Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 18

Thread: Kuch Ladies Poets k bare Main

  1. #1
    Confuse's Avatar
    Confuse is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd May 2015 @ 03:53 PM
    Join Date
    17 Jan 2009
    Location
    Khamosh NaGaR
    Gender
    Male
    Posts
    8,124
    Threads
    778
    Credits
    0
    Thanked
    785

    Default Kuch Ladies Poets k bare Main



    پروین شاکر منفرد لہجے کی شاعرہ


    پروین شاکر اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ تھیں۔ پروین شاکر استاد اور سرکاری ملازم بھی رہیں۔
    پروین شاکر چوبیس نومبر 1952ء میں کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ انگلش لٹریچر اور زبانی دانی میں گریجوایشن کیا۔
    آپ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم
    ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔
    1990میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میںہاورڈ یونیورسٹی
    سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ایک ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ جس
    سے بعد میں طلاق لے لی۔ 26دسمبر 1994 کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں ، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔


    میں پھرخاک کو خاک پر چھوڑ آئی
    رضائے الہی کی تکمیل کر دی



    ٢٦دسمبر ١٩٩٤ وہ دن تھا جس دن پروین شاکر نے رضائے الہی کی تکمیل کی اور اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔پروین شاکر کی شاعری کا بنیادی وصف جراءتِ اظہار تھا اور ان کے شعروں میں ایک خاص طرح کا اعتماد نمایاں ہے۔ممتاز مفتی نے پروین شاکر کی شخصیت اور شاعری کو نہایت باریک بینی سے دیکھا پرکھا اور انکے متعلق نہایت منصفانہ رنگ میں ایک جگہ یوں لکھا ہے کہ۔۔ًپروین کی شخصیت کے تین پرت ہیں۔پہلا پرت دیکھو تو لطافت ہے لے ہے معصومیت ہے ۔دوسرا پرت ذہنی پختگی اور مردانہ جراءت۔۔تیسرا پرت پیش منظر نہیں پس منظر ہے۔دکھ کی ایک بے نام بھیگ جو ساری شخصیت میں لہریں لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔پروین شاکر کی پر نم شخصیت کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دکھ کے پانیوں میں گھرا ایک سر سبز جزیرہ۔۔ًہو لین اسکی آنکھ میں اک ایسی نگاہ بھی ہے جو چلتی آندھی کو باندھ سکتی ہے دریا کا رخ موڑ سکتی ہے۔پروین کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ بہت نوازی گئی ہے اور جو نوازے جاتے ہیں ان پر اکلاپا مسلط کر دیا جاتا ہے۔ذاتی خوشی چھین لی جاتی ہے۔دکھ درد کی ایسی سرنیاں لگا دی جاتی ہیں کہ وہ ہر لحظہ چھن چھن کرتی رہیں۔۔۔ً
    پروین کی شاعری اور شخصٰیت دونوں پر تنقید بھی بہت ہوئی۔۔لیکن اگر بنا کسی جانبداری اور تّعصب کے کھلے دل اور زہن سے انکی شاعری کا مطالہ کیا جائے تو اس میں بہت کچھ بلکہ سب کچھ ہے۔۔۔۔پروین شاکر جہان زندگی رنگ اور خوشبو سے اپنی تمام تر سچائوں کے ساتھ محبت کرتی رہی۔۔وہیں اسےاپنی موت کا بھی یقین تھا اور بہت پختہ یقین۔
    ساتھ تو میرا زمیں دیتی مگر
    آسماں ہی کا اشارہ اور ہے

    قضا نے میرے نام کی لوح بھر دی
    میری جان تونے بہت دیر کر دی

    تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
    اور تیری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے




    --------------------------------------------------------------------------------

    کشور ناہید....شخصیت او ر شاعری پر ایک نظر


    کشور ناہید پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ شاعرہ ہیں ۔ مگر کشور نا ہید کو اپنی جدید نظموں کیوجہ سے ہم عصر شاعروں میں ممتاز درجہ حاصل ہے ۔ وہ ہمارے عہد کی منفرد آواز ہیں ۔
    کشور ناہید ۱۸ جون ۱۹۴۰ کو بلند شہر (ہندوستان ) کے ایک متوسط مسلم قدامت پسند سید گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔
    کشو ر ناہید کے والد نے چار عقد کےے، کشور کی والدہ کی چوتھی بیوی تھیں ، ناہید اپنے عمات بہن بھائیوں میں پانچویں تھیں ۔ ماں باپ نے ان کو کشور جہاں رکھا تھا مگر پیار سے سب ان کو چھٹو کہتے تھے ۔نویں کلاس تک ان کا یہی نام چلادسویں درجے میں اہوں نے اپنا نام بدل کر کشور ناہید رکھ لیا۔ ۔
    کشور ناہید کو بچپن ہی سے اپنے گھر کے سب کام کاج کرنے پڑتے تھے ۔چنانچہ صبح اٹھ کر ہر دوسرے تیسرے دن انہیں کر چھے میں پڑوس کے کسی مکان سے آگ لانی پڑتی تھی جس سے ان کے گھر کا چولہاجلتا تھا۔سپارے پڑھنے کے بعد انہیں صبح کا ناشتہ ملتا اور ناشتے میںر ات کی بچی ہوئی باسی روٹیاں ، چائے یاپھر دہی ہوتا تھا۔ ان کی اماں ان سے روزانہ مسالہ بھی پسواتی تھیں ۔ جس سے ان کو تکلیف ہوتی۔ اسی زمانے میں کشور ناہیدکو اپنے بھائیوں کے ساتھ شام کو راشن کی دکان پر جانا پڑتا تھا جہاں انہیں لائن میں کھڑے ہوکے ایک بوتل مٹی کا تیل ملتا تھا ۔ ۔ کشور ناہید بچپن سے بہت ذہین تھیں ، پڑھائی میں بھی بہت تیز تھیں اس لئے ان کی والدہ نے انہیں محلے کی ایک بی بی کے پاس قرآن ختم کرنے کے لئے بٹھا دیا تھا ، وہ بی بی روز انہ اپنے گھر کے برتن منجوا کے جھاڑو دلوا تیں اور آٹا گندھواتی تھیں۔ اسی زمانے سے انہوں نے بر قع بھی اوڑھناشروع کردیاتھا جس کا سلسلہ لاہور میں کالج کی پڑھائی تک چلتا رہا ۔
    کشور ناہید کی ابتدائی تعلیم بلند شہر کے ایک مشن اسکول میں ہوئی جہاں وہ اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے ساتھ برقعوں اوڑھ کے جاتی تھیں وہاں سے انہوں نے چھٹی کلاس پاس کی تھیں ۔لاہور جانے کے بعد پھر پڑھائی شروع کی اور میٹرک (ہائی اسکول )اول درجے سے پاس کیا۔
    پاکستان جانے کے بعدکشور ناہیدکے گھروں کو سخت پریشانیوں کا سامناکرنا پڑا ۔ مگر کشور ناہید نے بڑی محنت اورلگن سے لالٹین کی روشنی میں تعلیم مکمل کی ۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اس زمانے میں اکنامکس (معاشیات) میں ایم اے پاس کیاجب کہ مسلمان لڑکیاں اس مشکل سبجکٹ میں ایم اے کرنے کی ہمت نہیں کرتی تھیں۔
    کشورناہیدکا حافظ بہت اچھا ہے ۔ انہیں اساتذہ کے سیکڑوں اشعار زبانی یاد تھے ۔ کالج میں داخلہ لینے کے بعد ہی انہو ں نے کالج کے مباحثوں مذاکروں اور مشاعروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا تھا ۔ انعامات اور کپ ڈھیروں اکٹھا کر لےے تھے ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ان شنا سائی شاعروں سے ہونے لگی تھی ۔ وہ کبھی کبھی حلقہ ارباب کے جلسوں میں بھی شریک ہوتی تھیں ۔ شہرت بخاری اور صوفی تبسم سے ان ہی جلسوں میں ملاقات ہوئی ۔ اسی طرح ان کا ادبی سفر شروع ہوا اور بہت جلد ایک کا میاب شاعرہ کی حیثیت سے مشہور ہو گئیں ۔
    کشور ناہیدکی زندگی کا سب سے اہم واقعہ ان کی شادی تھی ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ اپنے دوست یوسف کامران سے والہانہ محبت کرتی تھی۔ دونوں نے ایک ہی ساتھ زندگی گزارنے کے عہد وپیمان کئے تے ۔ ناہید کی ماں سخت گیر تھیں اور اس رشتے کے سخت خلا ف تھیں ۔
    وہ بیٹی کی شادی کسی دوسری جگہ کرنا چاہتی تھیں ۔ مگر اس کے ناہید کسی طرح راضی نہیں ہوئیں اور وہ ماں سے ٹکرا گئیں نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن ان کی اماں
    نے ان دونوں پکی شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا اور چند گھنٹوں کے اندرمولوی بلا کے جبراً پانچ سومہر اور آدھ سیر لڈو پرنکاح پڑھوا کر انہیں گھر سے رخصت کردیا ۔ ناہید آنسو بہاتی ہوئی اپنے شوہر کے ہمراہ بجائے ڈولی کے ایک تا نگہ پرروانہ ہوئیں ۔ ان کے ساتھ ایک بوری میں کتابیں اور دوسری بوری میں ڈھیر سارے کپ تھے ، اور برتن پر صرف ایک جوڑا کپڑا ، یہ واقعہ کشور ناہید کے لئے ہمیشہ سوہان روح بناع رہا۔کیوںکہ ہر لڑکی کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ شادی کا سرخ جوڑا زیب تن کر ے ، اس کا ابٹن ملا جائے، ہاتھوں میںمہندی رچے ، سہیلیاں گیت گائیں ، ڈھولک بجے مگر ناہید کے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور وہ چپ چاپ بابل کے گھر سے رخصت ہوگئیں ۔ اس وقت ایک ماں نے نہ تواپنی بیٹی کوگلے سے لگایا، نہ اسے دعائیں دیں ۔ چنانچہ ا سکرب کو کشور ناہید نے یوں ظاہر کیا ہے ۔ اس میں رشتوں کی نا پائیدای کو نہایت پر اثر انداز میں بیان کیاہے ۔
    میں دلہن ایسی بنی ، لیکن
    کہ مہندی نہ افشاں
    اور نہ ابٹن کا خمار
    آنکھ میں کاجل کی تحریریں بھی
    اپنوں سے جدائی کے غموں میں دھل گئیں
    رہ گئی اس قرب کی خوشبو کہ جس کے نا م پر
    خون کے رشتوں کو بھی
    اور پھر خوشبو سے رشتہ تا بکے
    خواب کی مانند جینا تا بکے



    یوسف کامران سے کشور ناہید کے دو بیٹے ہیں ۔ بڑے بیٹے کو وہ پیار سے میزو اور چھوٹے کو فچو کہتی ہیں۔ یوسف کامران بھی شاعر تھے اور نثری نظمیں کہتے تھے ۔ سعودی عربیہ میں ملازم تھے ۔ وہیں ۱۹۸۴ءمیں اچانک ان پر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ ناہید نے ان کی جدائی پریوں اظہار غم کیاہے ۔
    کچھ دن توملا ل اس کا حق تھا
    بچھڑا توخیال اس کا ُحق تھا
    اجلا تھا چمیلیوں کے جیسا
    یوسف سا جما ل اس کا حق تھا


    کشور ناہید نے شاعری کی ابتدا ءغزل سے کی ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ (لب گویا) ۱۹۶۹میں چھپ کر منظر عام پر آیااور ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا ۔ ا س میں پہلی بار ہمیں عورت کی آواز صاف سنائی دیتی ہے ۔ لب گویاع میں کشور ناہید کا پر خلوص رومانی انداز بیان سب کو اپنی طرف متو جہ کرتا ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے
    کچھ یونہی زرد زرد سی ناہید آج تھی
    کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کھلتا ہوا نہ تھا
    گھر کے دھندے کہ نپٹے ہپی نہیں ناہید
    میں نکلنا بھی اگر شام شام کو گھر سے چاہوں
    کبھی تو آمری آنکھوں کی روشنی بن کر
    زمین خشک کو سیراب کر نمی ب ن کر
    دیکھ کرجس شخص کو ہنسنا بہت
    سر کو اس کے سامنے ڈھکنابہت
    جس کے آنکھوں میں نہ جھانکا جائے گا
    اس کی ہی تحریر کو پڑھنا بہت
    تو اشک ہی بن کر مری آنکھوں میں سما جا
    میں آئینوں دیکھوں تو ترا علس ہی دیکھوں
    پھول سا جسم دہکنے لگاشعلے کی طرح
    دل کی تری یاد کو بھی وصل کا ساماں سمجھا
    جس نام سے تونے مجھے بچپن میں پکارا
    اک عمر گزر جانے پہ بھی نام نہ بھولوں
    میرے اندر کی تنہائی میری ذات کا دہراپن
    دیمک بن کر چاٹ رہا ہے سب ذاتوں کا ایک ہی رنگ
    برف کے مانند جینا عمر بھر
    ریت کی صورت مگر تپنا بہت
    ستم شناس ہوں لیکن زباں بریدہ ہوں
    میں اپنی پیاس کی تصویر بن کے زندہ ہوں
    شہر میں دیواریں تھیں اور دیواروں میں وہ تنہا تھا
    خبر نہیں وہ شخص تھا کیسا ، چہرہ اس کا چہرہ تھا
    موجہ ریگ رواں ہے زیر آب
    اپنی ہستی دیکھ کر بڑھنا بہت
    ہے سر شام ماہتاب اداس
    کوئی لڑکی کہیں اکیلی ہے
    ہماری عمر کہ ہے بیل عشق پیچاں کی
    ڈھلک پڑے گی اگر کوئی آسرانہ ملا
    پھیلی ہے شطح ذہن پہ ہلکی سی چاندنی
    لپٹے ہیں تیری یاد سے ہم مدتوں کے بعد
    غزلوں میں کشور ناہید کے انداز اور لب ولہجہ میںکلا سیکی رچاو ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے پرانے شعرا کا مطالعہ سنجیدگی سے کیاہے ۔ انھوں نے مشکل زمینوں اور قوانی میں غزلیں کہی میںمگر اپنی زرخیز فکر اور تجربے سے انہیں نیا اور تازہ لب و لہجہ اورنیا رنگ و آہنگ بخشا ہے ، ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ہے اور کچھ ان کے پسندیدہ الفا ظ ہیں۔ جنہیں وہ مختلف طریقوں سے خاص معنی میںاستعمال کرتی ہیں ۔ ان کے پسندیدہ الفاظ حقیقت ۔آئینہ، جنگل ، دشت، صدا ،خزاں ، تنہائی ریت ، سمندر، زہر ،خواب ، بغاوت ،خوشبو ، رشتہ ،خواہش آسمان اور یہ فہرست بہت طویل ہے ۔ یہ الفاظ انھوں نے علامتوں کے طور پر استعمال کیے ہیں ، جگہ جگہ انھوں نے واقعہ کر بلا کر علامتوں سے صداقت کے اظہار میں روشنی حاصل کی ہے
    ڈھونڈے سے اس کے نقش الجھتے ہیں اور بھی
    حالت تمام کرب وبلا کی تھی ان دنوں
    دشت بے محبت میں تشنہ لب یہ کہتے ہیں
    سارے شہسواروں میں کون اب کے سر دے گا
    باد بے جہت اب کے سارے گھر اجاڑ گئی
    کن کے سر قلم ہوں گے کون نقد سر دے گا

  2. #2
    Confuse's Avatar
    Confuse is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd May 2015 @ 03:53 PM
    Join Date
    17 Jan 2009
    Location
    Khamosh NaGaR
    Gender
    Male
    Posts
    8,124
    Threads
    778
    Credits
    0
    Thanked
    785

    Default continue


    ادا جعفری


    سوانح
    ادا جعفری 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کا خاندانی نام عزیز جہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولی بدرالحسن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی ۔وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اس وقت ادبی رسالوں میں ان کا کلام شائع ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ آپ کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگیں۔ ادا جعفری عموماً اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہی ۔ ان کے شعری مجموعہ شہر درد کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ ملا۔ شاعری کے بہت سے مجموعہ جات کے علاوہ ’’جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا۔ آج کل کراچی میں رہائش پذیر ہیں ۔
    شاعری


    ادا جعفری موجودہ دور کی وہ شاعرہ ہیں جن کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔ وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں ۔ گاہے گاہے یا بطرز تفریح طبع نہیں بلکہ تواتر و کمال احتیاط کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ اور جو کچھ کہہ رہی ہیں شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہہ رہی ہیں۔ حرف و صورت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ فکرو جذبے کے اس ارتعاش کے ساتھ کہہ رہی ہیں جس کی بدولت آج سے تیس چالیس سال پہلے ان کا شعر پہچان لیا جاتا تھا۔
    ماحول


    ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔ اس وقت دوسری جنگ عظیم کی بھونچالی فضا اور پاک و ہند کی تحریک آزادی کا پر آشوب ماحول تھا۔ یہ فضا بیسویں صدی کی پانچویں دہائی یعنی 1940ء اور 1950ء کے درمیانی عرصے سے خاص تعلق رکھتی ہے۔ یہ دہائی سیاسی اور سماجی اور شعری و ادبی ، ہر لحاظ سے پر شعور و ہنگامہ خیز دہائی تھی۔ تاج برطانیہ ہندوستان سے اپنا بستر بوریا سمیٹ رہا تھا اور نئی بساط سیاست بچھ رہی تھی۔ پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو آزاد مملکتیں وجود میں آئیں۔
    نور کی تلاش


    1950ء تک زندگی کے شب کدے میں ادا جعفری کو جس نور کی تلاش تھی وہ اسے مل گیا ہے اور اس نور نے ان کی بساط جسم و جاں پر بہت خوشگوار اثر ڈالا ہے۔ خواب و خیال کی دھندلی راہوں میں امید کی چاندنی چٹکا دی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے دوپہر کی کڑی دھوپ میں چلنے والے تھکے ماندے مسافر کو دیوار کا سایہ میسر آگیا ہے۔ اس دیوار کے سائے میں ادا جعفری کی زندگی میں بہت نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ داخلی دنیا کے ہنگاموں میں قدرے ٹھہراؤ آیا ہے اور خارجی دنیا پر تازہ امنگوں کے ساتھ جرات مندانہ نگاہ ڈالنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔
    اب ان کے لیے زندگی کی کوئی خوشی یا کوئی غم محض ذاتی یا محض کائناتی نہیں رہا بلکہ دونوں ایک دوسرے میں اس طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ یوں کہنا چاہیے کہ ذات و کائنات میں وہ دوئی جس نے 1950ء سے کچھ پہلے تک ان کے دروں خانہ جاں میں تضاد و تصادم کی ایک کرب آلودہ فضا پیدا کر رکھی تھی اب وہ باقی نہیں رہی ۔ پہلے ان کی نظر ماضٰ اور حال پر مرکوز تھی ، اب ان سے آگے بڑھ کر مستقبل کو خوش آئند بنانے اور نژاد نو کو زندگی کی تازہ بشاتوں سے ہمکنار کرنے کی جستجو میں ہے ،وہ خود کہتی ہیں۔
    میری آغوش میں ہمکتا ہوا چاند ، فردا کے خوابوں کی تعبیر ہے
    یہ نئی نسل کے حوصلوں کا امین آنے والے زمانے کی تقدیر ہے

  3. #3
    M-Qasim's Avatar
    M-Qasim is offline Advance Member+
    Last Online
    7th September 2022 @ 07:41 PM
    Join Date
    22 Mar 2009
    Gender
    Male
    Posts
    33,351
    Threads
    915
    Credits
    1,718
    Thanked
    3391

    Default


    SUPERB SHARING

    Thanks Muzaffar Bhai for Sharing
    Keep Going





  4. #4
    Najaf Ali is offline Member
    Last Online
    31st May 2017 @ 12:20 PM
    Join Date
    06 Oct 2009
    Location
    Karachi Pakistan
    Posts
    1,563
    Threads
    64
    Thanked
    56

    Default

    Bohut khoob,nice 1 sharing,thank you janab

  5. #5
    ^NajanyQ^'s Avatar
    ^NajanyQ^ is offline Advance Member
    Last Online
    5th January 2021 @ 10:37 AM
    Join Date
    23 Mar 2009
    Location
    ھزارہ
    Age
    32
    Gender
    Male
    Posts
    13,306
    Threads
    439
    Credits
    995
    Thanked
    701

    Default

    great sharing brother!!!

  6. #6
    Confuse's Avatar
    Confuse is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd May 2015 @ 03:53 PM
    Join Date
    17 Jan 2009
    Location
    Khamosh NaGaR
    Gender
    Male
    Posts
    8,124
    Threads
    778
    Credits
    0
    Thanked
    785

    Default

    so thanks for appricate

  7. #7
    *khuahish* is offline Member
    Last Online
    18th December 2013 @ 01:24 PM
    Join Date
    19 Oct 2009
    Age
    33
    Posts
    485
    Threads
    53
    Thanked
    48

    Default

    Thank u bro 4 sharing

  8. #8
    Confuse's Avatar
    Confuse is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd May 2015 @ 03:53 PM
    Join Date
    17 Jan 2009
    Location
    Khamosh NaGaR
    Gender
    Male
    Posts
    8,124
    Threads
    778
    Credits
    0
    Thanked
    785

    Default

    shukria g

  9. #9
    iftikhar mirza's Avatar
    iftikhar mirza is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd July 2014 @ 08:46 AM
    Join Date
    11 Aug 2009
    Location
    Saudi Arabia
    Gender
    Male
    Posts
    848
    Threads
    63
    Credits
    0
    Thanked
    109

    Default


    بہت اچھے مظفر صا حب جو آپ نے اتنی اچھی معلومات دیں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ زیادہ مرد شعراء کے بارے میں ہی لکھا جاتا ہے ، آپ کی کوشش قابل ستائش ہے۔ پروین شاکر، ادا جعفری اور کشور ناہید ان سب خواتین کا کلام بہت اچھا ہے ۔۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔
    اک شعر عرض ہے۔۔۔

    میں سچ کہوں گی ، مگر پھر بھی ھار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

  10. #10
    Confuse's Avatar
    Confuse is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd May 2015 @ 03:53 PM
    Join Date
    17 Jan 2009
    Location
    Khamosh NaGaR
    Gender
    Male
    Posts
    8,124
    Threads
    778
    Credits
    0
    Thanked
    785

    Default

    shukria mirza bahi ,

    yeh shehar konse shaira ka ha

  11. #11
    iftikhar mirza's Avatar
    iftikhar mirza is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd July 2014 @ 08:46 AM
    Join Date
    11 Aug 2009
    Location
    Saudi Arabia
    Gender
    Male
    Posts
    848
    Threads
    63
    Credits
    0
    Thanked
    109

    Default

    Quote Confuse said: View Post
    shukria mirza bahi ,
    Quote Confuse said: View Post

    yeh shehar konse shaira ka ha

    اس سادگی پہ کون نہ مر جائے‘ اے خدا
    لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں


  12. #12
    mhafeez is offline Member
    Last Online
    9th June 2010 @ 01:40 PM
    Join Date
    30 Aug 2009
    Location
    *~Aawaara Baadlou'n main~*
    Posts
    3,778
    Threads
    287
    Thanked
    239

    Default

    Masha Allah bahut umda information/sharing hai
    Muzaffar bhai...thx a lot....**

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Pakistan ke bare main sab kuch.......
    By darya khan in forum General Knowledge
    Replies: 28
    Last Post: 26th October 2016, 02:01 AM
  2. Kuch "Spywares" K Bare Main
    By Fahad-G in forum Computer Articles
    Replies: 40
    Last Post: 14th February 2016, 12:32 PM
  3. Aap ke bare main kuch likhen!
    By Dangerous Man in forum Baat cheet
    Replies: 0
    Last Post: 1st August 2010, 09:02 AM
  4. winxp main guest account ke bare main kuch info chaheye
    By yayah salman in forum Ask an Expert
    Replies: 6
    Last Post: 2nd August 2008, 03:12 PM
  5. kuch mere bare main
    By singhkiller in forum Introduction
    Replies: 4
    Last Post: 8th January 2008, 10:13 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •