کیری لوگر بل کی متنازعہ شرائط
امریکی سینیٹر کیری اور سینیٹر لوگر جنہوں نے یہ بل ایوان سے پاس کروایا
پاکستانی فوج کیری لوگر بل پر معترض ہے۔ آج کل پاکستان میں ہر طرف کیری لوگر بل کا چرچا ہے اور جہاں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس بل پر تنقید کی گئی ہے وہیں پاکستانی فوج نے بھی اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس بل میں ایسا کیا ہے کہ جس نے پاکستان کے سیاسی منظر میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہاں پر امریکی سینیٹروں جان کیری اور رچرڈ لوگر کے پیش کردہ بل کی وہ شرائط پیش کی جا رہی ہیں جنہیں حزبِ اختلاف کے رہنما ملک کی سلامتی کا سودا قرار دے رہے ہیں۔ اس بل میں پاکستان کو دی جانے والی ترقیاتی امداد پر تو کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے تاہم فوجی امداد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ امداد اسی صورت میں دی جائے گی جب امریکی وزیرِ خارجہ کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں کو مندرجہ ذیل امور کے بارے میں سرٹیفیکیٹ دے گا۔
٭ یہ کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے متعلقہ سامان فراہم کرنے والے نیٹ ورکس کو ختم کرنے میں تعاون کر رہا ہے اور متعلقہ معلومات یا پھر ایسے نیٹ ورکس سے جڑے پاکستانی شہریوں تک براہِ راست رسائی دے رہا ہے۔
٭ یہ کہ پاکستانی حکومت شدت پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے مستقل کوشش کر رہی ہے اور اس نے اپنی خفیہ ایجنسی اور فوج میں ایسے عناصر خصوصاً افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج اور ہمسایہ ممالک یا ان کے شہریوں پر حملے کرنے والے عناصر کی حمایت پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
٭ یہ کہ پاکستان القاعدہ اور گزشتہ برس نومبر میں ممبئی حملوں کی ملزم لشکرِ طیبہ سمیت دیگر شدت پسند گروہوں کو پاکستان میں کام کرنے اور ہمسایہ ممالک پر حملہ کرنے سے روک رہا ہے۔
٭ یہ کہ پاکستان اپنے شمال مغربی علاقے، کوئٹہ اور پنجاب میں مریدکے جہاں لشکرِ طیبہ کے حامیوں کا کمپلیکس ہے، میں دہشتگردوں کے مراکز کو تباہ کر رہا ہے۔
٭ یہ کہ پاکستانی فوج سیاسی اور عدالتی عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں کر رہی۔
ان شرائط کے علاوہ بل میں امریکی وزیرِ خارجہ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ بھی پیش کرے کہ کس حد تک پاکستان کی حکومت کا فوج پر سویلین کنٹرول ہے۔ اس جائزے میں یہ بھی بتایا جائے کہ فوجی بجٹ کی منظوری، چیف آف کمانڈ اور اعلٰی فوجی افسران کی ترقیوں میں سیاسی رہنماؤں اور پارلیمان کا عمل دخل کس حد تک ہے۔
Bookmarks