: Shirk aur Bidat ki Sharye heseyat?

  1. #37
    masoom no 1 is offline Member
    Last Online
    19th August 2017 @ 06:52 PM
    Join Date
    21 Oct 2007
    Location
    belgium
    Posts
    8,935
    Threads
    239
    Thanked
    586

    Default

    thanks ata aqr bhai jaan

    haan bhai jaan sahi kaha ap ne ye log boht jaldi rang badal letay hain...jahan ye ghalt houn wahan apni books apnay molvi hazraat ka bhi keh detay hain k hum to en ko jantay he nhi

    Allah en ko hadayt dai Ameen

  2. #38
    shahid123 is offline Senior Member+
    Last Online
    24th May 2013 @ 08:03 PM
    Join Date
    06 Jan 2008
    Age
    35
    Posts
    186
    Threads
    8
    Credits
    950
    Thanked
    3

    Default

    thanks ata aqr bahi very good sharing

  3. #39
    masoom no 1 is offline Member
    Last Online
    19th August 2017 @ 06:52 PM
    Join Date
    21 Oct 2007
    Location
    belgium
    Posts
    8,935
    Threads
    239
    Credits
    0
    Thanked
    586

    Default




  4. #40
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Thanked
    61

    Default

    Razakhani Tolle K Bani Ahmad raza khan k bare main bhi ye mulahiza kijye....

    بریلویت
    تاریخ و بانی




    بریلویت پاکستان میں پائے جانے والے احناف کے مختلف مکاتب فکر میں سے ایک مکتب فکر ہے۔ بریلوی حضرات جن عقائد کے حامل ہیں' ان کی تاسیس و تنظیم کا کام بریلوی مکتب فکر کے پیروکاروں کے مجدد جناب احمد رضا بریلوی نے انجام دیا۔ بریلویت کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے1۔
    جناب احمد رضا ہندوستان کے صوبے اتر پردیش (یوپی) 2میں واقع بریلی شہر میں پیدا ہوئے3۔ بریلوی حضرات کے علاوہ احناف کے دوسرے گروہوں میں دیوبندی اور توحیدی قابل ذکر ہیں۔
    بریلویت کے مؤسس و بانی راہنما علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نقی علی اور دادا رضا علی کا شمار احناف کے مشہور علماء میں ہوتا ہے4۔ ان کی پیدائش 14جون 1865میں ہوئی5۔ان کا نام محمد رکھا گیا۔ والدہ نے ان کا نام امن میاں رکھا۔ والد نے احمد میاں اور دادا نے احمد رضا6۔
    لیکن جناب احمد رضا ان اسماء میں سے کسی پر بھی مطمئن نہ ہوئے اور اپنا نام عبدالمصطفٰی رکھ لیا7۔ اور خط و کتابت میں اسی نام کا استعمال کثرت سے کرتے رہے۔ جناب احمد رضا کا رنگ نہایت سیاہ تھا۔ ان کے مخالفین انہیں اکثر چہرے کی سیاہی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف لکھی جانے والی ایک کتاب کا نام ہی "الطّین اللّازب علی الاسود الکاذب" یعنی "کالے جھوٹے کے چہرے پر چپک جانے والی مٹی" رکھا گیا8۔
    (اس کتاب کے مصنف مولانا مرتضٰی حسن دیوبندی مرحوم ہیں۔ بریلوی حضرات مصنف رحمہ اللہ کے اس پیرائے پر بہت جز بز ہوئے ہیں' حالانکہ یہ ایسی بات نہیں ہے کہ اس پر چیں بہ جبیں ہوا جائے۔ مصنف یہاں جناب احمد رضا کا حلیہ بیان کررہے ہیں' اور ظاہر ہے کہ حلیہ بیان کرتے وقت کالی رنگت کا ذکر آجانا معیوب شے نہیں ہے۔ اور ندامت اور شرمندگی کا اظہار تو کسی عیب پر کیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں ندامت سے بچنے کے لئے مختلف حیلے بہانوں اور خودساختہ عبارتوں سے کسی کتاب میں تردیدی دلائل کا ذکر کرکے کالے کو گورا کرنے کی سعی لاحاصل بہر حال بے معنی ہے۔ علامہ مرحوم نے حرمین شریفین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا ذکر جس انداز سے کیا ہے' اس کا خلاصہ یہ ہے :
    1: بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ ہم نے جناب احمد رضا صاحب کی رنگت کا ذکر کیوں کیا ہے' حالانکہ یہ قابل اعتراض بات نہیں۔
    2: اس کے جواب میں بعض حضرات نے سیاہ کو سفید ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب کے صفحات کو بھی بلاوجہ سیاہ کردیا ہے۔
    3 : جواب میں کہا گیا کہ اعلیٰ حضرت کا رنگ تو سیاہ نہیں تھا' البتہ گہرا گندمی تھا اور رنگ کی آب و تاب بھی ختم ہوچکی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ "گہرا گندمی" رنگ کی کون سی قسم ہے۔ کیا ضرورت ہے ان تاویلات میں پڑنے کی؟ سیدھا اعتراف کیوں نہیں کرلیا جاتا کہ ان کا رنگ سیاہ تھا۔
    4 : اس جواب میں جن لوگوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ اعلیٰ حضرت کا رنگ سیاہ نہیں بلکہ سفید تھا' ان میں سے اب کوئی بھی موجود نہیں۔ یہ خود ساختہ دلائل ہیں !
    5: آج بھی احمد رضا صاحب کی ساری اولاد کا رنگ سیاہ ہے۔ بہرحال یہ عیب کی بات نہیں۔ کچھ لوگوں نے ہمارے حوالے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؛ چنانچہ ہم نے ان کی تردید ضروری سمجھی .
    اس بات کا اعتراف ان کے بھتیجے نے بھی کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
    "ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ گہرا گندمی تھا۔ لیکن مسلسل محنت ہائے شاقہ نے آپ کی رنگت کی آب وتاب ختم کردی تھی9۔" جناب احمد رضا نحیف ونزار تھے10۔ درد گردہ اور دوسری کمزور کردینے والی بیماریوں میں مبتلا تھے11 کمر کی درد کا شکار رہتے12۔ اسی طرح سر درد اور بخار کی شکایت بھی عموماً رہتی13۔ ان کی دائیں آنکھ میں نقص تھا۔ اس میں تکلیف رہتی اور وہ پانی اتر آنے سے بے نور ہوگئی تھی۔طویل مدت تک علاج کراتے رہے مگر وہ ٹھیک نہ ہوسکی14۔
    جناب عبدالحکیم صاحب کو شکایت ہے کہ مصنف نے یہاں بھی حضرت صاحب کی آنکھ کے نقص کا ذکر کیوں کیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی انسانی حلئے کا ایک حصہ ہے اور اس پر غیض و غضب کا اظہار کسی طور پر بھی روا نہیں۔ جواب میں قادری صاحب رقمطراز ہیں کہ :
    حقیقتاً یہ بالکل خلاف واقع ہے۔ ہوا یہ کہ 1300ھ میں مسلسل ایک مہینہ باریک خط کی کتابیں دیکھتے رہے۔ گرمی کی شدت کے پیش نظر ایک دن غسل کیا۔ سر پر پانی پڑتے ہی معلوم ہوا کہ کوئی چیز دماغ سے داہنی آنکھ میں اتر آئی ہے۔ بائیں آنکھ بند کرکے داہنی سے دیکھا تو وسط سے مرئی میں ایک سیاہ حلقہ نظر آیا۔"
    جناب قادری صاحب نے یہ عبارت "ملفوظات" سے ذکر کی ہے' لیکن علمی بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے مکمل عبارت تحریر کرنے کی بجائے عبارت کا اگلا حصہ حذف کرگئے ہیں۔ اس کے متصل بعد ملفوظات میں لکھا ہے :
    دائیں آنکھ کے نیچے شے کا جتنا حصہ ہوتا ہے (یعنی جس چیز کو دائیں آنکھ سے دیکھتے) وہ ناصاف اور دبا معلوم ہوتا۔"
    اس عبارت کو چھوڑنے کا مطلب سوائے اس کے کیا ہوسکتا ہے کہ قادری صاحب اپنے اعلیٰ حضرت کی آنکھ کے نقص کو چھپانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایسی چیز نہیں جس کے ذکر پر ندامت محسوس کی جائے۔ کسی آنکھ میں نقص کا پایا جانا انسان کے بس کی بات نہیں' ربّ کائنات کا اختیار ہے' لہٰذا ہم قادری صاحب سے گذارش کریں گے کہ وہ اظہار مذامت کی بجائے اعتراف حقیقت کرلیں۔ (ثاقب)
    ایک مرتبہ ان کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ انہوں نے سالن کھالیا مگر چپاتیوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ ان کی بیوی نے کہا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا مجھے نظر ہی نہیں آئیں۔ حالانکہ وہ سالن کے ساتھ ہی رکھی ہوئی تھیں15۔
    جناب بریلوی نسیان میں مبتلا تھے۔ ان کی یادداشت کمزور تھی۔ ایک دفعہ عینک اونچی کرکے ماتھے پر رکھ لی' گفتگو کے بعد تلاش کرنے لگے' عینک نہ ملی اور بھول گئے کہ عینک ان کے ماتھے پر ہے۔ کافی دیر تک پریشان رہے' اچانک ان کا ہاتھ ماتھے پر لگا تو عینک ناک پر آکر رک گئی۔ تب پتہ چلا کہ عینک تو ماتھے پر تھی16۔
    ایک دفعہ وہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور خون کی قے کی17۔ بہت تیز مزاج تھے18۔
    بہت جلد غصے میں آجاتے۔ زبان کے مسئلے میں بہت غیر محتاط19 اور لعن طعن کرنے والے تھے۔ فحش کلمات کا کثرت سے استعمال کرتے۔ بعض اوقات اس مسئلے میں حد سے زیادہ تجاوز کرجاتے اور ایسے کلمات کہتے کہ ان کا صدور صاحب علم و فضل سے تو درکنار'کسی عام آدمی کے بھی لائق نہ ہوتا۔
    بریلویت کے موسس و مجدد جناب احمد رضا نہایت فحش اورغلیظ زبان استعمال کرتے تھے۔ ذیل میں ان کی غیر مہذبانہ زبان کے چند نمونے ذکر کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب وقعات السنان میں رقمطراز ہیں :
    ضربت مرداں دیدی نقمت رحمٰن کشیدی۔ تھانوی صاحب! اس دسویں کہاوی پر اعتراضات میں ہمارے اگلے تین پر پھر نظر ڈالئے۔ دیکھئے وہ رسلیا والے پر کیسے ٹھیک اترگئے۔ کیا اتنی ضربات عظیم کے بعد بھی نہ سوجی ہوگی۔" (وقعات السنان ص 51مطبوعہ کراچی بحوالہ "شریعت حضرت محمد مصطفٰی اور دین احمد رضا از ملک حسن علی بی اے علیگ)
    "رسلیا کہتی ہے میں نہیں جانتی میری ٹھہرائی پر اتر۔۔۔۔۔دیکھوں تو اس میں تم میری ڈیڑھ گرہ کیسے کھولے لیتے ہو۔" (ایضاً)
    "اف ہی رسلیا تیرا بھول پن۔خون پونچھتی جا اور کہہ خدا جھوٹ کرے۔" (وقعات السنان ص 60)
    "رسلیا والے نے۔۔۔۔۔اپنی دوشقی میں تیرا احتمال بھی داخل کرلیا۔ (وقعات السنان ص 27)
    اپنی کتاب خالص الاعتقاد میں مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق لکھتے ہیں:
    "کبھی کسی بے حیاء ناپاک گھنونی سی گھنونی' بے باک سے بے باک۔ پاجی کمینی گندی قوم نے اپنے خصم کے مقابلے بے دھڑک ایسی حرکات کیں؟ آنکھیں میچ کر گندہ منہ پھاڑ کر ان پر فخر کئے؟انہیں سربازار شائع کیا؟ اور ان پر افتخار ہی نہیں بلکہ سنتے ہیں کہ ان میں کوئی نئی نویلی' حیادار'شرمیلی'بانکی'نکیلی'م یٹھی'رسیلی'اچیل البیلی'چنچلانیلی'اجودھیابا شی آنکھ یہ تان لیتی اوبجی ہے
    ناچنے ہی کو جو نکلے تو کہاں گھونگھٹ
    اس فاحشہ آنکھ نے کوئی نیا غمزدہ تراشا اور اس کا نام "شہاب ثاقب" رکھا ہے۔ (خالص الاعتقاد ص 22)
    اسی کتاب میں فرماتے ہیں :
    "کفر پارٹی وہابیہ کا بزرگ ابلیس لعین۔۔۔۔خبیثو! تم کافر ٹھہر چکے ہو۔ ابلیس کے مسخرے' دجال کے گدھے۔۔۔۔ارے منافقو!۔۔۔۔۔وہابیہ کی پوچ ذلیل' عمارت قارون کی طرح تحت الثریٰ پہنچتی نجدیت کے کوے سسکتے' وہابیت کے بوم بلکتے اور مذبوح گستاخ بھڑکتے۔ (خالص الاعتقاد ص 2تا20)
    شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں :
    "سرکش'طاغی'شیطان'لعین'بند� � داغی" (الامن والعلی ص 112)
    فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:
    "غیر مقلدین و دیوبندیہ جہنم کے کتے ہیں۔ رافضیوں (شیعہ) کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم اور ان کی شان خباثت میں تنقیص ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 2ص 90)
    سبحان السبوح میں ارشاد کرتے ہیں :
    "جو شاہ اسماعیل اور نذیر حسین وغیرہ کا معتقد ہوا' ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔ غیر مقلدین سب بے دین' پکے شیاطین پورے ملاعین ہیں۔ (سبحان السبوح ص 134)
    ان کے ایک معتقد بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ :
    "آپ مخالفین کے حق میں سخت تند مزاج واقع ہوئے تھے اور اس سلسلے میں شرعی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے۔20"
    یہی وجہ تھی کہ لوگ ان سے متنفر ہونا شروع ہوگئے۔ بہت سے ان کے مخلص دوست بھی ان کی عادت کے باعث ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان میں سے مولوی محمد یٰسین بھی ہیں جو مدرسہ اشاعة العلوم کے مدیر تھے اور جنہیں جناب احمد رضا اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے' وہ بھی ان سے علیحدہ ہوگئے۔21
    اس پر مستزاد یہ کہ مدرسہ مصباح التہذیب جو ان کے والد نے بنوایا تھا' وہ ان کی ترش روئی' سخت مزاجی' بذات لسانی اور مسلمانوں کی تکفیر کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس کے منتظمین ان سے کنارہ کشی اختیار کرکے وہابیوں سے جاملے۔ اور حالت یہ ہوگئی کہ بریلویت کے مرکز میں احمد رضا صاحب کی حمایت میں کوئی مدرسہ باقی نہ رہا۔ باوجودیکہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت وہاں اپنی تمام تر سرگرمیوں سمیت موجود تھے ۔22
    جہاں تک بریلوی حضرات کا تعلق ہے تو دوسرے باطل فرقوں کی مانند اپنے امام و قائد کے فضائل و مناقب بیان کرتے وقت بہت سی جھوٹی حکایات اور خود ساختہ کہانیوں کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بریلوی حضرات اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جھوٹ کسی کی قدر و منزلت میں اضافے کی بجائے اس کی تذلیل اور استہزاء کا باعث ہوتا ہے۔
    چنانچہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
    "آپ کی ذہانت و فراست یہ عالم تھا کہ چار برس کی مختصر عمر میں' جس میں عموماً دوسرے بچے اپنے وجود سے بھی بے خبر ہوتے ہیں' قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا۔ آپ کی رسم بسم اللہ خوانی کے وقت ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے لوگوں کو دریائے حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔ حضور کے استاد محترم نے آپ کو "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھانے کے بعد الف'با'تا'پڑھایا۔پڑھاتے پڑھاتے جب لام الف (لا) کی نوبت آئی تو آپ نے خاموشی اختیار فرمالی۔ استاد نے دوبارہ کہا کہ "کہو میاں لام الف" حضور نے فرمایا کہ یہ دونوں تو پڑھ چکے پھر دوبارہ کیوں؟
    اس وقت آپ کے جد امجد مولانا رضا علی خان صاحب قدس سرہ العزیز نے فرمایا "بیٹا استاد کا کہا مانو۔"
    حضور نے ان کی طرف نظر کی۔ جد امجد نے اپنی فراست ایمانی سے سمجھ لیا کہ بچے کو شبہ ہے کہ یہ حرف مفردہ کا بیان ہے۔ اب اس میں ایک لفظ مرکب کیوں آیا؟ اگر بچے کی عمر کے اعتبار سے اس راز کو منکشف کرنا مناسب نہ تھا' مگر حضرت جد امجد نے خیال فرمایا کہ یہ بچہ آگے چل کے آفتاب علم و حکمت بن کر افق عالم پر تجلی ریز ہونے والا ہے' ابھی سے اسرار ونکات کے پردے اس کی نگاہ و دل پر سے ہٹادئیے جائیں۔ ۔

  5. #41
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    چنانچہ فرمایا:"بیٹا تمہارا خیال بجا و درست ہے' لیکن پہلے جو حرف الف پڑھ چکے ہو وہ دراصل ہمزہ ہے اور یہ الف ہے۔' لیکن الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے اور ساکن کے ساتھ چونکہ ابتداء ناممکن ہے' اس لئے ایک حرف یعنی لام اول میں لاکر اس کی ادائیگی مقصود ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں کہا تو کوئی بھی حرف ملادینا کافی تھا' لام ہی کی کیا خصوصیت ہے؟ با'تا'دال اور سین بھی شروع میں لاسکتے تھے۔
    جد امجد علیہ الرحمہ نے انتہائی جوش محبت میں آپ کو گلے لگالیا اور دل سے بہت سی دعائیں دیں۔ پھرفرمایا کہ لام اور الف میں صورتاً خاص مناسبت ہے۔ اور ظاہراً لکھنے میں بھی دونوں کی صورت ایک ہی ہے۔ لایا لا اور سیرت اس وجہ سے کہ لام کا قلب الف ہے اور الف کا قلب لام"۔23
    اس بے معنی عبارت کو ملاحظہ فرمائیے۔ اندازہ لگائیں کہ بریلوی حضرات چار برس کی عمر میں اپنے اعلیٰ حضرت کی ذہانت و فراست بیان کرنے میں کس قسم کے علم کلام کا سہارا لے رہے ہیں اور لغو قسم کے قواعد و ضوابط کو بنیاد بنا کر ان کے ذریعہ سے اپنے امام کی علمیت ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں
    خود اہل زبان عرب میں سے تو کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس لا یعنی قاعدے کو پہچان سکے اور اس کی وضاحت کرسکے۔ لیکن ان عجمیوں نے الف اور لام کے درمیان صورت و سیرت کے لحاظ سے مناسبت کو پہچان کر اس کی وضاحت کردی۔
    دراصل بریلوی قوم اپنے امام کو انبیاء ا ورسل سے تشبیہ ہی نہیں' بلکہ ان پر افضلیت دینا چاہتی ہے اور یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ان کے امام و قائد کو کسی کی طرف سے تعلیم دینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا سینہ علوم و معارف کا مرکز ومہبط بن چکا تھا اور تمام علوم انہیں وہبی طور پر عطا کیے جاچکے تھے۔ اس امر کی وضاحت نسیم بستوی کی اس نص سے بھی ہوجاتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
    "عالم الغیب نے آپ کا مبارک سینہ علوم و معارف کا گنجینہ اور ذہن و دماغ و قلب و روح کو ایمان و یقین کے مقدس فکر و شعور اور پاکیزہ احساس و تخیل سے لبریز فرمادیا تھا۔ لیکن چونکہ ہر انسان کا عالم اسباب سے بھی کسی نہ کسی نہج سے رابطہ استوار ہوتا ہے' اس لیے بظاہر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ) کو بھی عالم اسباب کی راہوں پر چلنا پڑا۔ (انوار رضا ص 55 بستوی ص 27)24
    یعنی ظاہری طور پر تو جناب احمد رضا صاحب نے اپنے اساتذہ سے اکتساب علم کیا مگر حقیقی طور پر وہ ان کی تعلیم کے محتاج نہ تھے' کیونکہ ان کا معلم و مربی خود رب کریم تھا۔
    جناب بریلوی خود اپنے متعلق لکھتے ہیں :
    "درد سر اور بخار وہ مبارک امراض ہیں جو انبیاء علیہم السلام کو ہوتے تھے۔
    آگے چل کر لکھتے ہیں:
    "الحمدللہ کہ مجھے اکثر حرارت اور درد سار رہتا ہے۔25
    جناب احمد رضا یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کی جسمانی کیفیت انبیاء کرام علیہم السلام سے مشابہت رکھتی ہے۔ اپنی تقدیس ثابت کرنے کے لیے ایک جگہ فرماتے ہیں:
    "میری تاریخ ولادت ابجدی حساب سے قرآن کریم کی اس آیت سے نکلتی ہے جس میں ارشاد ہے :
    ( اولٰئک کتب فی قلوبھم الایمان و ایدھم بروح منہ )
    یعنی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی روحانی تائید فرمادی ہے۔"26
    نیز ان کے بارے میں ان کے پیروکاروں نے لکھا ہے :
    "آپ کے استادمحترم کسی آیت کریمہ میں بار بار زبر بتارہے تھے اور آپ زیر پڑھتے تھے۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضور کے جد امجد رحمہ اللہ علیہ نے آپ کو اپنے پاس بلالیا اور کلام مجید منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب کی غلطی سے اعراب غلط لکھا گیا تھا۔ یعنی جو زیر حضور سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمتہ کی زبان حق ترجمان سے نکلتا ہے' وہی صحیح اور درست تھا۔ پھر جد امجد نے فرمایا کہ مولوی صاحب جس طرح بتاتے ہیں اسی کے مطابق پڑھوں' مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا۔27
    نتیجہ یہ نکلا کہ "اعلیٰ حضرت" صاحب کو بچپن سے ہی معصوم عن الخطاء کا مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ بریلوی حضرات نہ صرف یہ کہ مختلف واقعات بیان کرکے اس قسم کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں' بلکہ وہ اپنے امام وبانی کے متعلق صراحتاً اس عقیدے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ عبدالکریم قادری صاحب لکھتے ہیں :
    "اعلیٰ حضرت کی قلم وزبان ہر قسم کی لغزش سے محفوظ تھی۔ اور باوجودیکہ ہر عالم کی کوئی نہ کوئی لغزش ہوتی ہے' مگر اعلیٰ حضرت نے ایک نقطے کی غلطی بھی نہیں کی۔28"
    ایک دوسرے صاحب لکھتے ہیں:
    "اعلیٰ حضرت نے اپنی زبان مبارک سے کبھی غیر شرعی لفظ ادا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی لغزشوں س محفوظ رکھا۔29"
    نیز یہ کہ :
    "اعلیٰ حضرت بچپن ہی سے غلطیوں سے مبرا تھے۔ صراط مستقیم کی اتباع آپ کے اندر ودیعت کردی گئی تھی۔30
    انوار رضا میں ایک صاحب بڑے برملا انداز میں تحریر فرماتے ہیں:
    "اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم اور زبان کو غلطیوں سے پاک کردیا تھا۔31"
    مزید کہا جاتا ہے:
    "اعلیٰ حضرت غوث اعظم کے ہاتھ میں اس طرح تھے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم' اور غوث اعظم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس طرح تھے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے سوا کچھ ارشاد نہ فرماتے تھے۔32"
    ایک بریلوی شاعر اپنے اعلیٰ حضرت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں
    ہے حق کی رضا احمد کی رضا
    احمد کی رضا مرضی رضا
    (یعنی احمد رضا بریلوی)33
    ان کے ایک اور پیروکار لکھتے ہیں:
    "اعلیٰ حضرت کا وجود اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا۔34"
    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ایک گستاخ اپنے امام و راہنما کے بارے میں کہتا ہے :
    "اعلیٰ حضرت کی زیارت نے صحابہ کرام کی زیارت کا شوق کم کردیا ہے"۔35
    مبالغہ آرائی کرتے وقت عموماً عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بریلوی مصنف اس کا مصداق بنتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :"ساڑھے تین سال کی عمر شریف کے زمانے میں ایک دن اپنی مسجد کے سامنے جلوہ افروز تھے کہ ایک صاحب اہل عرب کے لباس میں تشریف لائے اور آپ سے عربی زبان میں گفتگو فرمائی۔ آپ نے( ساڑھے تین برس کی عمرمیں) فصیح عربی میں ان سے کلام کیا اور اس کے بعد ان کی صورت دیکھنے میں نہیں آئی۔36"
    ایک صاحب لکھتے ہیں:
    ایک روز استاد صاحب نے فرمایا:احمد میاں! تم آدمی ہو کہ جن؟ مجھے پڑھاتے ہوئے دیر نہیں لگتی ہے' لیکن تمہیں یاد کرتے دیر نہیں لگتی۔ دس برس کی عمر میں ان کے والد' جو انہیں پڑھاتے بھی تھے' ایک روز کہنے لگے: تم مجھ سے پڑھتے نہیں بلکہ پڑھاتے ہو۔37" یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا استاد مرزا غلام قادر بیگ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ 38 جناب بستوی صاحب کم سنی میں اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    14 برس کی عمر میں آپ سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ اسی دن رضاعت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والد ماجد قبلہ کی خدمت عالی میں پیش کیا۔ جواب بالکل درست (صحیح) تھا۔ آپ کے والد ماجد نے آپ کے جواب سے آپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ لگالیا اور اس دن سے فتویٰ نویسی کاکام آپ کے سپرد کردیا۔"
    اس سے پہلے آٹھ سال کی عمر مبارک میں آپ نے ایک مسئلہ وراثت کا جواب تحریر فرمایا:۔
    "واقعہ یہ ہوا کہ والد ماجد باہر گاؤں میں تشریف فرما تھے۔ کہیں سے سوال آیا' آپ نے اس کا جواب لکھا اور والد صاحب کی واپسی پر ان کو دکھایا۔ جسے دیکھ کر ارشاد ہوا معلوم ہوتا ہے یہ مسئلہ امن میاں (اعلیٰ حضرت)نے لکھا ہے۔ ان کو ابھی نہ لکھنا چاہئے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس جیسا کوئی بڑا مسئلہ کوئی لکھ کر دکھائے تو جانیں۔39"
    اس نص سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت صاحب نے آٹھ برس کی عمر میں فتویٰ نویسی کا آغاز کردیا تھا۔ مگر خود اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
    "سب سے پہلا فتویٰ میں نے 1286ء میں لکھا تھا' جب میری عمر 13برس تھی۔ اور اسی تاریخ کو مجھ پر نماز اور دوسرے احکام فرض ہوئے تھے۔40"
    یعنی بستوی صاحب فرمارہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے آٹھ برس کی عمر میں ہی وراثت جیسے پیچیدہ مسئلے کے متعلق فتویٰ صادر فرمادیا تھا جب کہ خود اعلیٰ حضرت صاحب اس کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمارہے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا فتویٰ 13 برس کی عمر میں دیا تھا۔"
    اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ بریلوی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے 14 برس کی عمر میں ہی تعلیم مکمل کرکے سند فراغت حاصل کرلی تھی۔41
    مگر کئی مقامات پر خود ہی اس کی تردید بھی کرجاتے ہیں۔ چنانچہ حیات اعلیٰ حضرت کے مصنف ظفر الدین بہاری لکھتے ہیں : "اعلیٰ حضرت نے مولانا عبدالحق خیر آبادی سے منطقی علوم سیکھنا چاہے' لیکن وہ انہیں پڑھانے پر راضی نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ احمد رضا مخالفین کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کرنے کے عادی ہیں۔42"
    بستوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ان کی عمر 20 برس تھی۔43
    اسی طرح بریلوی صاحب کے ایک معتقد لکھتے ہیں:
    اعلیٰ حضرت نے سید آل رسول شاہ کے سامنے 1294ھ میں شرف تلمذ طے کیا اور ان سے حدیث اور دوسرے علوم میں سند اجازت لی۔44"
    ظفر بہاری صاحب کہتے ہیں :
    "آپ نے سید آل رسول شاہ کے بیٹے ابوالحسین احمد سے 1296ھ میں بعض علوم حاصل کیے۔45"
    بہرحال ایک طرف تو بریلوی حضرات یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ احمد رضا 13برس یا 14برس کی عمر میں ہی تمام علوم سے فارغ ہوچکے تھے' دوسری طرف بے خیالی میں اس کی تکذیب بھی کررہے ہیں۔ اب کسے نہیں معلوم کہ 1272ھ یعنی احمد رضا صاحب کی تاریخ پیدائش اور 1296ھ میں بھی بعض علوم حاصل کیے ہوں تو 14برس کی عمر میں سند فراغت کے حصول کا کیا معنی ہے؟ مگر بہت دیر پہلے کسی نے کہہ دیا تھا "لا ذاکرۃ لکذّاب" یعنی "دروغ گورا حافظہ نبا شد۔" (جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا)

  6. #42
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    حوالہ جات


    1 ملاحظہ ہو دائرة المعاف الاسلامیہ اردو جلد ٤ ص ٤٨٥ مطبوعہ پنجاب ١٩٦٩ئ
    2 دائرة المعارف جلد ٤ ص ٤٨٧
    3 اعلیٰ حضرت بریلوی مصنفہ بستوی ص ١٢٥ ایضاً حیات اعلیٰ حضرت از ظفرالدین بہاری رضوی مطبوعہ کراچی
    4 تذکرة علمائے ہندص ٦٤
    5 حیات اعلیٰ حضرت جلد١ ص١
    6 اعلیٰ حضرت از بستوی ص ٢٥
    7 ملاحظہ ہو''من ہو احمد رضا'' از شجاعت علی قادری ص ١٥
    8 اس کتاب کے مصنف مولانا مرتضیٰ حسن دیوبندی ہیں۔
    9 اعلیٰ حضرت از بستوی ص ٢٠
    10 حیات اعلیٰ حضرت مصنفہ ظفر الدین بہاری جلد ١ ص ٣٥
    11 ملاحظہ ہو مضمون حسنین رضا درج شدہ اعلیٰ حضرت بریلوی ص ٢٠
    12 بستوی ص ٢٨
    13 ملفوظات اعلیٰ حضرت ص ٦٤
    14 ملفوظات ص ٢٠'٢١
    15 انوار رضا ص ٣٦٠
    16 حیات اعلیٰ حضرت ص ٦٤
    17 ایضاً ص٢٢
    18 انوار رضاص ٣٥٨
    19 الفاضل البریلوی مصنفہ مسعود احمدص ١٩٩
    20 مقدمہ مقالات رضا از کوکب ص ٣٠ مطبوعہ لاہور
    21 حیات اعلیٰ حضرت ص ٢١١
    22 ایضاً ص ٢١١
    23 البریلوی از بستوی ص ٢٦' ٢٧' انوار رضا ص ٣٥٥ وغیرہ
    24 انوار رضا ص ٣٥٥ . بستوی ص ٢٧
    25 ملفوظات جلد ١ ص ٦٤
    26 حیات اعلیٰ حضرت از بہاری ص ١
    27 بستوی ص ٢٨' ایضاً حیات اعلیٰ حضرت ص ٢٢
    28 یاد اعلیٰ حضرت از عبدالحکیم شرف قادری ص ٣٢
    29 مقدمہ الفتاویٰ الرضویہ جلد ٢ ص ١٥ از محمد اصغر علوی
    30 انوار رضا ص ٢٢٣
    31 ایضاً٢٧١
    32 ایضاً ٢٧٠
    33 باغ فردوس مصنفہ ایوب رضوی ص٧
    34 انوار رضاص ١٠٠
    35 وصایا شریف ص ٢٤
    36 حیات اعلیٰ حضرت از بہاری ص ٢٢
    37 مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد ٢ ص ٦
    38 بستوی ص ٣٢
    39 اعلیٰ حضرت بریلوی ص ٣٢
    40 من ہو احمد رضا از قادری ص ١٧ (یہ بڑی دلچسپ پات ہے کہ حضورۖ کی شریعت میں نماز دس برس کی عمر میں فرض ہے اور جناب احمد رضا پر نماز ١٣ برس کی عمر میں فرض ہوئی(ناشر)
    41 ملاحظہ ہو حیات اعلیٰ حضرت از بہاری ص ٣٣ ۔ ایضاً انوار رضا صفحہ ٣٥٧ وغیرہ
    42 بہاری ص ١٣٣ ایضاً انوار رضا ص ٣٥٧
    43 نسیم بستوی ص ٣٥
    44 انوار رضا ص ٣٥٦
    45 حیات اعلیٰ حضرت ص٣٤'٣٥


  7. #43
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    جناب احمد رضا کے خاندان کے متعلق




    جناب احمد رضا کے خاندان کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم ہوسکا کہ ان کے والد اور دادا کا شمار احناف کے علماء میں ہوتا ہے۔ البتہ جناب بریلوی صاحب کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ان کا تعلق شیعہ خاندان سے تھا۔ انہوں نے ساری عمر تقیہ کیے رکھا اور اپنی اصلیت ظاہر نہ ہونے دی' تاکہ وہ اہل سنت کے درمیان شیعہ عقائد کو رواج دے سکیں۔
    ان کے مخالفین اس کے ثبوت کے لیے جن دلائل کا ذکر کرتے ہیں' ان میں سے چند ایک یہاں بیان کیے جاتے ہیں:
    جناب احمد رضا کے آباء اجداد کے نام شیعہ اسماء سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کاشجرہ نسب ہے:
    احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کاظم علی۔46
    بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے خلاف نازیبا کلمات کہے ہیں۔ عقیدہ اہلسنت سے وابستہ کوئی شخص ان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اپنے ایک قصیدے میں لکھا ہے :



    تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جوبن کا ابھار
    مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
    یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن مرے دل کی صورت
    کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ وبر47


    انہوں نے مسلمانوں میں شیعہ مذہب سے ماخوذ عقائد کی نشر و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کیا۔48
    کوئی ظاہری شیعہ اپنے اس مقصد میں اتنا کامیاب نہ ہوتا' جتنی کامیابی احمد رضا صاحب کو اس سلسلے میں تقیہ کے لبادے میں حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے تشیع پر پردہ ڈالنے کے لیے چند ایسے رسالے بھی تحریر کیے جن میں بظاہر شیعہ مذہب کی مخالفت اور اہل سنت کی تائید پائی جاتی ہے۔ شیعہ تقیہ کا یہی مفہوم ہے' جس کا تقاضا انہوں نے کماحقہ ادا کیا۔
    جناب احمد رضا نے اپنی تصنیفات میں ایسی روایات کا ذکر کثرت سے کیا ہے جو خالصتاً شیعی روایات ہیں اور ان کا عقیدہ اہلسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
    مثلاً:
    "انّ علیّا قسیم النار۔"
    "انّ فاطمۃ سمّیت بفاطمۃ لانّ اللہ فمھا و ذریّتھا من النّار۔"
    یعنی"حضرت علی رضی اللہ عنہ قیامت کے روز جہنم تقسیم کریں گے۔49 اور "حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی اولاد کو جہنم سے آزاد کردیا ہے۔50
    شیعہ کے اماموں کو تقدیس کا درجہ دینے کے لیے انہوں نے یہ عقیدہ وضع کیا کہ اغواث (جمع غوث' یعنی مخلوقات کی فریاد رسی کرنے والے ) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوتے ہوئے حسن عسکری تک پہنچتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے وہی ترتیب ملحوظ رکھی' جو شیعہ کے اماموں کی ہے۔51
    احمد رضا نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ' کو مشکل کشا قرار دیا اور کہا:
    "جو شخص مشہور دعائے سیفی (جو شیعہ عقیدے کی عکاسی کرتی ہے) پڑھے' اس کی مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔"
    دعائے سیفی درج ذیل ہے:


    ناد علیّا مظھر العجا ئب
    تجدہ عونالّک فی النّوائب
    کلّ ھمّ وغمّ سینجلّی
    بولیتک یا علی یا علی

    یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارو جن سے عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔ تم انہیں مددگار پاؤگے۔ اے علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے طفیل تمام پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔52
    اسی طرح انہوں نے پنجتن پاک کی اصطلاح کو عام کیا اور اس شعر کو رواج دیا:


    لی خمسۃ اطفی بھا حرّالوباء الحاطمۃ
    المصطفٰی المرتضٰی و وابناھما و الفاطمۃ

    یعنی پانچ ہستیاں ایسی ہیں جو اپنی برکت سے میری امراض کو دور کرتی ہیں۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ' علی رضی اللہ عنہ، حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، فاطمہ رضی اللہ عنہا!53
    انہوں نے شیعہ عقیدے کی عکاسی کرنے والی اصطلاح "جفر" کی تائید کرتے ہوئے اپنی کتاب خالص الاعتقاد میں لکھا ہے:
    "جفر چمڑے کی ایک ایسی کتاب ہے جو امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے اہل بیت کے لیے لکھی۔ اس میں تمام ضرورت کی اشیاء درج کردیں ہیں۔ اس طرح اس میں قیامت تک رونما ہونے والے تمام واقعات بھی درج ہیں۔54
    اسی طرح شیعہ اصطلاح الجامعتہ کا بھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    "الجامعتہ ایک ایسا صحیفہ ہے' جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام واقعات عالم کو حروف کی ترتیب کے ساتھ لکھ دیا ہے۔ آپ کی اولاد میں سے تمام ائمہ امور و واقعات سے باخبر تھے۔55
    جناب بریلوی نے ایک اور شیعہ روایت کو اپنے رسائل میں ذکر کیا ہے کہ :
    "امام احمد رضا (شیعہ کے آٹھویں امام ) سے کہا گیا کہ کوئی دعا ایسی سکھلائیں جو ہم اہل بیت کی قبروں کی زیارت کے وقت پڑھا کریں' تو انہوں نے جواب دیا کہ قبر کے قریب جاکر چالیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر کہو السلام علیکم یا اہل البیت ' اے اہل بیت میں اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے آپ کو خدا کے حضور سفارشی بنا کر پیش کرتا ہوں اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے براء ت کرتا ہوں۔56"
    یعنی شیعہ کے اماموں کو مسلمانوں کے نزدیک مقدس اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اہل سنت سے افضل قرار دینے کے لئے انہوں نے اس طرح کی روایات عام کیں۔ حالانکہ اہل تشیع کے اماموں کی ترتیب اور اس طرح کے عقائد کا عقیدہ اہل سنت سے کوئی ناطہ نہیں ہے۔
    جناب احمد رضا شیعہ تعزیہ کو اہل سنت میں مقبول بنانے کے لیے اپنی ایک کتاب میں رقمطراز ہیں:
    "تبرک کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقبرے کا نمونہ بناکر گھر کے اندر رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔57
    اس طرح کی لاتعداد روایات اور مسائل کا ذکر ان کی کتب میں پایا جاتا ہے
    جناب احمد رضا نے شیعہ کے اماموں پر مبنی سلسلہ بیعت کو بھی رواج دیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک عربی عبارت وضع کی ہے جس سے ان کی عربی زبان سے واقفیت کے تمام دعووں کی حقیقت بھی عیاں ہوجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
    "اللّٰھم صلّ وسلّم علٰی وبارک علٰی سیّدنا مولانا محمّد المصطفٰی رفیع المکان المرتضٰی علی الشان الذی رجیل من امّتہ خیر من رّجال من السّالفین و حسین من زمرتہ احسن من کذا و کذا حسنا من السّابقین السّیّد السّجاد زین العابدین باقر علوم الانبیاء والمرسلین ساقی الکوثر و مالک تسنیم و جعفر الّذی یطلب موسی الکلیم رضا ربّہ بالصّلاۃ علیہ۔58"
    عربی زبان کا ادنیٰ علم رکھنے والا بھی اس عبارت کی عجمیت' رکاکت اور بے مقصدیت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ وہ ساڑھے تین برس کی عمر میں فصیح عربی بولا کرتا تھا' کس قدر عجیب لگتا ہے؟
    "حسین من زمرتہ احسن من وکذا وکذا حسنا من السّابقین" کیسی بے معنی ترکیب ہے۔
    "یطلب موسی الکلیم رضا ربّہ بالصّلاۃ علیہ" میں موسٰی الکلیم سے مراد کون ہیں؟ اگر مراد موسیٰ کاظم ہیں تو کلیم سے کیا معنی؟ اور اگر مراد نبی و رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں" تو کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام (معاذ اللہ) امام جعفر صادق پر درود بھیج کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
    بہرحال یہ عبارت مجموعہ رکاکت بھی ہے اور مجموعہ خرافات بھی!
    حاصل کلام یہ ہے کہ رضا بریلوی صاحب نے اس نص میں شیعہ کے اماموں کو ایک خاص ترتیب سے ذکر کرکے مسلمانوں کو رفض و تشیع سے قریب لانے کی سعی کی ہے۔
    جناب بریلوی صاحب نے برصغیر کے اہل سنت اکابرین کی تکفیر کی اور فتوی دیا کہ ان کی مساجد کا حکم عام گھروں جیسا ہے انہیں خدا کا گھر تصور نہ کیا جائے۔
    اسی طرح انہوں نے اہل سنت کے ساتھ مجالست و مناکحت کو حرام قرار دیا۔ اور جہاں تک شیعہ کا تعلق ہے تو وہ ان کے اماموں کے باڑوں کے ابجدی ترتیب سے نام تجویز کرتے رہے۔59
    احمد رضا صاحب پر رفض و تشیع کا الزام اس لیے بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے شیعہ کے اماموں کی شان میں شیعوں کے انداز میں مبالغہ آمیز قصائد بھی لکھے۔60

    فصاحت عربی سے ناواقفی
    جناب احمد رضا کی یہ عبارت بے معنیٰ ترکیبوں اور عجمیت زدہ جملوں کا مجموعہ ہے' مگر عبدالحکیم قادری صاحب کو اصرار ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں دلیل سے خالی اصرار کا تو کوئی جواب نہیں' اگر انہیں اصرار ہے تو سو بار رہے' ہمیں اس پر کوئی انکار نہیں۔ ان کے اصرار سے یہ شکستہ عبارت درست تو نہیں ہوجائے گی! مگر ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ ایک صاحب نے مصنف رحمہ اللہ علیہ کی عربی کتاب میں سے بزعم خویش چند غلطیاں نکال کر اپنی جہالت کا ثبوت جس طرح دیا ہے' وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے اپنی عجمیت زدہ ذہنیت سے جب "البریلویہ" کا مطالعہ کیا تو انہیں کچھ عبارتیں ایسی نظر آئیں جو ان کی تحقیق کے مطابق عربی قواعد کے اعتبار سے غیر صحیح تھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ان "غلطیوں" کی "تصحیح" بھی کی ہوئی تھی اور یہی "تصحیح" ان کی جہالت کا راز کھولنے کا سبب بن گئی۔
    ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ان کی تصحیح میں کس قدر تغلیط ہے۔ ہم ذیل میں ان کی چند تصحیحات نقل کرتے ہیں۔ تاکہ قارئین ان کی علمی تحقیق کاوش سے استفادہ فرماسکیں۔
    الحجم الصغیر : موصوف لکھتے ہیں کہ یہ لفظ غلط ہے اس کی بجائے القطع الصغیر ہونا چاہیے تھا۔
    جناب کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے۔ موصوف کا گمان یہ ہوا کہ چونکہ حجم تو اردو میں مستععمل ہے' لہٰذا عربی کا لفظ نہیں ہوسکتا۔ المنجد مادہ ح ج م میں الحجم کا معنی مقدار الحجم سے کیا گیا ہے۔ موصوف کو چاہئے کہ وہ اپنی معلومات درست کرلیں۔
    المواضیع : اس کی تصحیح جناب نے المواضع سے کی ہے۔ پوری عبارت ہے "فلاجل ذلک تضاربت اقوالھم فی ھذا الخصوص (ای الموضوع) مثل المواضیع (جمع الموضوع) الاخرے"
    موصوف نے اسے "موضع" کی جمع سمجھ لیا اور اس کی تصحیح "مواضع" سے کردی' جو بجائے خود ایک غلطی ہے۔
    نظرۃ تقدیر و احترام : تصحیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں نظرۃ تعظیم واحترام گویا جناب نے اپنی علمیت کے زور پر یہ سمجھا کہ یہ عربی کا لفظ نہیں ہے۔ حالانکہ عربی لغت کی تمام کتب نے اس لفظ کو ادا کیا ہے۔ اور اس کا معنی "الحرمتہ والوقار" سے کیا ہے۔ ملاحظہ ہو المنجد ص 245 وغیرہ مادہ القدر
    بین السنۃ: موصوف کو یہ علم نہیں کہ لفظ "السنہ" کہہ کر اہلسنت کا مفہوم بھی ادا کیا جاتا ہے۔ مولف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الشیعہ والسنہ" میں "السنہ" سے مراد اہلسنت ہیں۔ عربی زبان سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی اس معنی سے ناآشنا نہیں۔ اس کی تصحیح "اہل السنّہ" سے کرنا اس لفظ کے استعمال سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔
    ان یبوس : فرماتے ہیں کہ یہ عجمی لفظ ہے" اس لیے عربی میں اس کا استعمال نا درست ہے۔موصوف کو اگر عربی ادب سے ذرا سی بھی واقفیت ہوتی تو شاید یہ بات لکھ کر علمی حلقوں میں جگ ہنسائی کا باعث نہ بنتے۔ کیونکہ عربی زبان میں اس کا استعمال عام رائج ہے۔ ملاحظہ ہو المنجد مادہ ب وس' باسہ ' بوسا ' قبلہ
    ترک التکایا : لکھتے ہیں: یہ عجمی لفظ ہے' حالانکہ یہ "اتکا" سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ہے : اسند ظھرہ الٰی شئی" ملاحظہ ہو المنجد مادہ وک ا
    رسید : ان کا اعتراض ہے: یہ لفظ عربی زبان میں مستعمل نہیں" حالانکہ عرب ممالک میں رسید الامتعتہ کا استعمال عام رائج ہے۔ اسے رصید بھی لکھا جاتا ہے۔ المنجد میں ہے (انظر مادہ رص د)
    اصدر وافرمانا : المنجد مادہ ف رم۔ الفرمان ج فرامین ای عھد السطان للولاۃ
    وہ الفاظ و کلمات جو عربی کے ساتھ ساتھ دوسری لغات میں بھی استعمال ہوتے ہیں' ان کا استعمال غلط نہیں ہے۔ ان کی تغلیط جہالت کی واضح دلیل ہے۔
    کتب فیہا لال البیت : شیعہ کے نزدیک آل بیت اور اہل بیت کا مفہوم ایک ہی ہے "البریلویہ" کی اس عبارت میں آل بیت کا استعمال ہی صحیح ہے' کیونکہ اس احمد رضا صاحب نے شیعوں کی ترجمانی کی ہے۔
    ومن جاء : ان کی تصحیح الیٰ من جاء سے کی ہے۔ یہاں الیٰ کا استعمال اس لیے نہیں کیا گیا کہ پہلی الیٰ پر عطف ہے۔ اس لیے دوبارہ استعمال ضروری نہ رہا۔
    علاوہ ازیں کچھ غلطیاں ایسی درج ہیں جو کتاب وطباعت کی ہیں۔ مثلاً کبیب النمل! کہ اصل میں ہے "کدبیب النمل" ٹائپ کی غلطی سے وحذف ہوگئی ہے۔ اسی طرح القراء ت میں ء کی جگہ ۃ غلطی سے ٹائپ ہوگیا ہے۔ مناصرۃ للاستعمار۔ کہ اصل میں مناصرۃ للاستعمار یا استرقاق کی بجائے استر تقاق وغیرہ۔
    بہرحال غلطیوں کی یہ فہرست قادری صاحب کی عربی زبان پر عدم قدرت کی بین اور واضح دلیل ہے۔ بریلویت کے حاملین کی علمیت پہلے ہی مشکوک تھی' قادری صاحب نے اس پر مہر ثبت کردی ہے۔ (ثاقب)



  8. #44
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    حوالہ جات


    46 حیات اعلیٰ حضرت ص ٢
    47 حدائق بخشش جلد ٣ ص ٢٣
    48 فتاویٰ بریلویہ ص ١٤
    49 الامن والعلی مصنفہ احمد رضا بریلوی ص ٥٨
    50 ختم نبوت از احمد رضا ص ٩٨
    51 ملفوظات ص ١١٥
    52 الامن والعلی ص ١٢'١٣
    53 فتاویٰ رضویہ جلد ٦ ص ١٨٧
    54 خالص الاعتقاد از احمد رضا ص ٤٨
    55 ایضاً ص ٤٨
    56 حیاۃ الموات درج شدہ فتاویٰ رضویہ از احمد رضا بریلوی جلد ٤ ص ٢٤٩
    57 رسالہ بدرالانوار ص ٥٧
    58 انوار رضا ص ٢٧
    59 ملاحظہ ہو یاد اعلیٰ حضرت ص ٢٩
    60 ملاحظہ ہو حدائق بخشش از احمد رضا مختلف صفحات


  9. #45
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    جناب احمد رضا صاحب کا ذریعہ معاش




    جناب احمد رضا صاحب کے ذریعہ معاش کے متعلق مختلف روایات آئیں ہیں۔ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ وہ زمیندار خان سے تعلق رکھتے تھے اور گھر کے اخراجات کے لئے انہیں سالانہ رقم مل جاتی تھی جس سے وہ گزر بسر کرتے۔61
    بعض اوقات سالانہ ملنے والی رقم کافی نہ ہوتی اور وہ دوسروں سے قرض لینے پر مجبور ہوجاتے' کیونکہ ان کے پاس ڈاک کے ٹکٹ خریدنے کے لیے بھی رقم موجود نہ ہوتی۔62
    کبھی کہا جاتا کہ انہیں دست غیب سے بکثرت مال و دولت ملتا تھا۔ ظفرالدین بہاری راوی ہیں کہ جناب بریلوی کے پاس ایک مقفل کنجی صندوقچی تھی' جسے وہ بوقت ضرورت ہی کھولتے تھے۔ اور جب اسے کھولتے تو مکمل طور پر نہیں کھولتے تھے اس میں ہاتھ ڈالتے اور مال' زیور اور کپڑے جو چاہتے نکال لیتے تھے۔63
    جناب بریلوی کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت اپنے احباب اور دوسرے لوگوں میں بکثرت زیورات اور دوسری چیزیں تقسیم کرتے تھے اور یہ سارا کچھ وہ اس چھوٹی سی صندوقچی سے نکالتے۔ ہمیں حیرت ہوتی کہ نامعلوم اتنی اشیاء اس میں کہاں سے آتی ہیں۔ 64
    ان کے مخالفین یہ تہمت لگاتے ہیں کہ "دستِ غیب" کا صندوقچی وغیرہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ انگریزی استعمار کا ہاتھ تھا' جو انہیں اپنے اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے امداد دیتا تھا۔65
    میری رائے یہ ہے کہ ان کی آمدن کا بڑا ذریعہ لوگوں کی طرف سے ملنے والے تحائف اور امامت کی تنخواہ تھی۔ جس طرح ہمارے ہاں عام رواج ہے کہ دیہاتوں میں اپنے علماء کی خدمت صدقات و خیرات سے کی جاتی ہے' اور عموماً یہی ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے۔
    ان کے ایک پیروکار بیان کرتے ہیں کہ :
    "ایک روز ان کے پاس خرچ کے لیے ایک دمڑی نہ تھی۔ آپ ساری رات بے چین رہے۔ صبح ہوئی تو کسی تاجر کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے 51 روپے بطور نذرانہ آپ کی خدمت میں پیش کیے۔67
    ایک مرتبہ ڈاک کا ٹکٹ خریدنے کے لیے ان کے پاس کچھ رقم نہیں تھی تو ایک مرید نے انہیں دو سو روپے کی رقم ارسال کی۔68
    باقی جہاں تک زمینداری اور صندوقچی وغیرہ کا تعلق ہے' تو اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا خاندان زراعت وغیرہ سے متعلق تھا۔ باقی کرامتوں کے نام پہ صندوقچی وغیرہ کے افسانے بھی مریدوں کی نظر میں تقدیس و احترام کا مقام دینے کے لیے وضع کیے گئے ہیں' یہ سب بے سروپا باتیں ہیں۔

    عادات اور طرز گفتگو
    بریلوی اعلیٰ حضرت پان کثرت سے استعمال کرتے تھے' حتٰی کہ رمضان المبارک میں وہ افطار کے بعد صرف پان پر اکتفا کرتے۔69
    اسی طرح حقہ بھی پیتے تھے۔ 70دوسری کھانے پینے کی اشیاء پر حقہ کو ترجیح دیتے۔ ہمارے ہاں دیہاتیوں اور بازاری قسم کے لوگوں کی طرح آنے جانے والے مہمان کی تواضح بھی حقے سے کرتے۔71
    مزے کی بات ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
    "میں حقہ پیتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا' تاکہ شیطان بھی میرے ساتھ شریک ہوجائے۔72
    لوگوں کے پاؤں چومنے کی عادت بھی تھی۔ ان کے ایک معتقد راوی ہیں کہ :
    "آپ حضرت اشرفی میاں کے پاؤں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔73
    جب کوئی صاحب حج کرکے واپس آجاتے تو ایک روایت کے مطابق فوراً اس کے پاؤں چوم لیتے!74

    اسلوب بیان:


    اپنے سے معمولی سا اختلاف رکھنے والوں کے خلاف سخت زبان استعمال کیا کرتے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی رو رعایت کے قائل نہ تھے۔ بڑے فحش اور غلیظ لفظ بولتے۔ مخالف کو کتا'خنزیر'کافر'سرکش'فاجر'مر� �د اور اس طرح کے دوسرے سخت اور غلیظ کلمات کی بریلوی حضرات کے اعلیٰ حضرت کے نزدیک کوئی قدروقیمت نہ تھی۔ وہ بے مہا و بے دریغ یہ کلمات ادا کرجاتے۔ ان کی کوئی کتاب اس انداز گفتگو اور "اخلاقیات" سے بھری ہوئی طرز تحریر سے خالی نہیں ہے۔
    ان کی "شیرینیء لب" کا ذکر گزشتہ صفحات میں حاشیہ کے اندر گزرچکا ہے۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر ان کی مختلف عبارتوں میں سے ایک قطعہ نقل کرتے ہیں' جس سے ان کے اسلوب بیان کی تصویر قارئین کے سامنے آجائے گی۔
    وہ دیوبندیوں کے خدا کی تصویر کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
    "تمہارا خدا رنڈیوں کی طرح زنا بھی کرائے' ورنہ دیوبند کی چکلے والیاں اس پر ہنسیں گی کہ نکھٹو تو ہمارے برابر بھی نہ ہوسکا!75
    "پھر ضروری ہے کہ تمہارے خدا کی زن بھی ہو۔ اور ضروری ہے کہ خدا کا آلہ تناسل بھی ہو۔ یوں خدا کے مقابلے میں ایک خدائن بھی ماننی پڑے گی۔ 76 نستغفراللہ!
    اندازہ لگائیں' اس طرح کا انداز تحریر کسی عالم دین کو زیب دیتا ہے؟ اور اس پر طرہ یہ کہ تجدید دین کا دعویٰ !
    مجدد دین کے لیے اس قسم کی گفتگو کا اختیار کرنا کس حدیث سے ثابت ہے؟
    انہیں عالم دین کہنے پر اصرار ہو تو ضرور کہئے' مگر مجدد کہتے ہوئے تھوڑی سی جھجک ضرور محسوس کرلیا کریں۔
    اس ضمن میں ایک واقعہ ہے کہ یہ بریلوی صاحب ایک مرتبہ کسی کے ہاں تعلیم کی غرض سے گئے۔ مدرس نے پوچھا کہ آپ کا شغل کیا ہے ؟
    کہنے لگے "وہابیوں کی گمراہی اور ان کے کفر کا پول کھولتا ہوں"۔ مدرس کہنے لگے "یہ انداز درست نہیں۔" تو جناب بریلوی صاحب وہاں سے واپس لوٹ آئے77 اور ان سے پڑھنے سے انکار کردیا۔ کیونکہ انہوں نے احمد رضا صاحب کو موحدین کی تکفیر و تفسیق سے روکا تھا۔
    جہاں تک ان کی لغت کا تعلق ہے' تو وہ نہایت پیچیدہ قسم کی عبارتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بے معنی الفاظ و تراکیب استعمال کرکے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں علوم و معارف میں بہت گہری دسترس حاصل ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اس عالم دین کو' جو اپنا مافی الضمیرکھول کر بیان نہ کرسکے اور جس کی بات سمجھ میں نہ آئے' اسے بڑے پائے کا عالم دین تصور کیا جاتا ہے۔
    ان کے ایک معتقد لکھتے ہیں کہ :
    "اعلیٰ حضرت کی بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان علم کا سمندر ہو!78
    ان کی زبان میں فصاحت وروانی نہیں تھی۔ اس بنا پر تقریر سے گریز کرتے تھے' صرف خود ساختہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے پیر آل رسول شاہ کے عرس کے موقعہ پر چند کلمات کہہ دیتے!79

  10. #46
    TooGooD is offline Member
    Last Online
    20th November 2009 @ 10:43 PM
    Join Date
    21 Sep 2009
    Posts
    321
    Threads
    18
    Thanked
    20

    Default

    kitne hoshyar bante hain ye log adhi bat bata daitay hain adhi baat chupa laite hain .

    zakir naik nay yazeed k matter main jo bat ki wo bhi inho nay adhi likhi aur adhi halwa bana kar kha li

    aur wo hadees yazeed k baray main wo kio nhi likhi tum nay ?

    tum hadees k munkir ho ? yay bhi to batao

  11. #47
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    حوالہ جات


    61 انوار رضا ص ٣٦٠
    62 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٨
    63 اعلیٰ حضرت بستوی ص ٧٥' انوار رضا ص ٥٧
    64 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٧
    65 اس کا تفصیلاً ذکر آگے آرہا ہے۔
    66 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٦
    67 ایضاً ص ٥٦
    68 ایضاً ص ٥٨
    69 انوار رضاص ٢٥٦
    70 کتنی عجیب بات ہے دوسروں کو معمولی باتوں پر کافر قرار دینے والا کود کیسے حقہ نوشی کو جائز سمجھتا ہے اور اس کا مرتکب ہے؟
    71 حیات اعلیٰ حضرت ص ٦٧
    72 ملفوظات
    73 اذکار حبیت رضا طبع مجلس رضا لاہور ص ٢٤
    74 انوار رضا ص ٣٠٦
    75 سبحان السبوح از احمر رضا بریلوی ص ١٤٢
    76 ایضاً
    77 حیات اعلیٰ حضرت از ظفر الدین بہاری
    78 انوار رضا ص ٢٨٦
    79 حیات اعلیٰ حضرت از ظفر الدین بہاری رضوی

  12. #48
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    جناب احمد رضا صاحب کی تصنیفات




    ان کی تصنیفات کے بیان سے قبل ہم قارئین کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ بریلوی قوم کو مبالغہ آرائی کی بہت زیادہ عادت ہے۔ اور مبالغہ آرائی کرتے وقت غلط بیانی سے کام لینا ان کی سرشت میں داخل ہے۔ تصنیفات کے سلسلہ میں بھی انہوں نے بے جا غلو سے کام لیا ہے اور حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان کی سینکڑوں تصنیفات گنوادی ہیں' حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے متضاد اقوال کا نمونہ درج ذیل ہے:
    ان کے ایک راوی کہتے ہیں :
    "اعلیٰ حضرت کی تصنیفات 200 کے قریب تھیں۔80
    ایک روایت ہے کہ 250 کے قریب تھیں۔81
    ایک روایت ہے' 350 کے قریب تھیں۔82
    ایک روایت ہے' 450 کے لگ بھگ تھیں۔83
    ایک اور صاحب کہتے ہیں' 500 سے بھی متجاوز تھیں۔84
    بعض کا کہنا ہے' 600 سے بھی زائد تھیں۔
    ایک اور صاحب ان تمام سے آگے بڑھ گئے اورکہا کہ ایک ہزار سے بھی تجاوز کرگئی تھیں۔85
    حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ ان کی کتب کی تعداد' جن پر کتاب کا اطلاق ہوتا ہے' دس سے زیادہ نہیں ہے۔ شاید اس میں بھی مبالغہ ہو۔۔۔۔۔تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
    جناب بریلوی صاحب نے مستقل کوئی کتاب نہیں لکھی۔ وہ فتویٰ نویسی اور عقیدہ توحید کے حاملین کے خلاف تکفیر و تفسیق میں مشغول رہے۔ لوگ ان سے سوالات کرتے او ر وہ اپنے متعدد معاونین کی مدد سے جوابات تیار کرتے اور انہیں کتب و رسائل کی شکل دے کر شائع کروادیا جاتا۔ بسا اوقات بعض کتب دستیاب نہ ہونے کے باعث سوالات کو دوسرے شہروں میں بھیج دیا جاتا' تاکہ وہاں موجود کتابوں سے ان کے جوابات کو مرتب کیا جاسکے۔ جناب بریلوی ان فتاویٰ کو بغیر تنقیح کے شائع کرواتے۔ اسی وجہ سے ان کے اندر ابہام اور پیچیدگی رہ جاتی اور قارئین کی سمجھ میں نہ آتے۔ جناب بریلوی مختلف اصحاب کے تحریر کردہ فتاویٰ کا کوئی تاریخی نام رکھتے' چنانچہ اسے ان کی طرف منسوب کردیا جاتا۔
    جناب بریلوی کا قلم سوالات کے ان جوابات میں خوب روانی سے چلتا' جن میں توحید وسنت کی مخالفت اور باطل نظریات و عقائد کی نشر واشاعت ہوتی۔ چند مخصوص مسائل مثلاً علم غیب'حاضروناظر'نور وبشر'تصرفات وکرامات اور اس قسم کے دوسرے خرافی امور کے علاوہ باقی مسائل میں جناب بریلوی کا قلم سلاست و روانی سے محروم نظر آتاہے۔ یہ کہنا کہ ان کی کتب ایک ہزار سے بھی زائد ہیں' انتہائی مضحکہ خیز قول ہے۔
    ان کی مشہور تصنیف جسے کتاب کہا جاسکتا ہے' فتاویٰ رضویہ ہے۔ باقی چھوٹے چھوٹے رسالے ہیں۔ فتاویٰ رضویہ کی آٹھ جلدیں ہیں' ہر ایک جلد مختلف فتاویٰ پر مبنی چھوٹے چھوٹے رسائل پر مشتمل ہے۔
    بریلوی حضرات نے اپنے قائد و مؤسس کی تصانیف کی تعداد بڑھانے کے لیے اس میں مندرج رسائل کو مستقل تصانیف ظاہر کیا ہے۔ نمونے کے طور پر ہم فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں مندرج رسائل کو شمار کرتے ہیں۔ اس میں 31 رسائل موجود ہیں' جنہیں کتب ظاہر کیا گیا ہے۔۔۔۔ ان کے ا سماء درج ذیل ہیں:
    حسن النعم ۔
    باب العقائد۔
    قوانین العلمائ
    الجدالسعید
    مجلی الشمعۃ
    تبیان الوضوء
    الدقنہ والتبیان
    النہی النمیر
    الظفرلقول زفر
    المطرالسعید
    لمع الاحکام
    المعلم الطراز
    نبہ القوم
    اجلی الاعلام
    الاحکام والعلل
    الجود الحلود
    تنویر القندیل
    آخر مسائل
    النمیقۃ الانقی
    رجب الساعۃ
    ہبۃ الحمیر
    مسائل اخر
    افضل البشر
    بارق النور
    ارتفاع الحجب
    الطررس المعدل
    الطلبۃ البدیعۃ
    برکات الاسمائ
    عطاء النبی
    النوروالنورق
    سمع النذر
    چند سو صفحات پر مشتمل ایک جلد میں موجود 31 رسائل کو بریلوی حضرات نے اپنے اعلیٰ حضرت کی31 تصنیفات ظاہر کیا ہے۔86
    یہ کہہ دینا کہ فلاں شخص نے ایک ہزار ' دوہزار یا اس سے بھی زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں ' سہل ہے۔۔۔مگر اسے ثابت کرنا آسان نہیں۔ بریلوی حضرات بھی اسی مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں۔
    خود اعلیٰ حضرت فرمارہے ہیں کہ ان کی کتابوں کی تعداد 200 کے قریب ہے۔87
    ان کے ایک صاحبزادے کہہ رہے ہیں کہ 400 88کے لگ بھگ ہیں۔89
    ان کے ایک خلیفہ ظفر الدین بہاری رضوی جب ان تصنیفات کو شمار کرنے بیٹھے' تو350 رسالوں سے زیادہ نہ گنواسکے۔90
    ایک اور صاحب نے 548 تک تصنیفات شمار کیں۔91
    اب ذرا یہ لطیفہ بھی سن لیجئے کہ انہوں نے کس طرح یہ تعداد پوری کی ہے۔ انوار رضا میں ان کی جو تصانیف شمار کی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں' تاکہ قارئین پر کثرت تصانیف کے دعوے کا سربستہ راز منکشف ہوسکے۔
    حاشیہ صحیح بخاری۔ حاشیہ صحیح مسلم۔ حاشیہ النسائی۔ حاشیہ ابن ماجہ۔ حاشیہ التقریب۔ حاشیہ مسند امام اعظم۔ حاشیہ مسند احمد۔ حاشیہ الطحاوی۔ حاشیہ خصائص کبری۔ حاشیہ کنز العمال۔ حاشیہ کتاب الاسماء والصفات۔ حاشیہ الاصابہ۔ حاشیہ موضوعات کبیر۔ حاشیہ شمس بازعہ۔ حاشیہ عمدۃ القاری۔ حاشیہ فتح الباری۔ حاشیہ نصب الرایہ۔ حاشیہ فیض القدیر۔ حاشیہ اشعۃ اللمعات۔ حاشیہ مجمع بحار الانوار۔ حاشیہ تہذیب التہذیب۔ حاشیہ مسامرہ ومسابرہ۔ حاشیہ تحفۃ الاخوان۔ حاشیہ مفتاح السعادۃ۔ حاشیہ کشف الغمہ۔ حاشیہ میزان الشریعۃ۔ حاشیہ الہدایہ۔ حاشیہ بحرالرائق۔ حاشیہ منیۃ المصلی۔ حاشیہ رسائل شامی۔ حاشیہ الطحطاوی۔ حاشیہ فتاوی خانیہ۔ حاشیہ فتاوی خیراتیہ۔ حاشیہ فتاوی عزیزیہ۔ حاشیہ شرح شفا۔ حاشیہ کشف الظنون۔ حاشیہ تاج العروس۔ حاشیہ الدر المکنون۔ حاشیہ اصول الہندسہ۔ حاشیہ سنن الترمذی۔ حاشیہ تیسیر شرح جامع الصغیر۔ حاشیہ کتاب الاثار۔ حاشیہ سنن دارمی۔ حاشیہ ترغیب والترہیب۔ حاشیہ نیل الاوطار۔ حاشیہ تذکرۃ الحفاظ۔ حاشیہ ارشاد الساری۔ حاشیہ مرعاۃ المفاتیح۔ حاشیہ میزان الاعتدال۔ حاشیہ العلل المتناہیہ۔ حاشیہ فقہ اکبر۔ حاشیہ کتاب الخراج۔ حاشیہ بدائع الصنائع۔ حاشیہ کتاب الانوار۔ حاشیہ فتاوی عالمگیری۔ حاشیہ فتاوی بزازیہ۔ حاشیہ شرح زرقانی۔ حاشیہ میزان الافکار۔ حاشیہ شرح چغمینی۔
    یعنی وہ تمام کتب جو احمد رضا صاحب کے پاس تھیں اور ان کے زیر مطالعہ رہتیں' اور انہوں نے ان کتب کے چند صفحات پر تعلیقاً کچھ تحریر کیا' ان کتابوں کو بھی اعلیٰ حضرت صاحب کی تصنیفات شمار کیا گیا ہے۔
    اس طرح تو کسی شخص کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کی تصنیفات ہزاروں ہیں۔
    میری لائبریری میں پندرہ ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ فرق سے متعلقہ ہزاروں کتب میرے زیر مطالعہ رہ چکی ہیں۔ خود البریلویہ کی تصنیف کے لیے میں نے 300 سے زائد کتب و رسائل کا مطالعہ کیا ہے۔
    اور تقریباً ہر کتاب کے حاشیہ پر تعلیقات بھی لکھی ہیں۔ اس حساب سے میری تصنیفات ہزاروں سے متجاوز ہوجاتی ہیں۔
    اگر معاملہ یہی ہو تو اس میں فخر کی بات کون سی ہے؟ آخر میں پھر ہم اس سلسلے میں بریلوی حضرات کے متضاد اقوال کو دہراتے ہیں۔ خود احمد رضا صاحب فرماتے ہیں کہ ان کی کتب کی تعداد 200 ہے .92
    ان کے ایک خلیفہ کا ارشاد ہے 350 ہے۔93
    بیٹے کا قول 400 ہے۔94
    انوار رضا کے مصنف کہتے ہیں 548 ہے .95
    بہاری صاحب کا کہنا ہے 600 ہے.96
    ایک صاحب کا فرمان ہے کہ ایک ہزار ہے۔97
    اعلیٰ حضرت کی تمام وہ کتب و رسائل جو آج تک چھپی ہیں' ان کی تعداد 125 سے زائد نہیں۔98
    اور یہ وہی ہیں جن کے مجموعے کا نام فتاویٰ رضویہ ہے۔ یہاں ہم بریلوی حضرات کی ایک اور کذب بیانی نقل کرتے ہیں۔ مفتی برہان الحق قادری کہتے ہیں :
    "اعلیٰ حضرت کے مجدد ہونے کی شہادت آپ کا مجموعہ فتاوی ہے' جو بڑی تقطیع کی بارہ جلدوں میں ہے اور ہر جلد میں ایک ہزار صفحات سے زائد ہیں۔99
    اس بات سے قطع نظر کہ ان فتاوی کی علمی وقعت کیا ہے' ہم ان کی کذب بیانی کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں۔
    اولاً' یہ کہنا کہ اس کی بارہ جلدیں ہیں' سراسر غلط ہے۔ اس کی صرف آٹھ جلدیں ہیں۔
    ثانیاً' بڑی تقطیع کی صرف ایک جلد ہے۔ تمام جلدوں کے متعلق کہنا کہ وہ بڑی تقطیع کی ہیں' یہ بھی واضح جھوٹ ہے۔
    ثالثاً ' ان میں سے کوئی بھی ایک ہزار صفحات پر مشتمل نہیں ہے۔ بڑی تقطیع والی جلد کے کل صفحات 264 ہیں ' باقی جلدوں کے صفحات پانچ چھ سو صفحات سے زیادہ نہیں۔ بہرحال ایک ہزار صفحات کسی جلد کے بھی نہیں ہیں۔
    ہم نے تصنیفات کے موضوع کو اس قدر تفصیل سے اس لیے ذکر کیا ہے ' تاکہ معلوم ہوسکے کہ بریلوی حضرات جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی تعریف و توصیف میں کس قدر مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔
    یہ بات قابل ذکر ہے کہ فتاویٰ نویسی میں جناب احمد رضا اکیلے نہ تھے' بلکہ ان کے متعدد معاونین بھی تھے۔ ان کے پاس استفتاء کی شکل میں سوال آتے تو وہ ان کا جواب اپنے معاونین کے ذمے لگادیتے۔ جناب بریلوی اپنے معاونین کو دوسرے شہروں میں بھی بھیجتے۔100
    ظفر الدین بہاری نے اپنے اعلیٰ حضرت کا ایک خط بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے' جو اس موضوع کو سمجھنے میں کافی ممد ومعاون ثابت ہوسکتا ہے۔ جناب احمد رضا صاحب اپنے کسی ایک معاصر کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں:
    "تفسیر روح المعانی کون سی کتاب ہے' اور یہ آلوسی بغدادی کون ہیں؟ اگر ان کے حالات زندگی آپ کے پاس ہوں تو مجھے ارسال کریں۔ نیز مجھے "المدارک" کی بعض عبارتیں بھی درکار ہیں!101
    کسی اور مسئلے کا ذکر کر کے ایک اور خط میں لکھتے ہیں:
    "مجھے درج ذیل کتب کی فلاں مسئلے کے متعلق پوری عبارتیں درکار ہیں۔ اگر آپ کے پاس ہوں تو بہت بہتر' ورنہ پٹنہ جاکر ان کتابوں سے عبارتیں نقل کرکے ارسال کردیں۔ کتب درج ذیل ہیں:
    فتاوی تاتار خانیہ۔ زاد المعاد۔ عقد الفرید۔ نزہۃ المجالس۔ تاج العروس۔ قاموس۔ خالق زمخشری۔ مغرب مطرزی۔ نہایہ ابن الاثیر۔ مجمع البحار۔ فتح الباری۔ عمدۃ القاری۔ ارشاد الساری۔ شرح مسلم نووی۔ شرح شمائل ترمذی۔ السراج المنیر۔ شرح جامع الصغیر۔102
    بہرحال گزشتہ تمام نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب احمد رضا تنہا فتوی نویسی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ان کے بہت سے معاونین بھی تھے' جو مختلف سوالات کا جواب دیتے۔ اور ان کے اعلیٰ حضرت انہیں پنی طرف منسوب کرلیتے۔


Page 4 of 6 FirstFirst 123456 LastLast

Similar Threads

  1. Shirk-o-Bidat ki Haqiqat..only for ISLAH....
    By ata_aqr in forum Sunnat aur Hadees
    Replies: 22
    Last Post: 31st December 2010, 07:16 PM
  2. Replies: 30
    Last Post: 19th March 2010, 02:46 PM
  3. Kaya Hum Shirk Kartey Hein? / Are we making SHIRK?
    By Mohammed Ishaq in forum Islam
    Replies: 17
    Last Post: 1st February 2010, 11:08 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •