Page 5 of 6 FirstFirst ... 23456 LastLast
Results 49 to 60 of 66

Thread: Shirk aur Bidat ki Sharye heseyat?

  1. #49
    TooGooD is offline Member
    Last Online
    20th November 2009 @ 10:43 PM
    Join Date
    21 Sep 2009
    Posts
    321
    Threads
    18
    Thanked
    20

    Default

    aik taraf tum log jhoot pe jhoot bol rahay ho aur dosri taraf shikayat section main bol rahay ho k sudes ikhtilafi topic bana raha hai .

    doob maro tum munafikana herkatain krne wale logo jhoot pe jhoot boltay ho islam k barya main sharam kro kuch ye tumhare milvio ka deen nahi hai jo tum her bat main adha jhoot aur adha such bana kar apne molvio ko khush krte ho

  2. #50
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Thanked
    61

    Default

    حوالہ جات


    80 مقدمہ الدولۃ المکیہ مصنفہ احمد رضا بریلوی مطبوعہ لاہور
    81 ایضاً
    82 المجل المعدد لتالیفات المجدد از ظفرالدین بہاری
    83 ایضاً
    84 حیات البریلوی ص ١٣
    85 من ھو احمد رضا ص ٢٥
    86 ملاحظہ ہو المجمل المعدد لتالیفار المجدد
    87 الدولۃ المکیہ ص ١٠
    88 یعنی چند صفحات پر مشتمل چھوٹے رسالے
    89 الدولۃ المکیہ ص ١١
    90 ملاحظہ ہو المجمل المعدد
    91 انوار رضا ص ٣٢٥
    92 الدولۃ المکیہ ص١
    93 المجمل المعدد
    94 الدولۃ المکیہ ٣٢٣
    95 الدولۃ المکیہ ٣٢٣
    96 حیات اعلیٰ حضرت ص ١٣
    97 ضمیمہ المعتقد المتقلد ایضاً من ہو احمد رضا ص ٢٥
    98 انوار رضا ص ٣٢٥
    99 اعلیٰ حضرت بریلوی از بستوی ص ١٨٠
    100 ملاحظہ ہو حیات اعلیٰ حضرت ص ٢٤٤
    101 حیات اعلیٰ حضرت ص ٢٦٦
    102 ایضاً ص ٢٨١

  3. #51
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    جہاد کی مخالفت اور استعمار کی حمایت




    جناب بریلوی کا دور استعمار کا دور تھا۔ مسلمان آزمائش میں مبتلا تھے' ان کا عہد اقتدار ختم ہوچکا تھا۔ انگریز مسلمانوں کو ختم کردینا چاہتے تھے علماء کو تختہ دار پر لٹکایا جارہا تھا' مسلمان عوام ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے تھے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جارہی تھیں' انہیں کالا پانی اور دوسرے عقوبت خانوں میں مختلف سزائیں دی جارہی تھیں۔، ان کی شان و شوکت اور رعب ودبدبہ ختم ہوچکا تھا۔ انگریز مسلمان امت کے وجود کو بر صغیر کی سر زمین سے مٹا دینا چاہتے تھے،۔ اس دور میں اگر کوئی گروہ ان کے خلاف صدا بلند کررہا تھا اور پوری ہمت و شجاعت کے ساتھ جذبہ جہاد سے سرشار ان کا مقابلہ کررہا تھا' تو وہ وہابیوں کا گروہ تھا۔103
    (وہابی کا لفظ سب سے پہلے اہل حدیث حضرات کے لئے انگریز نے استعمال کیا' تاکہ وہ انہیں بدنام کرسکیں۔ وہابی کا لفظ باغی کے معنوں میں ہوتا تھا۔ بلاشبہ وہابی انگریز کے باغی تھے)
    انہوں نے علم جہاد بلند کیا' اپنی جائیدادیں ضبط کروائیں' کالا پانی کی سزائیں برداشت کیں' دارورسن کی عقوبتوں سے دوچار ہوئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا' مگر انگریزی استعمار کو تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ اس دور کے وہابی چاہتے تھے کہ برصغیر میں مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر مضبوط ہوجائیں۔
    اس وقت ضرورت تھی اتفاق و اتحاد کی' مل جل کر جدوجہد کرنے کی' ایک پرچم تلے متحد ہوکر انگریزی استعمار کو ختم کرنے کی۔ مگر استعمار یہ نہ چاہتا تھا۔ وہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کرنا چاہتا تھا۔ وہ مسلمانوں کو باہم دست و گریبان دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اسے چند افراد درکار تھے' جو اس کے ایجنٹ بن کر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالیں' انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کردیں اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے ان کی قوت و شوکت کو کمزور کردیں۔ اس مقصد کے لئے انگریز نے مختلف اشخاص کو منتخب کیا' جن میں مرزا غلام احمد قادیانی104 اور جناب بریلوی کے مخالفین کے مطابق احمد رضا خان بریلوی صاحب سر فہرست تھے۔105
    مرزا غلام احمد قادیانی کی سرگرمیاں تو کسی سے مخفی نہیں' مگر جہاں تک احمد رضا صاحب کا تعلق ہے' ان کا معاملہ ذرا محتاج وضاحت ہے۔ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے استعمار کے مخالفین وہابی حضرات کو سب و شتم اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ ان وہابیوں کو ' جو انگریز کے خلاف محاذ آراء تھے اور ان کے خلاف جہاد میں مصروف تھے' انگریز کی طرف سے ان کی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ 106صرف بنگال میں ایک لاکھ وہابی علماء کو پھانسی کی سزا دی گئی۔107
    انگریز مصنف ہنٹر نے اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اپنی کتاب Indian Muslims میں کہا ہے:
    "ہمیں اپنے اقتدار کے سلسلے میں مسلمان قوم کے کسی گروہ سے خطرہ نہیں۔ اگر خطرہ ہے تو صرف مسلمانوں کے ایک اقلیتی گروہ وہابیوں سے ہے۔ کیونکہ صرف وہی ہمارے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں!108
    جنگ آزادی 1857ء کے بعد وہابیوں کے تمام اکابرین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔109
    1863ء کا عرصہ ان کے لیے نہایت دشوار تھا۔ اس عرصے میں انگریز کی طرف سے ان پر جو مظالم ڈھائے گئے' ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔
    وہابی علماء میں سے جن کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا' ان میں مولانا جعفر تھانیسری' مولانا عبدالرحیم' مولانا عبد الغفار' مولانا یحیی علی صادق پوری' مولانا احمد اللہ اور شیخ الکل مولانا نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہم سر فہرست ہیں۔
    وہابی مجاہدین کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم جاری کردیا گیا۔110
    وہابیوں کے مکانوں کو مسمار کردیا گیا اور ان کے خاندانوں کی قبروں تک کو اکھیڑ دیا گیا۔111 ان کی بلڈنگوں پر بلڈوزر چلادیے گئے۔112 وہابی علماء کو گرفتار کرکے انہیں مختلف سزائیں دی گئیں۔ اس ضمن میں شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا واقعہ بہت مشہور ہے۔113
    ان وہابیوں کے خلاف زبان استعمال کرنے کے لیے اور "فرق تسد" یعنی "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی مشہور انگریزی پالیسی کو کامیاب کرنے کے لیے استعمار نے جناب احمد رضا صاحب کو استعمال کیا' تاکہ وہ مسلمانوں میں افتراق وانتشار کا بیج بو کر ان کے اتحاد کو ہمیشہ کے لیے پارہ پارہ کردیں۔
    اور عین اس وقت جب کہ انگریز کے مخالفین ان کی حکومت سے نبرد آزما تھے اور جہاد میں مصروف تھے' جناب احمد رضا نے ان جملہ مسلم راہنمایان کا نام لے کر ان کی تکفیر کی' جنہوں نے آزادی کی تحریک کے کسی شعبے میں بھی حصہ لیا۔114
    وہ جماعتیں جنہوں نے تحریک آزادی ہند میں حصہ لیا' ان میں وہابی تحریک کے علاوہ جمیعت علمائے ہند' مجلس احرار' تحریک خلافت' مسلم لیگ' نیلی پوش مسلمانوں میں سے اور آزاد ہند فوج خاص ہندوؤں میں سے اور گاندھی کی کانگرس قابل ذکر ہیں۔
    جناب بریلوی آزادی ہند کی ان تمام تحریکوں سے نہ صرف لاتعلق رہے' بلکہ ان تمام جماعتوں اور ان کے اکابرین کی تکفیر و تفسیق کی۔ ان کے خلاف سب وشتم میں مصروف رہے اور ان میں شمولیت کو حرام قرار دیا۔
    جناب احمد رضا تحریک خلافت کے دوران ہی وفات پاگئے' ان کے بعد ان کے جانشیوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا اور وہابیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی شدید مخالفت کی اور لیگی زعماء کے کافر و مرتد ہونے کے فتوی جاری کیے اور اس طرح انہوں نے بالواسطہ طور پرانگریزی استعمار کے ہاتھ مضبوط کیے۔ جناب احمد رضا کی سرپرستی میں بریلوی زعماء نے مسلمانوں کو ان تحریکوں سے دور رہنے کی تلقین کی اور جہاد کی سخت مخالفت کی۔ چونکہ شرعاً جہاد آزادی کا دارومدار ہندوستان کے دارالحرب ہونے پر تھا اور اکابرین ملت اسلامیہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دے چکے تھے' احمد رضا خاں صاحب نے اس بنا پر جہاد کو منہدم کرنے کے لیے یہ فتوی دیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے۔ اور اس کے لیے بیس صفحات پر مشتمل ایک رسالہ ]اعلام بان ھندوستان دارالاسلام[ یعنی"اکابرین کو ہندوستان کے دارالاسلام ہونے سے آگاہ کرنا" تحریر کیا۔
    جناب احمد رضا خاں صاحب نے اس رسالے کے شروع میں جس چیز پر زور دیا' وہ یہ تھا کہ وہابی کافر مرتد ہیں۔ انہیں جزیہ لے کر بھی معاف کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح نہ انہیں پناہ دینا جائز' نہ ان سے نکاح کرنا' نہ ان کا ذبیحہ جائز' نہ ان کی نماز جنازہ جائز' نہ ان سے میل جول رکھنا جائز' نہ ان سے لین دین جائز' بلکہ ان کی عورتوں کو غلام بنایا جائے اور ان کے خلاف سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔اور آخر میں لکھتے ہیں:
    ( قاتلھم اللہ انّی یوفکون ) یعنی "خدا انہیں غارت کرے وہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔115
    یہ رسالہ جناب احمد رضا کی اصلیت کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس سے ان کے مکروہ عزائم کھل کر سامنے آجاتے ہیں کہ وہ کس طرح مجاہدین کی مخالفت کرکے انگریز استعمار کی حمایت و تائید کررہے تھے۔ اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دشمنان دین و ملت کا دست بازو بن چکے تھے۔
    جس وقت دنیا بھر کے مسلمان ترکی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کررہے تھے اور مولانا محمد علی جو ہر رحمہ اللہ اور دوسرے اکابرین کی زیر قیادت خلافت اسلامیہ کے تحفظ و بقاء کے لیے انگریزوں سے جنگ لڑرہے تھے' عین اس وقت جناب احمد رضا انگریزوں کے مفاد میں جانے والی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
    بلاشبہ تحریک خلافت' انگریزوں کو ان کی بدعہدی پر سزا دینے کے لیے نہایت موثر ثابت ہورہی تھی۔ تمام مسلمان ایک پرچم تلے جمع ہوچکے تھے۔ علماء و عوام اس تحریک کی حمایت کررہے تھے۔ خود ایک بریلوی مصنف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے:
    "1918ء میں جنگ عظیم ختم ہوئی' جرمنی اور اس کے ساتھیوں ترکی آسٹریا وغیرہ کو شکست ہوئی' ترکوں سے آزادی ہند کے متعلق ایک معاہدہ طے پایا۔ لیکن انگریزوں نے بدعہدی اور وعدہ خلافی کی' جس سے مسلمانوں کو سخت دھچکا لگا۔ چنانچہ وہ بپھر گئے اور ان کے خلاف ہوگئے۔ اہل سیاست اس فکر میں تھے کہ کسی ترکیب سے انگریزوں کو وعدہ خلافی کی سزا دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ خلافت اسلامیہ کا تحفظ فرائض و واجبات میں سے ہے۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔116
    اور حقیقتاً تحریک خلافت انگریزوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہورہی تھی۔ مسلمان انگریزوں کے خلاف متحد ہوچکے تھے۔ قریب تھا کہ یہ تحریک انگریزی سلطنت کے خاتمہ کا باعث بن جاتی۔ اس امر کی وضاحت اہل حدیث جید عالم دین امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔117

  4. #52
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    مگر بریلوی مکتب فکر کے امام و مجدد نے انگریزوں کے خلاف چلنے والی اس تحریک کے اثرات و نتائج کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے دوستی کا ثبوت دیا اور تحریک خلافت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک دوسرا رسالہ "دوام العیش" کے نام سے تالیف کیا' جس میں انہوں نے واضح کیا کہ چونکہ خلافت شرعیہ کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے' اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ترکوں کی حمایت ضروری نہیں' کیونکہ وہ قریشی نہیں ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کی بھرپور مخالفت کی اور انگریزی استعمار کی مضبوطی کا باعث بنے۔
    احمد رضاخاں صاحب تحریک خلافت کے مسلم زعماء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رقمطراز ہیں:
    "ترکوں کی حمایت تو محض دھوکے کی ٹٹی ہے۔ اصل مقصود یہ ہے کہ خلافت کا نام لو۔ عوام بپھریں' خوب چندہ ملے اور گنگا و جمنا کی مقدس سر زمینیں آزاد ہوں۔118"
    جناب احمد رضا نے تحریک ترک موالات کی بھی شدید مخالفت کی۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ یہ تحریک انگریز کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔
    تحریک ترک موالات کا مقصود یہ تھا کہ انگریزوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انہیں ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی نہ کی جائے' اس کے تحت چلنے والے سرکاری محکموں میں ملازمت نہ کی جائے، غرضیکہ ان کی حکومت کو یکسر مسترد کردیا جائے' تاکہ وہ مجبور ہوکر ہندوستان کی سرزمین سے نکل جائیں۔ اس مقصد کے لیے تمام مسلمانوں نے 1920ء میں متحد ہوکر جدوجہد شروع کردی۔ جس سے انگریز حکومت کے خلاف ایک فتنہ کھڑا ہوگیا اور وہ متزلزل ہونے لگی۔ اس تحریک کو گاندھی کے علاوہ جناب احمد رضا نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اور ایک رسالہ تحریر کرکے اس کی سختی سے ممانعت کی اور اس تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے۔
    چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے تحریر کئے گئے رسالے (والمحجتہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنۃ) میں اعتراف کرتے ہیں۔
    "اس تحریک کا ہدف انگریز سے آزادی کا حصول ہے"۔119
    نیز اس رسالے میں جہاد کی مخالفت کرتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں :
    "ہم مسلمانان ہند پر جہاد فرض نہیں ہے۔ 120اور جو اس کی فرضیت کا قائل ہے' وہ مسلمانوں کا مخالف ہے اور انہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔121
    نیز لکھتے ہیں:
    حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جہاد سے استدلال کرنا جائز نہیں' کیونکہ ان پر جنگ مسلط کی گئی تھی۔ اور حاکم وقت پر اس وقت تک جہاد فرض نہیں' جب تک اس میں کفار کے مقابلے کی طاقت نہ ہو۔ چنانچہ ہم پرجہاد کیسے فرض ہوسکتا ہے' کیونکہ ہم انگریز کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔122"
    مسلمانوں کو جہاد و قتال' نیز انگریز سے محاذ آرائی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    " یا ایھا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا ھتدیتم "
    یعنی"اے ایماندارو' تم اپنے آپ کے ذمہ دار ہو۔ کسی دوسرے شخص کا گمراہ ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتا' بشرطیکہ تم خود ہدایت پر گامزن ہو۔123
    یعنی ہر مسلمان انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرے' اجتماعی جدوجہد کی کوئی ضرورت نہیں!
    اور اپنے رسالہ کے آخر میں ان تمام راہنماؤں پر کفر کا فتوی لگایا ہے ' جو انگریزی استعمار کے مخالف اور تحریک ترک موالات کے حامی تھے۔124
    جناب احمد رضا نے جہاد کے منہدم کرنے کا فتوی اپنے رسالے "دوام العیش" میں بھی دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
    "مسلمانان ہند پر حکم جہاد و قتال نہیں!125
    بہرحال احمد رضا صاحب کے متعلق مشہور ہوگیا تھا کہ وہ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اور ہر اس تحریک کے مخالف ہیں' جو انگریزوں کے خلاف چلائی جاتی ہے۔
    بریلوی اعلٰی حضرت کے ایک پیروکار لکھتے ہیں:
    "مسلمان احمد رضا سے بد ظن ہوگئے تھے۔126"
    ایک اور مصنف لکھتا ہیں:
    "مسئلہ خلافت سے ان کو اختلاف تھا۔ انتقال کے قریب ان کے خلاف مسلمانوں میں بہت چرچا ہوگیا تھا اور ان کے مرید اور معتقد اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگشتہ ہوگئے تھے۔127
    بہرحال عین اس وقت' جب کہ مسلمانوں کو متحد ہو کر انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت تھی' جناب احمد رضا خاں صاحب انگریزوں کے مفاد کے لیے کام کررہے تھے۔
    اگر یہ نہ بھی کہا جائے کہ احمد رضا خاں صاحب انگریز کے ایجنٹ تھے' تب بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی تمام تر سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف اور انگریز کے مفاد میں تھیں۔ کیونکہ انہوں نے مجاہدین کی تو مخالفت کی' مگر انگریز کے حامی و موید رہے۔
    مشترق فرانسس رابنس نے جناب احمد رضا صاحب کے متعلق لکھا ہے:
    احمد رضا بریلوی انگریزی حکومت کے حامی رہے۔انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں بھی انگریزی حکومت کی حمایت کی۔ اسی طرح وہ تحریک خلافت میں 1921ء میں وہ انگریز کے حامی تھے۔ نیز انہوں نے بریلی میں ان علماء کی کانفرنس بھی بلائی' جو تحریک ترک موالات کے مخالف تھے۔
    یہ تھے جناب احمد رضا اور ان کی سر گرمیاں!128


  5. #53
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    حوالہ جات


    103 وہابی کا لفظ سب سے پہلے اہل حدیث حضرات کے لئے انگریز نے استعمال کیا'تاکہ وہ انہیں بدنام کرسکیں وہابی کا لفظ باغی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا ۔ بلاشبہ وہابی انگریز کے باغی تھے
    104 اس ثبوت کے لئے ہماری کتاب القادیانیہ ملاحظہ کیجئے!
    105 اس کے لیے ملاحظہ ہو کتب' بریلوی فتوے'تکفیری افسانے'آئینہ صداقت' مقدمہ الشہاب الثاقب'مقدمہ رسائل چاند پوری ''فاضل بریلوی '' وغیرہ
    106 تذکرہ صادق از عبدالرحیم
    107 ملاحظہ ہو کتاب (Wahabi Trils)
    108 انڈین مسلم ص ٣٢
    109 تاریخ اہلحدیث کے متعلق ہم ایک مستقل رسالہ تصنیف کریں گے.یہ علامہ مرحوم کے مستقبل کے عزائم میں شامل تھا'لیکن بہت سے دوسرے منصوبوں کی طرح ی بھی نامکمل رہ گیا۔ ان اللہ فعال لما یرید
    110 وہابی تحریک ص ٢٩٢
    111 تذکرہ صادقہ۔
    112 ایضاً
    113 وہابی تحریک ٣١٥۔
    114 تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو اس کتاب کا باب ''بریلویت اور تکفیری افسانے علاوہ ازیں ان کتابوں کی طرف رجوع کیجئے: آئینہ صداقت' مقدمہ شہاب ثاقب' مقدمہ رسائل چاند پوری'فاضل بریلوی از مسعود احمد بریلوی۔
    115 ملاحظہ ہو اعلام بان ہندوستان دارالاسلام ص ١٩'٢٠۔
    116 مقدمہ دوام العیش از مسعود احمد ص ١٥۔
    117 ایضاً ص ١٧۔
    118 دوام العیش ص ٦٣ مطبوعہ بریلی و ص ٩٥ مطبوعہ لاہور۔
    119 المحبتہ الموتمنتہ از احمد رضا ص ١٥٥۔
    120 مرزا غلام احمد قادیانی کا بھی یہی فتویٰ تھا۔
    121 المحبتہ الموتمنتہ ص ٢١٠۔
    122 المحبتہ الموتمنتہ ص ٢٠٦
    123 ملاحظہ ہو خاتمۃ الکتاب ص ٢١١۔
    124 دوام العیش ص ٤٦۔
    125 مقدمہ دوام العیش ص ١٨۔
    126مقدمہ دوام العیش مقالہ حسن نظامی ص ٢'از مقدمہ
    دوام العیش ص ١٨۔
    127 (Indian Muslims) ص ٤٤٣ مطبوعہ کیمرج یونیورسٹی ١٩٧٤۔
    128 وصایا شریف ص ١٠ ترتیب حسنین رضا مطبوعہ ہند۔

  6. #54
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    جناب بریلوی کی وفات



    جناب بریلوی کی موت ذات الجنب کے مرض سے واقع ہوئی۔ مرتے وقت انہوں نے چند وصیتیں کیں ' جو "وصایا شریف" کے نام سے ایک رسالے میں شائع ہوئیں۔
    احمد رضا خاں صاحب نے مرتے وقت کہا :
    "میرا دین و مذہب' جو میری کتب سے ظاہر ہے' اس مضبوطی سے قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے۔129
    نیز انہوں نے کہا:
    "پیارے بھائیو! مجھے معلوم نہیں' میں کتنے دن تمہارے اندر ٹھہروں۔ تم مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھولی بھالی بھیڑیں ہو۔ بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں' جو تم کو بہکانہ چاہتے ہیں اور فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان سے بچو اور دور بھاگو۔ مثلا دیوبندی وغیرہ!130
    اور وصیت کی آخر میں کہا:
    "اگر بطیّب خاطر ممکن ہو تو فاتحہ میں ہفتہ میں دو تین بار ان اشیاء سے بھی کچھ بھیج دیا کریں:
    دودھ کا برف خانہ ساز' اگرچہ بھینس کے دودھ کا ہو۔
    مرغ کی بریانی، مرغ پلاؤ ، خواہ بکری کا شامی کباب، پراٹھے اور بالائی، فیرنی، ارد کی پھریری دال مع ادرک و لوازم، گوشت بھری کچوریاں، سیب کا پانی، انار کا پانی، سوڈے کی بوتل، دودھ کا برف
    اور روزانہ ایک چیز ہوسکے ' یوں کیا کرو ' یا جیسے مناسب جانو۔۔۔۔ پھر حاشیے میں درج ہے:
    "دودھ کا برف دوبارہ پھر بتایا!"
    چھوٹے مولانا نے عرض کیا
    "اسے تو حضور پہلے لکھا چکے ہیں۔"
    فرمایا:
    "پھر لکھو۔ انشاء اللہ مجھے میرا رب صرف برف ہی عطا فرمائے گا۔"
    اور ایسا ہی ہوا کہ ایک صاحب دفن کے وقت بلا اطلاع دودھ کا برف خانہ ساز لے آئے!131
    بریلوی مکتب فکر کے اعلیٰ حضرت کی وفات 25 صفر 1340ھ بمطابق 1921ء 68 برس کی عمر میں ہوئی
    معلوم ہوتا ہے کہ جناب بریلوی کا جنازہ قابل ذکر حاضری سے محروم تھا۔ بہرحال ہم اس سلسلے میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ بغیر دلیل کے کوئی حکم لگانا ہم اپنے اسلوب تحریر کے منافی تصور کرتے ہیں۔ تاہم قرائن و شواہد سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام ان کی تلخ لسانی ' بات بات پر تکفیر کے فتووں اورانگریز کی عدم مخالفت کی وجہ سے ان سے متنفر ہوگئے تھے۔132
    اس بات کا اعتراف ایک بریلوی مصنف نے بھی کیا ہے کہ "مسلمان امام احمد رضا سے متنفر ہوگئے تھے" ۔ نیز:
    "ان کے مرید ومعتقد بھی اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگزشتہ ہوگئے تھے۔
    ویسے بھی بریلویت کے پیروکار چونکہ اپنے امام و مجدد کے بارے میں بہت زیادہ غلو و مبالغہ کے عادی ہیں' اگر جنازے کی حاضری کسی عام عالم دین کے جنازے کے برابر بھی ہوتی تو ان کی تصانیف اس سلسلے میں مبالغہ آمیز دعووں سے بھری ہوتیں۔۔۔۔۔جب کہ انہوں نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ البتہ بریلوی قوم حاضری کے علاوہ ان کے جنازے کے بارے میں دوسرے چند ایک مبالغوں سے باز نہیں آئی !
    مبالغہ آمیزی
    ایک صاحب لکھتے ہیں:
    "جب جناب احمد رضا صاحب کا جنازہ اٹھایا گیا تو کچھ لوگوں نے دیکھا کہ اسے فرشتوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔" 135
    بستوی صاحب فرماتے ہیں کہ امام احمد رضا کی وفات کے بعد ایک عرب بزرگ تشریف لائے' انہوں نے کہا:
    "25 صفر المظفر 1340ء کو میری قسمت بیدار ہوئی!
    خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حاضر دربار ہیں۔ لیکن مجلس پر ایک سکوت طاری ہے۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا انتظار ہے۔۔ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا (فداک ابی وا می) کس کا انتظار ہے؟
    فرمایا:احمد رضا کا انتظار ہے۔
    میں نے عرض کیا' احمد رضا کون ہیں؟
    فرمایا' " ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں!" بیداری کے بعد مجھے مولانا کی ملاقات کا شوق ہوا۔ میں ہندوستان آیا اور بریلی پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے' اور وہی 25 صفر ان کی تاریخ وصال تھی!136
    بارگاہ رسالت میں بریلوی حضرات نے اپنے امام کی مقبولیت کو ثابت کرنے کے لیے جن من گھڑت واقعات اور دعووں کا سہارا لیا ہے' ان میں سے ایک "وصایا شریف" میں بھی درج ہے وہ (یعنی احمد رضا) آپ کی خوشبوؤں سے بسے ہوئے سدھارے۔137
    یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احمد رضا کو غسل دینے کے لیے خصوصی طور پر آب زمزم اور عطر کسی حاجی کے ہاتھ ارسال کیا تاکہ احمد رضا صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے وقت مدینہ منورہ کی خوشبو سے معطر ہوں۔ العیاذ باللہ!
    اگر مبالغات کا ذکر شروع ہو ہی گیا ہے' تو مناسب ہے کہ چند مزید مبالغہ آمیز اقوال ذکر کردیئے جائیں۔
    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی پر مبنی کسی بریلوی کا قول ہے:
    "میں نے بعض مشائخ کو کہتے سنا ہے' امام احمد رضا کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زیارت کا شوق کم ہوگیا۔138
    گزشتہ دو صدی کے اندر کوئی ایسا جامع عالم نظر نہیں آتا۔139"
    ایک اور بریلوی مصنف ارشاد کرتے ہیں:
    "آپ کی علمی جلالت اور علمی کمال کی کوئی نظیر نہیں۔ امام احمد رضا صاحب اپنے علم اور اصابت رائے میں منفرد تھے۔140"
    اور:
    "امام احمد رضا صاحب نے دین کی تعلیمات کو ازسرنو زندہ کیا۔141"
    "فتاویٰ رضویہ میں ہزارہا مسائل142 ایسے ہیں' جن سے علماء کے کان بھی آشنا نہیں۔143"
    "اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ فتاوی رضویہ کو دیکھ لیتے تو اس کے مؤلف کو اپنے جملہ اصحاب میں شامل فرمالیتے۔144"
    ایک دوسرے بریلوی مصنف کا کہنا ہے:
    "امام احمد رضا اپنے دور کے امام ابوحنیفہ تھے۔145"
    ایک اور بریلوی مصنف مبالغہ آراء ہیں:
    امام احمد رضا کے دماغ میں امام ابوحنیفہ کی مجتہدانہ ذہانت ' ابوبکر رازی کی عقل اور قاضی خاں کا حافظہ تھا۔146"
    بریلوی حضرات نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے امام و مجدد کو "آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری" کا مصداق ٹھہراتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے لکھا ہے:
    "امام احمد رضا حق میں صدیق اکبر کا پر تو' باطل کو چھاٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر' رحم وکرم میں ذوالنورین کی تصویر اور باطل شکنی میں حیدری شمشیر تھے۔" معاذ اللہ!147
    اس پر بھی مستزاد:
    "اعلیٰ حضرت معجزات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک معجزہ تھے۔148"
    قارئین کو علم ہونا چاہئے کہ معجزہ اس خرق عادت شے کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی علیہ السلام کے ہاتھوں پر صادر ہو۔ اب یہ بریلوی حضرات ہی بتاسکتے ہیں کہ کیا احمد رضا کی ذات کی پیدائش یا ان کی صفات اور خصائل خلاف عادت تھیں؟ اور پھر چودھویں صدی میں ان کا وجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کیسے ہوسکتا ہے؟
    جناب بریلوی کے اس معتقد نے تو انہیں معجزہ ہی کہا تھا۔ ان کے ایک اور پیروکار نے تو انہیں واجب الاطاعت نبی کے مقام پر فائز قرار دے دیا۔ وہ کہتے ہیں:
    "اعلیٰ حضرت زمین میں اللہ تعالیٰ کی حجت تھے!149
    اب ظاہر ہے' اللہ تعالیٰ کی حجت تو نبی کی ذات ہی ہوتی ہے۔ بریلوی حضرات سمجھنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جناب خاں صاحب کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا' ان کی بات کو ٹھکرایا گیا اور ان کی اتباع اور اطاعت سے انکار کیا گیا' تو یہ رب کائنات کی طرف سے پیش کی جانے والی دلیل وحجت کو ٹھکرانے کے مترادف ہوگا۔
    ان تمام مبالغہ آ میز دعووں سے ثابت ہوتا ہے کہ خاں صاحب بریلوی کے متبعین ان کی ذات کو مقدس قرار دینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ ہم گزشتہ صفحات میں یہ بیان کر آئے ہیں کہ بریلوی حضرات اپنے مجدد اعلیٰ حضرت کو غلطیوں سے مبرا اور معصوم عن الخطا سمجھتے ہیں۔ اور بلاشبہ "عصمت" انبیائے کرام علیہ السلام کی خاصیت ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی امتی کو معصوم سمجھنا ختم نبوت سے انکار کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور سوء الاعتقادی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
    گزشتہ غلو آمیز دعووں کے علاوہ چند اور مبالغات کا ذکر کرکے ہم اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ :
    ساڑھے تین برس کی عمر میں جناب احمد رضا ایک بازار سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے صرف ایک بڑا سا کرتہ زیب تن کیا ہوا تھا سامنے سے طوائفیں آرہی تھیں۔ انہوں نے اپنا کرتہ اٹھایا اور دامن سے آنکھیں چھپالیں۔
    طوائفوں نے کہا"واہ منے میاں! آنکھیں تو چھپالیں مگر ستر ننگا کردیا۔"
    ساڑھے تین برس کی عمر میں بریلویت کے موسس نے جواب دیا: "جب نظر بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے' اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے۔150"
    اب ان سے کوئی پوچھے کے ساڑھے تین برس کی عمر میں خاں صاحب کو کیسے علم ہو گیا کہ آنے والی طوائفیں ہیں؟ اور پھر جس بچے نے ابھی ستر ڈھانپنا شروع نہ کیا ہو' اسے نظر اور دل کے بہکنے سے ستر کے بہکنے کا جنسی راز کیسے معلوم ہوگیا؟
    لیکن جھوٹ بولنے کے لیے عقل و خرد کا ہونا تو ضروری نہیں!
    بریلوی حضرات کہتے ہیں :
    "امام احمد رضا کے علمی دبدبے سے یورپ کے سائنسدان اور ایشیا کے فلاسفر لرزتے رہے!151
    نیز:
    "اعلیٰ حضرت کو خداداد قوت حافظہ سے ساری چودہ برس کی کتابیں حفظ تھیں' ان کے بلند مقام کو بیان کرنے کے لیے اہل لغت لفظ پانے سے عاجز رہے ہیں۔152"
    نیز:
    اعلیٰ حضرت جب حج کے لیے تشریف لے گئے' تو انہیں مسجد خیف میں مغفرت کی بشارت دی گئی۔153"
    بریلوی شاعر ایوب علی رضوی اپنے قصیدہ میں کہتا ہے


    اندھوں کو بینا کردیا بہروں کو شنوا کردیا
    دین نبی زندہ کیا یا سیدی احمد رضا
    امراض روحانی و نفسانی امت کے لیے
    در ہے تیرا دارالشفاء یا سیدی احمد رضا
    یا سیدی یا مرشدی یا مالکی یا شافعی
    اے دستگیر راہنما یا سیدی احمد رضا
    جب جان کنی کا وقت ہوا اور رہزنی شیطاں کرے
    حملہ سے اس کے لے بچا یا سیدی احمد رضا
    احمد کا سایہ غوث پر اور تجھ پر سایہ غوث کا
    اور ہم پہ ہے سایہ تیرا یا سیدی احمد رضا
    احمد پہ ہو اب کی رضا احمد کی ہو تجھ پر رضا
    اور ہم پہ ہو تیری رضا یا سیدی احمد رضا154

    ان کے ایک اور شاعر ہرزہ سرا ہیں


    خلق کے حاجت روا احمد رضا
    ہے میرا مشکل کشا احمد رضا
    کون دیتا ہے مجھ کو کس نے دیا؟
    جو دیا تم نے دیا احمد رضا!
    دونوں عالم میں ہے تیرا آسرا
    ہاں مدد فرما شاہ احمد رضا
    حشر میں جب ہو قیامت کی تپش
    اپنے دامن میں چھپا احمد رضا
    جب زبانیں سوکھ جائیں پیاس سے
    جام کوثر کا پلا احمد رضا
    قبر و نشر و حشر میں تو ساتھ دے
    ہو میرا مشکل کشا احمد رضا
    تو ہے داتا اور میں منگتا ترا
    میں ترا ہوں اور تو مرا احمد رضا!155

    یہ تو ہیں جناب بریلوی اور ان کے پیروکار! اور یہ ہیں ان کی پھیلائی ہوئی تعلیمات! غلو مبالغہ آمیزی میں اس قوم کی کوئی نظیر نہیں' ہر آنے والا جانے والے کو اس طرح کی شرکیہ خرافات سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قوم کو راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرمائے!
    خود جناب بریلوی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شان میں مبالغہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں


    کریں اقطاب عالم کعبہ کا طواف
    کعبہ کرتا ہے طواف در والا تیرا

    اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں


    ملک سخن کی شاہی تو کو رضا مسلم
    جس سمت آگئے ہوسکے بٹھادیے ہیں157

    نیز:
    "میرا سینہ ایک صندوق ہے کہ جس کے سامنے کسی علم کا بھی سوال پیش کیا جائے' فوراً جواب مل جائے گا۔158"
    احمد رضا صاحب ایک طرف تو اپنے بارے میں اس قدر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے' اور دوسری طرف اپنے آپ کو دائرہ انسانیت سے خارج کرتے ہوئے نغمہ سرا ہیں


    کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
    تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں159

    مزید:


    تجھ سے در در سگ اور سگ سے مجھ کو نسبت
    میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا160

    ایک مرتبہ خاں صاحب بریلوی کے پیر صاحب نے رکھوالی کے لیے اچھی نسل کے دوکتے منگوائے' تو جناب بریلوی اپنے دونوں بیٹوں کو لیے اپنے پیر صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے:
    "میں آپ کی خدمت میں دو اچھی اور اعلیٰ قسم کے کتے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ انہیں قبول فرمالیجئے!161
    تو یہ ہیں جناب احمد رضا خاں بریلوی کی شخصیت کے دونوں پہلو'ایک طرف تو وہ امام' غوث'قطب اور قاضی الحاجات وغیرہ کے القاب سے متصف ہیں۔ اور دوسری طرف شرف انسانیت سے بھی گرے ہوئے ہیں اور انسان کی بجائے ایک ناپاک جانور سے خود کو تشبیہ دینے میں فخر محسوس کررہے ہیں!
    اس باب کے آخر میں ہم بریلوی مذہب کے چند اکابرین کا ذکر کرکے اس باب کو ختم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نعیم مراد آبادی ہیں۔


  7. #55
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    یہ 1883ء میں پیدا ہوئے۔ یہ جناب بریلوی کے ہم عصروں میں سے تھے۔انہوں نے بھی جناب بریلوی کی طرح توحید و سنت کی مخالفت' شرک و بدعت کی حمایت اور غیر شرعی رسم و رواج کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا ایک مدرسہ بھی تھا' جس کا نام شروع میں "مدرسہ اہل السنہ تھا۔ بعد میں تبدیل کرکے "جامعہ نعیمیہ" رکھ دیا گیا۔ اس مدرسے سے فارغ ہونے والے نعیمی کہلاتے ہیں۔ ان کی تالیفات میں "خزائن العرفان" جسے بعد میں جناب احمد رضا خاں صاحب کے ترجمہ قرآن کے ساتھ شائع کیا گیاہے۔۔۔۔۔ "اطیب البیان" 162جو شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی تصنیف "تقویۃ الایمان" کے جواب میں لکھی گئی' اور الکلمۃ العلیا" قابل ذکر ہیں۔
    ان کی وفات 1948ء میں ہوئی۔163 بریلوی حضرات انہیں "صدر الافاضل" کے لقب سے موسوم کرتے ہیں۔
    بریلوی زعماء میں امجد علی بھی ہیں۔ یہ ہندوستان کے صوبہ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور مدرسہ حنفیہ جون پور میں تعلیم حاصل کی۔ جناب امجد علی احمد رضا صاحب کے بھی کچھ عرصہ تک زیر تربیت رہے اور ان کے مذہب کی نشرواشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی تصنیف "بہار شریعت" بریلوی فقہ کی مستند کتاب ہے' جس میں احمد رضا صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی احکام و مسائل کی توضیح کی گئی ہے۔
    ان کی وفات 1948ء میں ہوئی۔164
    ان کے اکابرین میں سے دیدار علی بھی ہیں' جو نواب پور میں 1270ھ میں پیدا ہوئے اور احمد علی سہارن پوری سے تعلیم حاصل کی' اور 1293ھ میں فارغ ہونے کے بعد مستقل طور پر لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے:
    "مولانا دیدار علی نے لاہور شہر کو وہابیوں اور دیوبندیوں کے زہریلے عقائد سے محفوظ رکھا۔165 ان کی وفات 1935ء میں ہوئی" ان کی تالیفات میں تفسیر میزان الادیان اور علامات وہابیہ قابل ذکر ہیں۔"
    ان میں حشمت علی بھی ہیں۔ یہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے' ان کے والد سید عین القضاۃ کے مریدوں میں سے تھے۔ یہ جناب بریلوی کے مدرسے منظر اسلام میں زیر تعلیم رہے۔ انہوں نے امجد علی صاحب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1340ھ میں فارغ ہوئے۔ اس طرح انہوں نے احمد رضا صاحب کے بیٹے سے بھی سند لی اور بعد میں جناب بریلوی کی تعلیمات پھیلانے میں مصروف ہوگئے۔ احمد رضا صاحب کے بیٹے نے انہیں "غیظ المنافقین" کے لقب سے نوازا۔1380ھ میں سرطان میں مبتلا ہوئے اور بیلی بھیت میں وفات پائی۔166
    ان کے قائدین میں سے احمد یار نعیمی بھی ہیں۔ یہ بدایون میں 1906ء میں پیدا ہوئے۔ پہلے دیوبندیوں کے مدرسے "المدرسۃ الاسلامیہ" میں پڑھتے رہے' پھر یہ نعیم مراد آبادی کے ہاں چلے گئے اور ان سے تعلیم مکمل کی۔ مختلف شہروں میں گھومنے پھرنے کے بعد گجرات میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور وہاں "جامعہ غوثیہ نعیمیہ" کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنی کتاب "جاء الحق" میں جناب بریلوی کے مذہب کی تائید اور متبعین کتاب و سنت کی مخالفت میں کافی زور لگایا ہے۔
    جناب احمد یار نے احمد رضا صاحب کے ترجمہ قرآن پر "نورالعرفان" کے نام سے حاشیہ بھی لکھا ہے جس میں اپنے پیشتر قائدین کی طرح بڑے شدومد سے قرآن کریم کی بہت سی آیات کی تاویل و معنوی تحریف سے کام لیا گیا ہے۔
    اسی طرح ان کی دو معروف کتابیں "رحمۃالالٰہ بوسیلۃ الاولیاء " اور "سلنطنۃ مصطفٰی" بھی ہے۔ ان کی وفات 1971ء میں ہوئی!167
    یہ تھے بریلوی مذہب کے زعماء جنہوں نے اس مذہب کے اصول اور ضوابط وضع کیے اور جناب بریلوی کے لگائے ہوئے پودے کو پروان چڑھایا۔
    اگلے باب میں ہم ان کے عقائد بیان کریں گے۔واللہ الموفق!
    حوالہ جات


    129وصایا شریف ص10 ترتیب حسنین رضا مطبوعہ ہند
    ۔130اعلیٰ حضرت بریلوی از بستوی ص 105۔
    131بستوی9 ، 10۔
    132بستوی ص 111۔
    133مقدمہ دوام العیش از مسعود احمد ص 18
    134ایضاً۔
    135انوار رضا ص 272‘ایضاً روحوں کی دنیا مقدمہ ص 22۔
    136بستوی ص 121‘ فتاویٰ رضویہ جلد 12 المقدمہ ص 13۔
    137وصایا شریف ص 19۔
    138وصایا شریف ص 24 ترتیب حسنین رضا
    ۔139ایضاً۔
    140شرح الحقوق مقدمہ ص 8
    141ایضاً 7۔
    142جی ہاں! احکام و مسائل کے نام پر قصے کہانیوں سے واقعی علماء کے کان آشنا نہیں!۔
    143بہار شریعت جلدا ص3۔
    144مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد 11 ص 4
    145مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد 5۔
    146مقدمہ فتاویٰ رضویہ ص210
    147ایضاً ص 263۔
    148 ایضاً۔
    149ایضاً ص303
    150سوانح اعلیٰ حضرت از بدرالدین ص 110‘و انوار رضا۔
    151روحوں کودنیاص 26۔
    152انوار رضا ص 65۔
    153حیات اعلیٰ حضرت از ظفرالدین بہاری ص 12۔‘ایضاً انوار رضا ص235
    154مدائح اعلیٰ حضرت از ایوب علی رضوی ص5۔
    155نفخۃ الروح از ایوب رضوی ص 47‘48۔
    156حدائق بخشش از بریلوی ص 7۔
    157انوار رضا ص 319و ایضاً حدائق بخشش۔
    158مقدمہ شرح الحقوق ص8۔
    159ایضاً ص 11‘حدائق بخششص 43۔
    160حدائق بخشش ص 5
    161انوار رضا ص 238۔
    162اس کتاب کا ردّ مراد آباد ہی کے اہل حدیث مشہور عالم دین مولانا عزیز الدین مراد آبادی مرحوم نے اپنی کتاب ۔اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان۔ میں کیا ہے۔اور نعیم الدین صاحب کے استدلالات کو باطل ثابت کیا ہے۔
    163ملاحظہ ہو ‘ تذکرہ علمائے اہل سنت اور حیات صدر الافاضل وغیرہ۔
    164حاشیہ الاستمداد ص 90‘91۔
    165ایضاً ص 94‘ تذکرہ علمائے ال سنت 83۔
    166تذکرہ علمائے اہل سنت از محمود بریلوی ص 82 مطبوعہ کانپور۔
    167تذکرہ اکابر اہل السنہ ص 58‘59 از اشرف قادری ‘ الیواقیت المھریہ ص 39‘ سیرۃ سالک از کوکب


  8. #56
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    Ahmad raza khan k baad aye ab Unn k OLaad k kartoot aap k samne pesh karte hen, mulahiza kijye....

    بریلوی عقائ
    د


    بریلوی حضرات کے چند امتیازی عقائد ہیں جو انہیں برصغیر میں موجود حنفی فرقوں سے بالعموم جدا کرتے ہیں۔ ان کے اکثر عقائد شیعہ حضرات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بریلویت تسنن سے زیادہ تشیع کے قریب ہے' البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کون کس سے متاثر ہے؟ ان کے عقائد کو بیان کرنے سے قبل ہم قارئین کے لیے دوباتوں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں:
    (1): وہ مخصوص عقائد جو بریلوی حضرات اختیار کیے ہوئے ہیں اور جن کا وہ برصغیر میں پرچار کررہے ہیں' وہ بعینہ ان خرافات و تقالید اور توہمات و افسانوی عقائد پر مشتمل ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف زمانوں کے صوفیاء ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست لوگوں میں منتشر اور رائج تھے۔۔۔۔جن کا شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں' بلکہ وہ یہود ونصاریٰ اور کفار و مشرکین کے ذریعے مسلمانوں میں منتقل ہوئے تھے۔ائمہ و مجتہدین اسلام ہر دور میں ان باطل عقائد کے خلاف صف آراء اور ان سے نبرد آزما رہے ہیں۔ اسی طرح ان میں بعض عقائد قبل از اسلام دور جاہلیت سے وابستہ ہیں' جن کی تردید قرآن مجید کی آیات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں موجود ہے۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگوں نے ان غیر اسلامی اور دور جاہلیت کے عقائد کو اسلام کے لوازمات اور بنیادی عقائد سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو باطل قرار دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔مثلاً غیراللہ سے استغاثہ و استعان' انبیاء اور رسول علیہم السلام کی بشریت سے انکار' علم غیب اور خدائی اختیارات میں انبیاء و اولیاء کو شریک کرنا' نیز دوسرے عقائد جن کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان خرافات و شطحات اور الف لیلوی افسانوں کو انہوں نے عقائد کا نام دے دیا ہے۔ اگرچہ یہ خرافات و بدعات' مشرکانہ رسوم و تقالید اورجاہلانہ افکار و عقائد جناب احمد رضا خاں بریلوی اور ان کے معاونین سے قبل بھی موجود تھے' مگر انہوں نے ان ساری باتوں کو منظم شکل دی اور قرآن وحدیث کی معنوی تحریف اور ضعیف و موضوع روایات کی مدد سے انہیں مدلل کرنے کی کوشش کی۔
    (2): دوسری بات جس کی ہم یہاں وضاحت کرنا چاہتے ہیں' وہ یہ ہے کہ اس باب میں ہم بریلویت کے انہی عقائد کا ذکر کریں گے جنہیں خود جناب احمد رضا خاں بریلوی اور ان کے مساعدین اور یا پھر اس گروہ کی معتمد شخصیات نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔ جہاں تک ان حضرات کا تعلق ہے' جو ان میں معتبر اور ثقہ نہیں سمجھے جاتے یا ان کی شخصیت متنازع فیہ ہے' تو باوجود ان کی کثرت تصانیف کے ہم ان سے کوئی چیز نقل نہیں کریں گے' تاکہ ہمارے موقف میں کسی قسم کا ضعف واقع نہ ہو۔


    غیر اللہ سے فریاد رسی



    بریلوی حضرات اسلام کے عطا کردہ تصور توحید کے برعکس غیر اللہ سے فریاد طلبی کو اپنے عقائد کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے:
    اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاجت روائی خلق کے لیے خاص فرمایا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے ان کے پاس اپنی حاجتیں لاتے ہیں۔‘‘ 1
    احمد رضا لکھتے ہیں:
    "اولیاء سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا اور ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع و شی مرغوب ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا دشمن انصاف!2
    مدد مانگنے کے لیے ضروری نہیں کہ صرف زندہ اولیاء کو ہی پکارا جائے' بلکہ ان حضرات کے نزدیک اس سلسلہ میں کوئی تمیز نہیں۔۔۔۔۔۔نبی و رسول' ولی و صالح' خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ' اسے مدد کے لیے پکارا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہی تمام اختیارات کے مالک' نظام کائنات کی تدبیر کرنے والے اور مشکلات و مصائب سے نجات دینے والے ہیں۔
    چنانچہ جناب بریلوی کہتے ہیں:
    "انبیاء و مرسلین علیہم السلام ' اولیاء 'علماء 'صالحین سے ان کے وصال کے بعد بھی استعانت و استمداد جائز ہے'
    اولیاء بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔3"
    دوسری جگہ لکھتے ہیں:
    "حضور ہی ہر مصیبت میں کام آتے ہیں' حضور علیہ السلام ہی بہتر عطا کرنے والے ہیں' عاجزی و تذلل کے ساتھ حضور کو ندا کرو' حضور ہی ہر بلا سے پناہ ہیں۔4"
    مزید لکھتے ہیں:
    "جبریل علیہ السلام حاجت روا ہیں' پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت روا' مشکل کشا' دافع البلاء ماننے میں کس کو تامل ہوسکتا ہے؟ وہ تو جبریل علیہ السلام کے بھی حاجت روا ہیں۔5"
    صرف حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں' بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان خدائی صفات کے حامل ہیں۔۔۔۔۔۔جناب بریلوی عربی اشعار سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔


    تجدہ عونا لّک فی النوائب
    بولایتک یا علی یا علی
    ناد علیّا مظھر العجائب
    کلّ ھمّ و غمّ سینجلی


    ترجمہ:


    "پکار علی مرتضی کو کہ مظہر عجائب ہیں تو انہیں مددگار پائے گا مصیبتوں میں' سب پریشانی و غم اب دور ہوجائیں گے' تیری ولایت سے یاعلی یاعلی!6


    شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ بھی انہی صفات کے ساتھ متصف ہیں۔ بریلوی حضرات کذب و افتراء سے کام لیتے ہوئے آپ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
    "جو کوئی رنج وغم میں مجھ سے مدد مانگے' اس کا رنج وغم دور ہوگا۔ اور جو سختی کے وقت میرا نام لے کر مجھے پکارے' تو وہ شدت رفع ہوگی۔ اور جو کسی حاجت میں رب کی طرف مجھے وسیلہ بنائے' اس کی حاجت پوری ہوگئی۔7"
    ان کے نزدیک قضائے حاجات کے لیے نماز غوثیہ بھی ہے جس کی ترکیب یہ ہے:
    "ہر رکعت میں 11 ‘'11بار سورت اخلاص پڑھے' 11 بار صلوٰۃ وسلام پڑھے' پھر بغداد کی طرف "جانب شمالی" 11قدم چلے' ہر قدم پر میرا نام لے کر اپنی حاجت عرض کرے اور یہ شعر پڑھے


    واظلم فی الدنیا وانت نصیری
    ایدرکنی ضیم وانت ذخیرتی

    " کیامجھے کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے' جب کہ آپ میرے لیے باعث حوصلہ ہوں؟ اور کیا مجھ پر دنیا میں ظلم ہوسکتا ہے جب کہ آپ میرے مددگار ہیں؟8"



  9. #57
    TooGooD is offline Member
    Last Online
    20th November 2009 @ 10:43 PM
    Join Date
    21 Sep 2009
    Posts
    321
    Threads
    18
    Credits
    0
    Thanked
    20

    Default

    ye jihad ki mukhalfat krne wale apne ap ko musalman aur baki sab ko dehshat gard kehte hian . khud farz ada nhi krte aur dosro ko kharji kehte hain inki baat kon sunay ga

  10. #58
    sudes_102 is offline Member
    Last Online
    2nd March 2018 @ 07:24 PM
    Join Date
    20 Jan 2009
    Gender
    Male
    Posts
    990
    Threads
    77
    Credits
    0
    Thanked
    61

    Default

    Bilkul sahi kahaa ye Razakhani Tolla Shirk, Bidat Oor Gumrahi Ka Majmoa Hy, Rahi Baat Jihaad ki tu ye en k bas ki baat hi nahi Jihad k Liye ghar-baar, biwi bache sab kuch chorrna parrta hy Jo Iss halwa Khor Firqe k bas ki baat nahi.....

  11. #59
    kashif_iqbal's Avatar
    kashif_iqbal is offline Senior Member+
    Last Online
    6th July 2010 @ 10:00 AM
    Join Date
    22 Sep 2009
    Age
    42
    Posts
    106
    Threads
    0
    Credits
    980
    Thanked
    16

    Default

    Quote Shaukat Hayat said: View Post
    الحمد اللہ اہلحدیث کی اوقات تو اُسی دن سے سورج سے بھی ذیادہ روشن اور منوّر ہو چکی ہے۔ جب سے حضرت جبرئیل علیہ سلام غارحرا میں پہلی حدیث لیکر حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اُسی پہلی حدیث پر ایمان لانے والے دن سے اہلحدیث کی اوقات کا وہ سورج الحمد اللہ طلوع ہوا جس کوکبھی زوال نہ آ سکے گا۔ نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ ہماری پہچان حدیث سے رشتہ اور تعلق ہے اور آپ کا اپنے خود ساختہ غیر نبی امام سے اور تعجب ہے کہ اہلحدیث کورسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان زیشان سےنسبت اور تعلق پر آپ طعنہ دیتے ہیں اور خود قرآن مجید کے حکم اطیعواللہ و الرسول سے رشتہ توڑ کر غیروں سے ناطہ جوڑنے پر خوش ہیں اور اتراتے ہیں۔ اللہ تعالٰی سب کو ھدایت اورعقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین۔
    Quote Shaukat Hayat said: View Post
    معصوم صاحب آپ بھی کمال کے معصوم ہیں۔ اور جتنی بھی باتیں لکھیں کسی میں بھی صحیح حدیث پیش نہ کر سکے۔ سب مختلف کتابوں سے جو حدیث کی کتابیں ھرگز نہیں ہیں۔ آپ نے امام ابن تیمیہ کو اہلحدیث کا امام بنایا۔ مگر بھائی آپ نے یہ تو سوچا بھی نہیں کہ کہیں آپ کا کہا خود آپ کے گلے نہ پڑ جائے۔ جی ہاں بات سوچ کر کرنی چاہیے۔ میرے بھائی امام الانبیاءحضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان زیشان "قرآن وحدیث" پر دل و جان سے ایمان وعمل کی نسبت سے ہم اہلحدیث ہیں۔ کسی امام ابن تیمیہ وغیرہ کی وجہ سے نہیں۔ آپ نے امام ابن تیمیہ کو اہلحدیث کا امام بنایا تو پھرکان، دل اور دماغ کھول کرسُن لیں میں اس خود ساختہ امام کا دل و جان سے انکار کرتا ہوں اورایک بار نہیں ہزار بار انکار کرتا ہوں اور ہر اُس امام کا بھی انکار کرتا ہوںجو لوگوں کے خودساختہ ہیں اورجن کو اللہ تعالٰی نے مقررنہیں کیا ہے۔ اب آپ اپنی بات پر آئیں کہ جسمیں آپ نے امام ابن تیمیہ کو اہلحدیث کا امام بنایا اور ایک اہلحدیث سے اُس کا انکار بھی پڑھ لیا۔ اب آپ بھی اپنے امام کا جو خود ساختہ ہے کا اسی طرح انکار کر کے دکھائیں۔ جی ہاں یہ فرق ہے اہلحدیث کا اور فرقے میں پھنسے مقلد انسان کا۔
    بہت خوب شوکت بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین

    یقینا کامیابی اطیعواللہ والرسول میں ہے اللہ عمل کی توفیق عطافرمائے خالص اللہ کے لئے آمین

    ہم تمام بزرگوں کا احترام کرتے ہیں جن کی دعوت توحید قرآن و سنت تھی اور ہے لیکن جب بات آتی ہے تقلید کی تو وہ صرف اور صرف امام الانبیاءحضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوگی جس کا حکم اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن پاک میں دیا اور جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عمل کیا اللہ ہم پر اپنی رحمت فرمائے اور ہمیں دین پر خالص اللہ کے لئے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

  12. #60
    Join Date
    17 May 2009
    Location
    ***************
    Gender
    Female
    Posts
    464
    Threads
    38
    Thanked
    111

    Default

    bhai ap wo net se le kar yaha post kare hum b dekhe kya kuch likha ha us me.

Page 5 of 6 FirstFirst ... 23456 LastLast

Similar Threads

  1. Shirk-o-Bidat ki Haqiqat..only for ISLAH....
    By ata_aqr in forum Sunnat aur Hadees
    Replies: 22
    Last Post: 31st December 2010, 07:16 PM
  2. Replies: 30
    Last Post: 19th March 2010, 02:46 PM
  3. Kaya Hum Shirk Kartey Hein? / Are we making SHIRK?
    By Mohammed Ishaq in forum Islam
    Replies: 17
    Last Post: 1st February 2010, 11:08 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •