کچھ عرصہ سے انٹرنیٹ پر سیاسی مہم بازی و سرگرمیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ اس رجحان کی ایک وجہ تو سیاسی حلقوں میں نوجوانوں اور نئی نسل کو اپنے نظریات کی جانب مائل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کی افادیت کا احساس ہے۔
دوسری اہم وجہ سوشل نیٹورکنگ، وکیز، انٹرنیٹ وڈیو، ویب سائٹس اور بلاگز جیسے دیگر مواصلاتی ذرائع پر مشتمل ویب ٹو پائنٹ او( یعنی ویب دوم جسے انٹرنیٹ کے دوسرے جنم سے تشبیہ بھی دی جاتی ہے ) کے وساطت سے انٹرنیٹ صارفین کے درمیان تبادلۂ خیال اور معلوماتی اشتراک کی آسانی اور فروغ ہے۔
اب تک انٹرنیٹ کی تاریخ میں انتخابی مہم میں ٹیکنا لوجی اور انٹرنیٹ وسائل کی موثر استعمال کی سب سے بڑی مثال حالیہ امریکی الیکشن ہیں۔ براک اوباما کی 2008 انتخابی مہم میں روایتی ذرائع کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر مائی براک اوباما ڈاٹ کام ویب سائٹ سمیت موبائل ایس ایم ایس اور دیگر آن لائن نیٹ ورکس پر نیوڈ فیڈز، تصاویر، ویڈیو اور تحریروں کے ذریعہ نہ صرف سیاسی منشہور کا پرچار اور عوام سےحمایت حاصل کی گئی بلکہ لوگوں کو ریلیوں کے لیے منظم اور سیاسی مہم کے لیے مالی عطیات جمع کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔
انتخابات کے اختتام کے بعد بھی ٹیکنالوجی کا کردار ختم نہیں ہوا بلکہ دیگر سرکاری ویب سائٹس جن میں وائٹ ہاؤس بلاگ وغیرہ شامل ہیں قائم کی گئی ہیں جہاں امریکی عوام صدر کی مصروفیات سے اپ ڈیٹ رہ سکیں اور حکومت کو اپنے مشورے اور تجاویز آن لائن پیش بھی کر سکیں۔
انٹرنیٹ سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی اور انہیں بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ بدقسمتی سے انٹرنیٹ کی پہنچ ایک محدود طبقہ تک ہی ہے
جمال عاشقین
امریکہ کی انتخابی مہم کی آن لائن کامیابی سے متاثر ہوکر اب بھارت میں بھی آئندہ ہو نے وانے انتخابات کے لیے انٹرنیٹ کو بروئےکار لایا جا رہا ہے۔ اس آن لائن مہم جوئی میں فی الحال بڑی سیاسی پارٹیوں اور امیدواررں کا کوئی واضح کردار نظر نہیں بلکہ نجی سطح پر عوام حصوصﴽ پڑھے لکھے متوسط طبقہ میں الیکشن کا شعور اور ووٹ کی اہمیت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
اورکٹ، فیسبک اور یوٹیوب جیسے سوشل نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ ووٹ انڈیا اور جاگو رے ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹس اس مہم کا حصہ ہیں جس کا مقصد بھارت کے آٹھ بڑے شہروں میں مقیم ملک کے ساٹھ فیصد انٹرنیٹ صارفین کی انتخابات کی جانب توجہ مبزول کروانہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت میں 714 ملین ووٹر موجود ہیں جن میں سے 170 ملین ووٹروں کی عمر پینتیس سال سے کم ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت کا پڑھا لکھا طبقہ بھی گو حکومت اور سیاستدانوں پر تنقید توضرور کرتا ہے پر ووٹنگ اور حکومت سازی سے دور رہتا ہے۔ بھارتی انتخابات میں دیہی اور نچلہ طبقہ کی شمولیت سب سے زیادہ رہی ہے۔
پاکستان میں بھی گو تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور حکومتی اداروں کی ویب سائٹیں بھی موجود ہیں پر جس طرح پاکستان کے سیاسی میدان میں ہلچل اور گہما گہمی رہتی ہے اس کے مقابلہ میں ملکی سیاست ميں ویب میڈیا اور ٹیکنالوجی کا کردار کم ہے۔
پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستانی نیٹ صارفین سیاسی اور غیر سیاسی مہم جوئی کے لیے انٹرنیٹ کے استعمال سے انجان ہیں۔
جمال عاشقین سماجی حقوق کے مہم جو اور بلاگر ہیں۔ وار اگینسٹ ریپ، کوڈ پینک وغیرہ جیسے خواتین اور دیگرمعاشرتی حقوق کی تحفظ کے لیے کام کرنے والی مقامی اور بین الاقومی تنظیموں کے آن لائن گروپس کے ممبر اور کراچی میٹرو بلاگ کے سٹی کیپٹن ہیں۔ جمال کے خیال میں ’انٹرنیٹ سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی اور انہیں بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں مدد دیتا ہے۔ بدقسمتی سے انٹرنیٹ کی پہنچ ایک محدود طبقہ تک ہی ہے اس لیے دوسرے ذرائع ابلاغ کی مدد لینی بھی ضروری ہوتی ہے۔ پاکستانی سائبر سپیس میں معاشرتی اور سیاسی مہم جوئی میں بلاگز اور سوشل نیٹ ورکز پر آن لائن گروپس کا کردار نمایاں ہے تاہم ٹیکنالوجی کو آن لائن ایکٹوزم کے لیے پوری طرح بروئےکار نہیں لایا جارہا۔‘
کچھ اس ہی قسم کی رائے سیاسی امور میں دلچسپی میں رکھنے والے بلاگر وقاص حسن شریف کے بھی ہیں۔ وقاص کے مطابق ’پاکستان میں آن لائن ایکٹوزم خاص نتائج مرتب کرنے سے قاصر ہے جس کی وجہ ناخواندگی، انٹرنیٹ کی محدود ترسیل اور لوگوں کی عدم دلچسپی ہے۔ پاکستانی سیاسی بلاگز اور ان کے قارئین کی کمی نہیں پر جوافراد سیاسی محرکات کے بنا پر انٹرنیٹ پر اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں، وہ کوئی مثبت اقدامات لینے کے بجائے دوسروں پر اپنی رائے تھوپنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہر شخص کو یہ ہی لگتا ہے کہ صرف وہ درست ہے اورویسے بھی ہما رے ہاں ایک دوسرے کی برداشت کا فقدان ہے‘۔
Bookmarks