اعدائے اسلام کی خطرناک منصوبہ بندی! اورمسلمانوں کی ذمہ داری
الحمدللّٰہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفٰی!
مرحوم جنر ل ضیاء الحق کے دور میں جہاں بہت سے نقائص اور کوتاہیاں تھیں، وہاں کچھ ایسے اقدام بھی ہوئے جو اعدائے اسلام کی آنکھ میں آج تک کھٹکتے ہیں،چنانچہ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کا سورج غروب ہوئے، بلکہ ان کی زندگی کا چراغ گل ہوئے ۲۱ سال کا طویل عرصہ ہوچکاہے،مگر آج تک ان کے مخالفین ان کومعاف کرنے کے روادار نہیں ہیں۔بلکہ رات دن وہ اس فکر و سوچ میں ہیں کہ کس طرح ان اقدامات سے پیچھا چھڑایا جائے۔
خالص دنیا دار اور ٹھیٹھ فوجی افسرہونے کے باوجود ضیاء الحق مرحوم نے چند ایک ایسے کام کئے جو مغرب اور ان کے کاسہ لیسوں کے لئے آج تک سوہانِ روح ہیں ۔
ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کس طرح پاکستان سے اس کے ان اقدامات کے آثار و نقوش کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیاجائے۔ بلاشبہ جنرل ضیاء الحق کے بعدپاکستان می بہت سے سیکولرز حکمراں برسراقتدار آئے ،مگر وہ بے چارے بھی ان کے اٹھائے گئے اقدامات کو ختم کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
اگرچہ مرحوم جنرل ضیاء الحق پر ایک عرصہ تک یہ تہمت رہی کہ وہ نعوذباللہ! قادیانی ہیں، اگر قادیانی نہیں تو کم از کم قادیانیت نوازضرور ہیں۔ مگر بایں ہمہ اس نے امتناع قادیانیت آرڈی نینس جاری کرکے قادیانیت پرکاری ضرب لگائی۔
اسی طرح اس نے حدود آرڈی نینس جاری کرکے اپنے تئیں زناکاری و بدکاری کا سدِّباب کیا، اس کے ساتھ ساتھ اس نے نظامِ صلوٰة، نظامِ زکوٰة کے علاوہ پاکستان میں اسلامی اقدار کو فروغ دینے کی سعی و کوشش کی، جہاد و مجاہدین کی سرپرستی کی، افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف مزاحمت میں عملاً شرکت کو یقینی بنایا اور اس سب سے بڑھ کر پاکستانی معاشرہ کو اسلامی بنانے اور علماء کو جائز مقام دلانے کے لئے اسکولوں، کالجوں، سرکاری اداروں اور فوج میں ملازمت دلانے، نصابِ تعلیم کو مشرف بہ اسلام کرنے اور دینی مدارس کی اسنادکوایم اے کے برابر قرار دینے کی جدوجہدبھی کی، چاہے ان کے مخالفین ان کے اقدامات کا پس منظر کچھ بھی بیان کریں، مگربہرحال یہ سب کچھ ان کے دور میں ہوا ،اور یہ ایسے حقائق ہیں کہ اُن کے کٹر سے کٹر مخالف بھی اس کا انکار نہیں کرسکتے۔
یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام دشمن لابیوں، قوتوں، اقوام، ملل اور ان کے وفاداروں کو حقیقی تو کجا ،اس قسم کے زبانی، کلامی اور ظاہری اقدامات بھی ناقابل برداشت ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ اپنی زیر اثر اقوام و ممالک کو اسلام کا نام تک نہ لینے دیں۔
بہرحال اس کے ان اقدامات کو باقاعدہ مہم اور طے شدہ منصوبہ سے ختم کرنے کے لئے یوں تو گزشتہ دو دہائیوں سے مہم جاری تھی، مگر گزشتہ چھ سات سال سے اس مہم میں تیزی آگئی ہے۔
اس لئے کہ امریکا بہادر اور اس کے حواری اس سے پریشان ہیں کہ اگر اس ملک میں حدود آرڈی نینس باقی اور موٴثر رہا تو زناکاری اور بدکاری کا جنازہ نکل جائے گا ،اور جس معاشرہ میں زناکاری و بدکاری نہ ہوگی، وہ کثرتِ اموات، کثرت ِامراض، معاشی تنگ دستی اور جنگ و جدل سے بچ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا، اس لئے پاکستانی معاشرہ اور پاکستانی مسلمانوں کو اس غلاظت کی دلدل میں دھکیلنے کے لئے سب سے پہلے حدود آرڈی نینس کے خلاف اربوں ڈالر کے مصارف سے” کچھ سوچئے“ کی میڈیائی مہم چلائی گئی اور پوری قوم کو ذہنی طور پر حدود آرڈی نینس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا، زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی غلیظ ابحاث اٹھائی گئیں، خواتین کو مظلوم باور کرایا گیا، اور حدود آرڈی نینس، جو زنا کے سدباب کی ایک ادنیٰ سی کوشش تھی، اس کو ظلم و تشدد باور کرایا گیا، تاآنکہ حدود آرڈی نینس کو کالعدم قرار دینے کے لئے متبادل حقوق نسواں بل لاکر زنا کاری کو تحفظ فراہم کیا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ ایسے جوڑے جو بدکاری و زناکاری کے مرتکب تھے، انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے بیرون ملک شہریت دے کر اس گھناؤنے جرم اور مجرمین کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
اس کے بعد ان کا اگلا ہدف توہین رسالت آرڈی نینس تھا، جو ایسے بدنہاد اور موذیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا، جو اپنے آقاوٴں کے اشاروں پر مقدس شخصیات اور خصوصاً آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھونکتے تھے۔ بلاشبہ قانون توہین رسالت حضرات انبیأ کرام اورمقدس شخصیات کے خلاف بھونکنے والی ایسی زبانوں کو روکنے بلکہ انہیں لگام دینے کا موٴثر ہتھیار تھا۔
لہٰذا اس قانون کو غیر موٴثر بنانے کی خاطر جان بوجھ کر ایسے موذیوں کودریدہ دہنی پرآمادہ کیاجانے لگا اور جہاں کہیں ایسے بدنہاد اور موذی، اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کے خلاف دریدہ دہنی کے مرتکب ہوئے اور مسلمانوں نے ان کے خلاف احتجاج کیا، پیشگی طے شدہ منصوبے کے تحت اس کو فساد کی شکل دی گئی اور باقاعدہ قتل وغارت اورجلاوٴ گھراوٴ کے ذریعے میدان کارزار اور جنگ و جدل کا بازار گرم کیا گیا، دنگا فساد برپا کرنے کے لئے جانبین پر حملے کرائے گئے، چنانچہ ان موذیوں اور گستاخوں کی صفوں میں گھس کر مسلمانوں کو اور مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر ان موذیوں کو مارا گیا، ان کو زخمی کیا گیا، ان کو قتل کیا گیا، بلکہ ہر دو جانب سے فائرنگ کا ڈھونگ رچاکر مسلمانوں کو ظالم اور اعدائے اسلام کو مظلوم باور کراتے ہوئے اس کو قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کے کھاتے میں ڈالاگیا، اور اپنے زر خریدغلاموں کے ذریعے پُرزور مطالبے اور بیان دلائے گئے کہ چونکہ یہ سب کچھ قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کی وجہ سے ہوا ہے ،لہٰذا قانون توہین رسالت کوختم ہونا چاہئے۔
اور اب تو نوبت بایں جارسید کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ ان باغیانِ رسالت اور موذیوں کی دریدہ دہنی کے خلاف زبان کھولے تو اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لالے پڑجاتے ہیں، دیکھا جائے تو یہ سب کچھ اس سازش اور مہم کا حصہ ہے جس میں طے کیا جا چکاہے کہ یہ قانون ہر حال میں ختم ہونا چاہئے۔چنانچہ پاکستان بھرمیں جہاں جہاں عیسائی مسلم اورقادیانی مسلم فسادات کی خبریں آرہی ہیں،ان کے پیچھے یہی سازش کارفرماہے۔
اس سے تیسرااور اگلا ہدف نہایت ہی خطرناک ہے اور وہ یہ کہ بھٹو دور کے ۱۹۷۴ء کے آئین میں کی گئی قادیانیوں کے خلاف اس ترمیم کو بھی ختم ہونا چاہئے جس کے ذریعہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔
حالات وواقعات،آثاروقرائن اورملکی وبین الاقوامی لادین لابیوں،افراد،جماعتوں اعدائے اسلام ممالک اوراین جی اوز کے بیانات اورمطالبات سے اس کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اس کے لئے بھی باقاعدہ پروگرام اور منصوبہ تشکیل دیاجاچکا ہے، چنانچہ پاکستان اور بیرون پاکستان کے سیکولر زعماء نے اپنی صلاحیتوں اور ان کے آقاؤں نے اپنے سرمائے کو اس گھناوٴنے مشن کے لئے وقف کررکھا ہے،اوربطور خاص پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین اور وزیر اقلیتی امور شہبازبھٹی نے یہ ذمہ داری اٹھاکر اس سلسلہ کا پہلا پتھر پھینک دیا ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟؟
بہرحال پاکستان کی سا لمیت، اس کی دینی، ملی اور مذہبی شناخت کے لئے بہت ہی بھیانک منصوبے تشکیل پاچکے ہیں، جن کا شاید مسلمانوں کو ابھی تک احساس نہیں اور یہ سب کچھ کسی ملا ، مولوی کی سوچ نہیں، بلکہ عام تجزیہ نگار اور کالم نگار بھی اس خفیہ سازش اور منصوبہ کو سوچ،سوچ کر بے حد مضطرب اور پریشان ہیں،یقین نہ آئے تو اخبارات اٹھاکردیکھ لیجئے!بطورمثال ایک غیرجانب دار تجزیہ نگار جناب انور غازی کے اضطراب اور پریشانی پرمبنی کالم ملاحظہ کیجئے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
”کہانی کا آغاز نینسی جے پال سے ہوتا ہے۔یہ ۱۶ اگست ۲۰۰۲ء سے ۵ نومبر ۲۰۰۴ء تک پاکستان میں امریکا کی سفیر رہی ہیں۔ پاکستان میں ان کو تعینات کرتے وقت خصوصی طور پر تین ٹاسک دیئے گئے تھے۔ ایک پاکستان کے نصاب تعلیم میں تبدیلی، دسرا ۱۹۷۹ء کا حدود آرڈی نینس کا خاتمہ یا ترمیم، تیسرا توہین رسالت قانون کو ختم کرنا یا ریویو کرنا۔ چنانچہ اس نے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی صدر، وزیر اعظم اور دیگر اہم شخصیات سے پہلے پہل خفیہ اور بعدازاں علانیہ ملاقاتیں شروع کردیں۔ اسی وقت بعض باخبر دانشور، ان ملاقاتوں کو خطرے کا الارم قرار دے رہے تھے، محب دین و وطن دور اندیشوں نے بھانپ لیا تھا کہ اندر ہی اندر کچھ ”پک“ رہا ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد آہستہ آہستہ یہ دھواں باہر نکلنے لگا اور امریکی استعمار کے ایجنڈے پر کام شروع ہوگیا، بلکہ اس کو منشور بنالیا گیا، اور پہلے ایجنڈے یعنی ”نصابِ تعلیم میں تبدیلی“ پر کام شروع ہوگیا، ۲۰۰۳ء سے پاکستان کے نصابِ تعلیم میں تبدیلیوں کا آغاز ہوا جو ۲۰۰۴ء میں اختتام پذیر ہوا، ابتدائی طو رپر امریکا نے پاکستان کے نظام تعلیم کی تبدیلی کے لئے پاکستان کو ۳ ارب ۹۰ کروڑ روپے دیئے۔ ۵ فروری ۲۰۰۵ء کو بش نے فخریہ انداز میں کہا تھا: ”پاکستان کا نصابِ تعلیم میرے کہنے پر تبدیل کیا گیا۔“ اس کے بعد مشرف نے ”انڈیا ٹوڈے“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ”بھارت اور پاکستان کا نصابِ تعلیم مشترکہ ہونا چاہئے۔“ مئی ۲۰۰۴ء کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کی و زیر تعلیم زبیدہ جلال نے کہا تھا: ”بیالوجی کی کتاب میں قرآنی آیات کا کیا کام ہے؟“ اور اگر مقدس مضامین کے سامنے کتے کی تصویر آگئی ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ اس کے بعد نصاب سے سیرت رسول، غزوات، جہاد کی آیات، شہادت کا فلسفہ، صحابہ کرام کے واقعات، مسلم فاتحین کے حالات، امہات المومنین کا تذکرہ اور ایسی ہر بات نکال ڈالی جس سے انسان ایک نظریاتی مسلمان بن سکتا ہے اور اب ملک میں اسلام،قرآن،اورمجاھدین کانام تک لینا ناقابل معافی جرم بن چکا ہے۔
نصاب تعلیم کی تبدیلی کے بعد دوسرا اہم ایجنڈا۱۹۷۹ء والے ”حدود آرڈی نینس“ کو بہر صورت تبدیل کروانا تھا، تاکہ پاکستان کے اسلامی کلچر کو یہود ونصاری کے مادر پدر آزاد معاشرے میں تبدیل کیا جاسکے ، حدود آرڈیننس کے خاتمے پر پچیس پچیس کروڑ خرچ کیے گئے، تاکہ ملک میں فحاشی وعریانی پھیلے ،اس پر بھی عملدرآمد سے پہلے میڈیا کے ذریعے بھرپور مہم چلائی گئی، زنا بالجبر اور بالرضا پر کھلے عام بحث مباحثے ہوئے، ٹی وی چینلز پر کھلے عام اس نازک اور شرم وحیا والے مسئلے پر بے ہودہ گفتگوہوئی، جسمیں حدود ختم کرنے پر زور دیا گیا ،دلائل میں عورتوں پر رحم کھاکر کہا گیا کہ صنف نازک کو کوڑے مارنا اور حد جاری کرنا ظلم ہے، حالانکہ الله نے بعض جرائم پر جو حد “ مقرر کی ہے اس میں رتی بھر کمی ،زیادتی اور ترمیم نہیں ہوسکتی ، الله کے سامنے قیامت کے دن ایک ایسا حاکم پیش کیا جائے گا جس نے الله کی مقررکی ہوئی سزا میں کمی کی ہوگی، اس سے پوچھا جائے گا تم نے کمی کیوں کی تووہ جواب دے گا ،اس لیے کہ مجھے اس بندہ پر رحم آگیا تھا، الله اس سے کہیں گے کہ کیا مجھ سے زیادہ کوئی رحیم ہے؟ پھر ایک ایسے حاکم کو لایاجائے گا جس نے ایک کوڑے کا اضافہ کیا ہوگا تو اس سے پوچھا جائے گا اضافہ کیوں کیا ؟ وہ کہے گا تاکہ بندے زیادہ ڈریں تو اس کو جواب دیا جائے گا کیا مجھ سے بھی زیادہ کوئی ڈرانے والا ہے؟الله نے جو حدود مقر کی ہیں، اس میں ترمیم کرنے والوں کے لیے قرآن نے ”ظالم ، فاسق اورکافر “ جیسے سخت الفاظ استعمال کیے ،جب ہم الله کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں ترمیم کرنے والوں کے بارے میں قرآن کی سخت ترین وعیدیں پڑھتے ہیں تو کانپ اٹھتے ہیں ، حدود اللہ میں ترمیم کرنے والوں کا انجام سوچ کر ہی سکتہ طاری ہوجاتا ہے، بہرحال! نام نہاد حقوق نسواں بل پر ۲۰۰۵ء میں کام شروع ہوا اور ۲۰۰۶ء میں حدود آرڈی نینس ختم ہوکر ہی رہا، جس کے نتیجے میں اب فحاشی و عریانی کا دور دورہ ہے، نکاح مشکل اور زنا آسان ہوچکا ہے، اس کے بعد توہین رسالت قانون اور امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس کا نمبر تھا، یہ کام ۲۰۰۷ء میں شروع ہونا تھا اور ۲۰۰۸ء تک ختم ہونا تھا، لیکن مارچ ۲۰۰۷ء سے مشرف حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوگئی اور یہ قانون بچ گیا۔
Bookmarks