کیا خوب آج ھم سے، کیوں ھاتھ ملا رھے ھو
کل تک تو تھے ناراض، یہ کیا گل کھلا رھے ھو

پوچھا نہیں ھمیں کبھی، دعوتیں* اڑا رھے تھے
کبھی ان کو پانی تو، کبھی ہمیں پلا رھے ھو

محبوب کی طرح تم بھی، نظریں بدل لیتے ھو
یہ بیٹھے بٹھائے کیوں، اپنا ھی دل جلا رھے ھو

پردے میں وہ بیٹھے ھیں، خاموش نظریں کئے
کیوں ایسے چوری چوری، آنکھیں ملا رھے ھو

پہلے تو انکار پر انکار ھمیں، کئے چلے جاتے تھے
دور وہاں تخت پر بیٹھے، کیا گردن ھلا رھے ھو

اپنے دستور کو بھلا کر پھر، واپسی کا ارادہ ھے
کوٹ کو چھوڑ کر کیوں، شیروانی سلا رھے ھو

کیوں ھمیں چھوڑ گئے، تڑپتا اس منجھدار میں
واپسی کے لئے دوبارہ، اب کیسے تلملا رھے ھو

رنگت جو روشن کبھی، آج کچھ ماند لگتی ھے
ارمان سے کس بات کا، کیسا یقین دلا رھے ھو

کیا ھوا تیرا وعدہ، وہ قسم وہ ارادہ
بھولے گا دل جس دن تمھیں
زندگی کا آخری دن ھوگا