Results 1 to 5 of 5

Thread: اعدائے اسلام کی خطرناک منصوبہ بندی! اورمس 

  1. #1
    Fatat-Al-Quraan's Avatar
    Fatat-Al-Quraan is offline Senior Member+
    Last Online
    25th November 2012 @ 02:14 PM
    Join Date
    17 Apr 2009
    Posts
    366
    Threads
    80
    Credits
    920
    Thanked
    27

    Default اعدائے اسلام کی خطرناک منصوبہ بندی! اورمس 

    اعدائے اسلام کی خطرناک منصوبہ بندی! اورمسلمانوں کی ذمہ داری

    الحمدللّٰہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفٰی!
    مرحوم جنر ل ضیاء الحق کے دور میں جہاں بہت سے نقائص اور کوتاہیاں تھیں، وہاں کچھ ایسے اقدام بھی ہوئے جو اعدائے اسلام کی آنکھ میں آج تک کھٹکتے ہیں،چنانچہ جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کا سورج غروب ہوئے، بلکہ ان کی زندگی کا چراغ گل ہوئے ۲۱ سال کا طویل عرصہ ہوچکاہے،مگر آج تک ان کے مخالفین ان کومعاف کرنے کے روادار نہیں ہیں۔بلکہ رات دن وہ اس فکر و سوچ میں ہیں کہ کس طرح ان اقدامات سے پیچھا چھڑایا جائے۔
    خالص دنیا دار اور ٹھیٹھ فوجی افسرہونے کے باوجود ضیاء الحق مرحوم نے چند ایک ایسے کام کئے جو مغرب اور ان کے کاسہ لیسوں کے لئے آج تک سوہانِ روح ہیں ۔
    ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کس طرح پاکستان سے اس کے ان اقدامات کے آثار و نقوش کو کھرچ کھرچ کر صاف کردیاجائے۔ بلاشبہ جنرل ضیاء الحق کے بعدپاکستان می بہت سے سیکولرز حکمراں برسراقتدار آئے ،مگر وہ بے چارے بھی ان کے اٹھائے گئے اقدامات کو ختم کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔
    اگرچہ مرحوم جنرل ضیاء الحق پر ایک عرصہ تک یہ تہمت رہی کہ وہ نعوذباللہ! قادیانی ہیں، اگر قادیانی نہیں تو کم از کم قادیانیت نوازضرور ہیں۔ مگر بایں ہمہ اس نے امتناع قادیانیت آرڈی نینس جاری کرکے قادیانیت پرکاری ضرب لگائی۔
    اسی طرح اس نے حدود آرڈی نینس جاری کرکے اپنے تئیں زناکاری و بدکاری کا سدِّباب کیا، اس کے ساتھ ساتھ اس نے نظامِ صلوٰة، نظامِ زکوٰة کے علاوہ پاکستان میں اسلامی اقدار کو فروغ دینے کی سعی و کوشش کی، جہاد و مجاہدین کی سرپرستی کی، افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف مزاحمت میں عملاً شرکت کو یقینی بنایا اور اس سب سے بڑھ کر پاکستانی معاشرہ کو اسلامی بنانے اور علماء کو جائز مقام دلانے کے لئے اسکولوں، کالجوں، سرکاری اداروں اور فوج میں ملازمت دلانے، نصابِ تعلیم کو مشرف بہ اسلام کرنے اور دینی مدارس کی اسنادکوایم اے کے برابر قرار دینے کی جدوجہدبھی کی، چاہے ان کے مخالفین ان کے اقدامات کا پس منظر کچھ بھی بیان کریں، مگربہرحال یہ سب کچھ ان کے دور میں ہوا ،اور یہ ایسے حقائق ہیں کہ اُن کے کٹر سے کٹر مخالف بھی اس کا انکار نہیں کرسکتے۔
    یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام دشمن لابیوں، قوتوں، اقوام، ملل اور ان کے وفاداروں کو حقیقی تو کجا ،اس قسم کے زبانی، کلامی اور ظاہری اقدامات بھی ناقابل برداشت ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ اپنی زیر اثر اقوام و ممالک کو اسلام کا نام تک نہ لینے دیں۔
    بہرحال اس کے ان اقدامات کو باقاعدہ مہم اور طے شدہ منصوبہ سے ختم کرنے کے لئے یوں تو گزشتہ دو دہائیوں سے مہم جاری تھی، مگر گزشتہ چھ سات سال سے اس مہم میں تیزی آگئی ہے۔
    اس لئے کہ امریکا بہادر اور اس کے حواری اس سے پریشان ہیں کہ اگر اس ملک میں حدود آرڈی نینس باقی اور موٴثر رہا تو زناکاری اور بدکاری کا جنازہ نکل جائے گا ،اور جس معاشرہ میں زناکاری و بدکاری نہ ہوگی، وہ کثرتِ اموات، کثرت ِامراض، معاشی تنگ دستی اور جنگ و جدل سے بچ کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا، اس لئے پاکستانی معاشرہ اور پاکستانی مسلمانوں کو اس غلاظت کی دلدل میں دھکیلنے کے لئے سب سے پہلے حدود آرڈی نینس کے خلاف اربوں ڈالر کے مصارف سے” کچھ سوچئے“ کی میڈیائی مہم چلائی گئی اور پوری قوم کو ذہنی طور پر حدود آرڈی نینس کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا، زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی غلیظ ابحاث اٹھائی گئیں، خواتین کو مظلوم باور کرایا گیا، اور حدود آرڈی نینس، جو زنا کے سدباب کی ایک ادنیٰ سی کوشش تھی، اس کو ظلم و تشدد باور کرایا گیا، تاآنکہ حدود آرڈی نینس کو کالعدم قرار دینے کے لئے متبادل حقوق نسواں بل لاکر زنا کاری کو تحفظ فراہم کیا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ ایسے جوڑے جو بدکاری و زناکاری کے مرتکب تھے، انہیں تحفظ فراہم کرنے کے لئے بیرون ملک شہریت دے کر اس گھناؤنے جرم اور مجرمین کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
    اس کے بعد ان کا اگلا ہدف توہین رسالت آرڈی نینس تھا، جو ایسے بدنہاد اور موذیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا، جو اپنے آقاوٴں کے اشاروں پر مقدس شخصیات اور خصوصاً آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھونکتے تھے۔ بلاشبہ قانون توہین رسالت حضرات انبیأ کرام اورمقدس شخصیات کے خلاف بھونکنے والی ایسی زبانوں کو روکنے بلکہ انہیں لگام دینے کا موٴثر ہتھیار تھا۔
    لہٰذا اس قانون کو غیر موٴثر بنانے کی خاطر جان بوجھ کر ایسے موذیوں کودریدہ دہنی پرآمادہ کیاجانے لگا اور جہاں کہیں ایسے بدنہاد اور موذی، اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کی مقدس شخصیات کے خلاف دریدہ دہنی کے مرتکب ہوئے اور مسلمانوں نے ان کے خلاف احتجاج کیا، پیشگی طے شدہ منصوبے کے تحت اس کو فساد کی شکل دی گئی اور باقاعدہ قتل وغارت اورجلاوٴ گھراوٴ کے ذریعے میدان کارزار اور جنگ و جدل کا بازار گرم کیا گیا، دنگا فساد برپا کرنے کے لئے جانبین پر حملے کرائے گئے، چنانچہ ان موذیوں اور گستاخوں کی صفوں میں گھس کر مسلمانوں کو اور مسلمانوں کی صفوں میں گھس کر ان موذیوں کو مارا گیا، ان کو زخمی کیا گیا، ان کو قتل کیا گیا، بلکہ ہر دو جانب سے فائرنگ کا ڈھونگ رچاکر مسلمانوں کو ظالم اور اعدائے اسلام کو مظلوم باور کراتے ہوئے اس کو قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کے کھاتے میں ڈالاگیا، اور اپنے زر خریدغلاموں کے ذریعے پُرزور مطالبے اور بیان دلائے گئے کہ چونکہ یہ سب کچھ قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کی وجہ سے ہوا ہے ،لہٰذا قانون توہین رسالت کوختم ہونا چاہئے۔
    اور اب تو نوبت بایں جارسید کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ ان باغیانِ رسالت اور موذیوں کی دریدہ دہنی کے خلاف زبان کھولے تو اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کے لالے پڑجاتے ہیں، دیکھا جائے تو یہ سب کچھ اس سازش اور مہم کا حصہ ہے جس میں طے کیا جا چکاہے کہ یہ قانون ہر حال میں ختم ہونا چاہئے۔چنانچہ پاکستان بھرمیں جہاں جہاں عیسائی مسلم اورقادیانی مسلم فسادات کی خبریں آرہی ہیں،ان کے پیچھے یہی سازش کارفرماہے۔
    اس سے تیسرااور اگلا ہدف نہایت ہی خطرناک ہے اور وہ یہ کہ بھٹو دور کے ۱۹۷۴ء کے آئین میں کی گئی قادیانیوں کے خلاف اس ترمیم کو بھی ختم ہونا چاہئے جس کے ذریعہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔
    حالات وواقعات،آثاروقرائن اورملکی وبین الاقوامی لادین لابیوں،افراد،جماعتوں اعدائے اسلام ممالک اوراین جی اوز کے بیانات اورمطالبات سے اس کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اس کے لئے بھی باقاعدہ پروگرام اور منصوبہ تشکیل دیاجاچکا ہے، چنانچہ پاکستان اور بیرون پاکستان کے سیکولر زعماء نے اپنی صلاحیتوں اور ان کے آقاؤں نے اپنے سرمائے کو اس گھناوٴنے مشن کے لئے وقف کررکھا ہے،اوربطور خاص پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین اور وزیر اقلیتی امور شہبازبھٹی نے یہ ذمہ داری اٹھاکر اس سلسلہ کا پہلا پتھر پھینک دیا ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟؟
    بہرحال پاکستان کی سا لمیت، اس کی دینی، ملی اور مذہبی شناخت کے لئے بہت ہی بھیانک منصوبے تشکیل پاچکے ہیں، جن کا شاید مسلمانوں کو ابھی تک احساس نہیں اور یہ سب کچھ کسی ملا ، مولوی کی سوچ نہیں، بلکہ عام تجزیہ نگار اور کالم نگار بھی اس خفیہ سازش اور منصوبہ کو سوچ،سوچ کر بے حد مضطرب اور پریشان ہیں،یقین نہ آئے تو اخبارات اٹھاکردیکھ لیجئے!بطورمثال ایک غیرجانب دار تجزیہ نگار جناب انور غازی کے اضطراب اور پریشانی پرمبنی کالم ملاحظہ کیجئے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
    ”کہانی کا آغاز نینسی جے پال سے ہوتا ہے۔یہ ۱۶ اگست ۲۰۰۲ء سے ۵ نومبر ۲۰۰۴ء تک پاکستان میں امریکا کی سفیر رہی ہیں۔ پاکستان میں ان کو تعینات کرتے وقت خصوصی طور پر تین ٹاسک دیئے گئے تھے۔ ایک پاکستان کے نصاب تعلیم میں تبدیلی، دسرا ۱۹۷۹ء کا حدود آرڈی نینس کا خاتمہ یا ترمیم، تیسرا توہین رسالت قانون کو ختم کرنا یا ریویو کرنا۔ چنانچہ اس نے ذمہ داریاں سنبھالتے ہی صدر، وزیر اعظم اور دیگر اہم شخصیات سے پہلے پہل خفیہ اور بعدازاں علانیہ ملاقاتیں شروع کردیں۔ اسی وقت بعض باخبر دانشور، ان ملاقاتوں کو خطرے کا الارم قرار دے رہے تھے، محب دین و وطن دور اندیشوں نے بھانپ لیا تھا کہ اندر ہی اندر کچھ ”پک“ رہا ہے۔ کچھ ہی عرصے بعد آہستہ آہستہ یہ دھواں باہر نکلنے لگا اور امریکی استعمار کے ایجنڈے پر کام شروع ہوگیا، بلکہ اس کو منشور بنالیا گیا، اور پہلے ایجنڈے یعنی ”نصابِ تعلیم میں تبدیلی“ پر کام شروع ہوگیا، ۲۰۰۳ء سے پاکستان کے نصابِ تعلیم میں تبدیلیوں کا آغاز ہوا جو ۲۰۰۴ء میں اختتام پذیر ہوا، ابتدائی طو رپر امریکا نے پاکستان کے نظام تعلیم کی تبدیلی کے لئے پاکستان کو ۳ ارب ۹۰ کروڑ روپے دیئے۔ ۵ فروری ۲۰۰۵ء کو بش نے فخریہ انداز میں کہا تھا: ”پاکستان کا نصابِ تعلیم میرے کہنے پر تبدیل کیا گیا۔“ اس کے بعد مشرف نے ”انڈیا ٹوڈے“ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ”بھارت اور پاکستان کا نصابِ تعلیم مشترکہ ہونا چاہئے۔“ مئی ۲۰۰۴ء کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کی و زیر تعلیم زبیدہ جلال نے کہا تھا: ”بیالوجی کی کتاب میں قرآنی آیات کا کیا کام ہے؟“ اور اگر مقدس مضامین کے سامنے کتے کی تصویر آگئی ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ اس کے بعد نصاب سے سیرت رسول، غزوات، جہاد کی آیات، شہادت کا فلسفہ، صحابہ کرام کے واقعات، مسلم فاتحین کے حالات، امہات المومنین کا تذکرہ اور ایسی ہر بات نکال ڈالی جس سے انسان ایک نظریاتی مسلمان بن سکتا ہے اور اب ملک میں اسلام،قرآن،اورمجاھدین کانام تک لینا ناقابل معافی جرم بن چکا ہے۔
    نصاب تعلیم کی تبدیلی کے بعد دوسرا اہم ایجنڈا۱۹۷۹ء والے ”حدود آرڈی نینس“ کو بہر صورت تبدیل کروانا تھا، تاکہ پاکستان کے اسلامی کلچر کو یہود ونصاری کے مادر پدر آزاد معاشرے میں تبدیل کیا جاسکے ، حدود آرڈیننس کے خاتمے پر پچیس پچیس کروڑ خرچ کیے گئے، تاکہ ملک میں فحاشی وعریانی پھیلے ،اس پر بھی عملدرآمد سے پہلے میڈیا کے ذریعے بھرپور مہم چلائی گئی، زنا بالجبر اور بالرضا پر کھلے عام بحث مباحثے ہوئے، ٹی وی چینلز پر کھلے عام اس نازک اور شرم وحیا والے مسئلے پر بے ہودہ گفتگوہوئی، جسمیں حدود ختم کرنے پر زور دیا گیا ،دلائل میں عورتوں پر رحم کھاکر کہا گیا کہ صنف نازک کو کوڑے مارنا اور حد جاری کرنا ظلم ہے، حالانکہ الله نے بعض جرائم پر جو حد “ مقرر کی ہے اس میں رتی بھر کمی ،زیادتی اور ترمیم نہیں ہوسکتی ، الله کے سامنے قیامت کے دن ایک ایسا حاکم پیش کیا جائے گا جس نے الله کی مقررکی ہوئی سزا میں کمی کی ہوگی، اس سے پوچھا جائے گا تم نے کمی کیوں کی تووہ جواب دے گا ،اس لیے کہ مجھے اس بندہ پر رحم آگیا تھا، الله اس سے کہیں گے کہ کیا مجھ سے زیادہ کوئی رحیم ہے؟ پھر ایک ایسے حاکم کو لایاجائے گا جس نے ایک کوڑے کا اضافہ کیا ہوگا تو اس سے پوچھا جائے گا اضافہ کیوں کیا ؟ وہ کہے گا تاکہ بندے زیادہ ڈریں تو اس کو جواب دیا جائے گا کیا مجھ سے بھی زیادہ کوئی ڈرانے والا ہے؟الله نے جو حدود مقر کی ہیں، اس میں ترمیم کرنے والوں کے لیے قرآن نے ”ظالم ، فاسق اورکافر “ جیسے سخت الفاظ استعمال کیے ،جب ہم الله کی مقرر کی ہوئی سزاؤں میں ترمیم کرنے والوں کے بارے میں قرآن کی سخت ترین وعیدیں پڑھتے ہیں تو کانپ اٹھتے ہیں ، حدود اللہ میں ترمیم کرنے والوں کا انجام سوچ کر ہی سکتہ طاری ہوجاتا ہے، بہرحال! نام نہاد حقوق نسواں بل پر ۲۰۰۵ء میں کام شروع ہوا اور ۲۰۰۶ء میں حدود آرڈی نینس ختم ہوکر ہی رہا، جس کے نتیجے میں اب فحاشی و عریانی کا دور دورہ ہے، نکاح مشکل اور زنا آسان ہوچکا ہے، اس کے بعد توہین رسالت قانون اور امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس کا نمبر تھا، یہ کام ۲۰۰۷ء میں شروع ہونا تھا اور ۲۰۰۸ء تک ختم ہونا تھا، لیکن مارچ ۲۰۰۷ء سے مشرف حکومت کی الٹی گنتی شروع ہوگئی اور یہ قانون بچ گیا۔

  2. #2
    Fatat-Al-Quraan's Avatar
    Fatat-Al-Quraan is offline Senior Member+
    Last Online
    25th November 2012 @ 02:14 PM
    Join Date
    17 Apr 2009
    Posts
    366
    Threads
    80
    Credits
    920
    Thanked
    27

    Default

    امریکا اب ہماری حکومت سے یہ کام ....جو انتہائی مشکل ہے....کروانا چاہتا ہے۔ حکومت اس کی حامی بھرچکی ہے۔ ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۲ء تک تین سالوں میں اس تیسرے اور اہم ترین قانون توہین رسالت کو ختم کروانا یا غیر موٴثر کروانا ہے، اس کا آغاز گوجرہ، سمبڑیال اور ڈسکا سانحات، دیوبندی بریلویوں میں اختلافات کو ہوا دے کر اور بعض لیڈروں کے بیانات سے ہوچکا ہے، صدر زرداری لندن میں اس کی یقین دہانی کرواچکے ہیں، جس طرح مانچسٹر سے قادیانیوں کے راہنما کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں ہمارے خلاف منظور کیا گیا قانون ختم نہ کیا گیا تو پھر یہ ملک اسی طرح جلتا رہے گا، اگر پاکستان سلامتی چاہتا ہے تو پھر یہ قانون ختم ہونا چاہئے۔ پاکستان میں مرزائیوں کی ترجمانی کئی لوگ کررہے ہیں ، ان کا کہنا ہے: ”توہین رسالت کا قانون ختم ہونا چاہئے“ کئی بڑے بڑے سول حکام بھی جو ختم نبوت پر پروگرام کرنے، لکھنے اور بولنے والوں کو جو ان کے پاس اپنی سیکورٹی کی درخواست لے کر جاتے ہیں، مذکورہ جماعت کی خوفناک دھمکیوں کو پیغام رسانی کی خدمت سرانجام دیتے ہیں، زمین قدرے ہموار ہوچکی ہے، اب مکار نگاہیں ناموس رسالت کے قانون پر لگی ہوئی ہیں، غیر ملکی آقاؤں نے ڈگڈگی بجادی ہے اور بندروں کا ناچ شروع ہونے کو ہے، توہین رسالت کا قانون...جو تمام مسالک کے نزدیک یکساں محترم و مقدس ہے....کو یک بیک ختم کرنا شاید حکومت کے لئے اتنا آسان نہ ہو، مگر بازی گروں کے پاس حیلوں کی کمی نہیں، ایک حیلہ جس کا بہت زیادہ امکان ہے وہ نظرثانی (ریویو) کے نام پر قانون کو غیر معینہ مدت کے لئے سرد خانے میں ڈالنے کا خوفناک طریقہ ہے، درباری بڑے احترام سے کہیں گے کہ ہم ناموس رسالت کے قانون کو بدلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، فقط اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے قانون پر از سر نو نظر ثانی کی ضرورت ہے، پھر ”نظرثانی“ کے نام پر اس قانون کوالتوا میں ڈال دیا جائے گا اور اس وقت تک عدالتیں اس قانون کے مطابق سزائیں نہ دے سکیں گی، یہ اسی گہری مکروہ سازش کے تانے بانے ہیں ،جس کی منادی نیو یارک سے ہوئی ہے اور دیسی غلام، فرنگی آقاؤں کے فرمان پر دل و جان سے عمل کرنے کے لئے مچل رہے ہیں۔ توہین رسالت کا قانون، ناموس رسالت کے پاس داروں کے لئے زندگی و موت کا مسئلہ ہے اور اس پر مسلکی اختلافات سے بالا تر ہوکر ردِ عمل سامنے آئے گا۔ لیکن موجودہ حکومت...جس کی پشت پر امریکا اور برطانیہ جیسی طاقتیں کھڑی ہیں...کے پاس عوام کو نان ایشوز میں الجھانے کے بیسیوں طریقے ہیں۔
    ہماری حکومت سادہ لوح عوام کو ان ایشوز میں الجھاکر اندر ہی اندر کام کرتی رہے گی، جب پانی سر سے گزر جائے گا تو عوام اور علماء بیدار ہوں گے، احتجاج ہوگا، جلسے، جلوس ہوں گے اور پھر آہستہ آہستہ حالات معمول پر آجائیں گے۔ نصابِ تعلیم میں تبدیلی کے وقت اور حدود آرڈی نینس کے خاتمے کے وقت یہی ہوا تھا، لہٰذا اگر پاکستان کے مسلمان چاہتے ہیں کہ توہین رسالت کا قانون اور امتناع قادیانیت آرڈی نینس موجود رہے تو پھر ابھی سے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور عوام...جو عاشقانِ رسول ہیں...کو باہمی مل کر حکمرانوں اور امریکی ایجنٹوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہئے۔ شیخ سعدی نے صدیوں پہلے کہا تھا:
    سرِ چشمہ شاید گرفتن بمیل
    چوں پُرشُد نشاید گزشتن بہ پیل۔‘
    (روزنامہ جنگ کراچی،۵اکتوبر۲۰۰۹ء)
    اس ساری صورت حال کا تکلیف دہ اور اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے دین دار طبقات اور قرآن و سنت اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی کے دعویدار، نہ صرف خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں، بلکہ اس قدر حساس مسائل اور دین و مذہب کے بنیادی اور اساسی معاملات پر زد پڑنے کے باوجود بھی بے حس و حرکت ہیں، ایسا لگتا ہے کہ خدانخواستہ وہ اس کو ذرہ بھر کوئی اہمیت دینے یا اس پر کسی قسم کی ناگواری کے روادار نہیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ عاشقانِ رسول اورمحبانِ دین ومذہب کب جاگیں گے؟ کیا یہ اس وقت کاانتظار کررہے ہیں جب پانی سر سے گزر جائے گا؟ یاجب کھیل ختم ہوجائے گا؟
    حیرت ہے کہ وہ قوم اورملت جس نے انگریزی دور سے اب تک پورے سو سال سے دین و مذہب اور نفاذ اسلام کے لئے اپنا تن، من اور دھن قربان کرنے کو اپنے لئے مایہ اعزاز و افتخار سمجھا، اعدائے اسلام، باغیانِ ملت اور موذیانِ رسول کے خلاف چومکھی لڑائی لڑی ،اور جس نے لاکھوں جانوں، عزتوں، عصمتوں کے علاوہ کروڑوں بلکہ اربوں کی املاک کی قربانی دے کر محض اس لئے یہ خطہ...مملکت خداداد پاکستان...حاصل کیا کہ اس میں آزادی سے اسلام اور شعائر اسلام کا نفاذ کیا جاسکے، افسوس !صد افسوس! کہ آج وہ خاموش ہیں اور ان ہی کی اولادیں نہ صرف اسلام اور شعائر اسلام کی مخالفت میں پیش پیش ہیں بلکہ اعدائے اسلام کے اشاروں پر ان کے ناپاک عزائم ومنصوبوں کی تکمیل کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کررہے ہیں۔ اے کاش! کہ آج ان کی ساری صلاحتیں براہ راست یا بالواسطہ دین و مذہب اور ملک و ملت کے خلاف استعمال ہورہی ہیں۔
    کسی اسلامی ملک کانصاب تعلیم ،حدود آرڈی نینس، تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت جیسے مسائل کوئی اختلافی یا فروعی نہیں، کہ ان میں دو رائیں ہوں، بلکہ یہ اسلام کے بنیادی اور اساسی مسائل و عقائد میں سے ہیں، جن میں کسی عالم و جاہل، شہری و دیہاتی، شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، حنفی،مالکی، شافعی، حنبلی، مقلد و غیر مقلد، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سندھی، سرائیکی، مہاجر، میمن و غیر میمن، پاکستانی، بنگالی، ہندوستانی، عربی، عجمی، امریکی اور افریقی غرض کسی ملک و قوم اور زبان و خطے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی اسلام کے دعویدار کا کوئی اختلاف نہیں ، بلکہ یہ سب، مسلمہ اور متفقہ مسائل وعقائدہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جب بھی ایسا کوئی مسئلہ اٹھا،یایسی کوئی تحریک چلی، تو سب نے بلا امتیاز زبان و مسلک اس کے لئے جان، مال، عزت، آبروبلکہ اپنا سب کچھ ان کی حفاظت و تحفظ کے لئے داؤ پر لگادیا، مگر اعدائے اسلام اور باغیانِ دین و مذہب سے کبھی صلح نہیں کی۔
    الغرض جب بھی باغیانِ ملک وملت دین و مذہب اور موذیانِ رسالت کی شرارت سامنے آئی یا ان کے خلاف کوئی تحریک اٹھی تو بلا امتیاز تمام خطوں اور زبانوں کی اقوام و ملل نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ ان کے اسی اتحاد و اتفاق کی برکت تھی کہ ہمیشہ اعدائے اسلام اور معاندین دین کو شکست فاش ہوئی اور کامیابی و کامرانی نے مسلمانوں کے قدم چومے۔
    لہٰذا اس موقع پر تمام مسلمانوں اور خصوصاً پاکستان کے تمام طبقات کو سوبار سوچنا چاہئے کہ ان کی ترقی معکوس کے کیا اسباب و علل ہیں؟
    اسی طرح راہبرانِ قوم و ملت کو بھی اس پر نہایت سنجیدگی سے غورکرنا چاہئے کہ آخر اس قدر دینی و ملی انحطاط اور ذہنی وفکری ادبار کس وجہ سے پیدا ہوا ہے؟کہیں یہ ساری صورت حال ہماری بدعملی ا ور قوم و ملت کی صحیح راہنمائی نہ کرنے کی وجہ سے تو نہیں؟
    اس کے اسباب و وجوہ کچھ بھی ہوں، بہرحال ان لوگوں کوبھی اس پر غور کرنا چاہئے...جو کسی کے کہنے یا اشارے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں...کہ ان کا یہ طرزِ عمل خود ان کے دین، ایمان اور آخرت کے لئے کس قدر تباہ کن ہے؟ کیا ان کا یہ طرز عمل انہیں اعدائے اسلام کی فہرست میں شامل کرانے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں میں شمار کرانے کا سبب نہیں ؟نیزیہ کہ اگر خدانخواستہ وہ اسی حال میں مرگئے تو کیا ان کا خاتمہ ایمان پر ہوگا؟ یا ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی؟ نہیں ،ہرگز نہیں؟
    اس لئے کہ کل قیامت کے دن صرف دوہی کیمپ ہوں گے ایک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حامیوں کااور دوسرا آپ اکے مخالفین کا، بلاشبہ جو لوگ دنیا میں اپنا وزن نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے دین و شریعت کے مخالفین کے پلڑے میں ڈال رہے ہیں، یا نعوذباللہ! وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے موقف کی بجائے آپ اکے معاندین و باغیوں کے موقف کے حامی ہیں، یا اس سلسلہ میں مصلحت آمیز خاموشی کے مرتکب ہیں ،بلاشبہ کل قیامت کے دن ان کا شمار انہیں میں سے ہوگا اوروہ انہیں کی صفوں میں اٹھائے جائیں گے، کیا کوئی مسلمان، جس کا اللہ، رسول، دین ،شریعت، قرآن، سنت اور ختم نبوت پر عقیدہ ہے، وہ اس کو برداشت کرسکتا ہے، کہ چندروزہ دنیا کے معمولی منافع کے عوض اس کی ہمیشہ،ہمیشہ کی آخرت تباہ و برباد ہوجائے؟ یا وہ اس کے لئے آمادہ ہے کہ اسے جہنم کا ایندھن بنادیا جائے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو اسلام اور پیغمبر اسلام سے محبت و عقیدت اور آپ پر ایمان کا تقاضا ہے کہ دنیا اور دنیاوی مقاصد و منافع کی پروا کئے بغیر ناموس رسالت کی حفاظت و تحفظ کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔
    اس لئے اگرہمارے سیاسی و فکری اور قومی اور لسانی راہنما اور نام نہاد مذہبی پیشوا ہمیں پیغمبر اسلام کے باغیوں یا اعدائے اسلام کی حمایت و تعاون کی طرف مجبور کریں ،توانہیں صاف صاف کہہ دیا جائے کہ ہم معمولی دنیا اور اس کے چند روزہ منافع کے عوض اپنی ہمیشہ ہمیشہ کی آخرت اور اس کے منافع کا سودا نہیں کرسکتے۔
    اس کے علاوہ اپنے آباؤ اجداد اور اکابر و اسلاف کا طرز ِعمل بھی ہمارے سامنے رہنا چاہئے کہ جنہوں نے پھانسی کے پھندے پر چڑھ جانے اورجلتی آگ میں کوئلہ بن جانے کو تو برداشت کیا مگر دنیا پر اپنی آخرت کو قربان کرنا گوارا نہ کیا۔۔

  3. #3
    Fatat-Al-Quraan's Avatar
    Fatat-Al-Quraan is offline Senior Member+
    Last Online
    25th November 2012 @ 02:14 PM
    Join Date
    17 Apr 2009
    Posts
    366
    Threads
    80
    Credits
    920
    Thanked
    27

    Default

    بلاشبہ آج کے جابر و ظالم حکمراں یا نام نہاد سیاسی راہنما اوررقومی ولسانی لیڈر،نہ تو تاتاریوں اور انگریزوں سے زیادہ جابروظالم ہیں اورنہ ہی ان کے مظالم ان سے بڑھ کر ہیں،لہٰذا اگر ہمارے اسلاف و اکابر نے ان کے جبر و تشدد کے سامنے سر نہیں جھکایا تو ہم بھی انہی کے نام لیوا اور ان کی نسبتوں کے حامل ہونے کی بناپر ان کے طرزِ عمل کو اپنائیں،اگرہم نے اپنے اکابرواسلاف کی تاریخ کوپیش نظررکھاتو انشاء اللہ کسی ظالم و جابر کا ظلم و جبر ہماری راہ نہیں روک سکے گا۔
    اگربالفرض اس دینی اور ملی غیرت اور ناموس رسالت کی حفاظت و تحفظ کی پاداش میں ہماری جان چلی بھی جائے تو انشاء اللہ جنت ہماری منتظرہوگی اور نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہمارا استقبال کرے گی، بلاشبہ کسی مسلمان کے لئے اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی کے عوض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور جنت مل جانے کاسودا مہنگا نہیں ، سستا ہے،بلکہ بہت ہی سستاہے۔
    یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ فتنہ قادیانیت نے ہر دور میں کسی نہ کسی بڑے کے کندھے پر سوار ہوکر مسلمانوں کو شکست دینے کی ناپاک کوشش کی ہے، چنانچہ ابتدائی ادوار میں اس نے انگریزی استعمار کے زور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور ان پر مسلط ہونے کی کوشش کی، ہندوستان سے انگریزوں کے جانے کے بعد اس نے انگریزوں کی معنوی اولاد کے دامن عافیت میں پناہ تلاش کرنے کی کوشش کی ،اس لئے کہ یہ ہمیشہ اربابِ اقتدار اور خصوصاً لادین لیڈروں کی ناک کا بال رہے،دوسری طرف انگریزکے پروردہ لیڈروں اورحکمرانوں نے بھی ہمیشہ ان کے خوب خوب ناز نخرے اٹھائے، چنانچہ ۱۹۵۳ء میں سکندرمرزا قادیانی مفادات کا محافظ، ان کا وکیل صفائی اور نفس ناطقہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ۱۹۵۳ء میں قادیانی جارحیت کے خلاف اٹھنے والی تحریک کوسکندرمرزا اور اس کی فورسز کی بے رحم گولیوں سے وقتی طور پر دبا دیا گیا، ٹھیک اسی طرح ۱۹۷۰ء میں انہوں نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی پناہ میں آنے کی کوشش کی اور اپنے قادیانی ووٹوں کی پوری قوت مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی جھولی میں ڈال کر اس کو اپنا ہمنوا بنانے کی سر توڑ کوشش کی، مگر قادیانی ذلت کی تاریخ گواہ ہے، انہوں نے جس سے بھی پینگیں بڑھائیں یا جس نے بھی ان کے ساتھ دست تعاون بڑھایا اس کو ذلت کاسامنا ہوا، چنانچہ سب سے پہلے انگریزی استعمار کا سورج غروب ہوا پھر سکندرمرزا کو اس ملک سے ذلت کے ساتھ رخصت ہونا پڑا ، حتی کہ ا س کوپاکستان میں دفن کے لئے دو گز زمین تک نہ مل سکی۔اسی طرح قادیانیوں کی نحوست سے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کی کشتی ڈوبنے لگی تو اس نے عوام کے سیل بے کراں سے عاجز آکرقادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ کیا، جس سے صاف اور واضح طور پر یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ قادیانی دوستی کبھی کسی کو بھی راس نہیںآ ئی، لہذا جو لوگ قادیانیوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھارہے ہیں یا وہ ان کے وکیل صفائی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ان کو ماضی کے قادیانی سرپرستوں کے انجام بد سے سبق حاصل کرناچاہئے، اس لئے کہ اللہ کی غیرت کبھی براشت نہیں کرتی کہ اس کے نبی کے گستاخوں کی حمایت کرنے والے پھلیں پھولیں، بلکہ جس طرح ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس سے کھیلنے والوں سے اللہ تعالیٰ کا اعلان جنگ ہے، اسی طرح جو لوگ ان کے ہمنوا بننے کی ناپاک کوشش کریں گے وہ بھی اللہ کے غیظ و غضب سے نہیں بچ سکیں گے۔
    اس کے علاوہ قادیانی تاریخ کی ذلت آمیز شکستوں سے بھی یہ بات کھل کر سامنے آجانی چاہئے کہ جب بھی قادیانی امت جارحیت پر اتری ہے اور جب بھی اس نے اپنے ولیانِ نعمت کے کندھے کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو فتح کرنے کے خواب دیکھے ہیں،ہمیشہ ان کی ذلت و شکست کا فیصلہ ہوا۔
    لہٰذا آج اگر قادیانیت پھر سے مردہ سانپ کی طرح سر اٹھانے کی کوشش کررہی ہے تو سمجھنا چاہئے کہ ان کی موت کا وقت قریب ہے اور مسلمانوں کی تھوڑی سی حس و حرکت اوربیداری سے قادیانیت انشاء اللہ مزید پسپا ہونے کو ہے۔
    بنابریں مسلمانوں کو ہمت اور جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھل کر قادیانیت اور اس کے ہمنواؤں کو للکارنا چاہئے، بلاشبہ آج کا دور انگریزی استعمار کے جبر و تشدد اورسکندرمرزا کی سفاکی اور خوں آشامی یا مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سے کوئی زیادہ مشکل نہیں کہ مسلمان منقار زیر پر ہونے کی روش اپنائیں،بلکہ پوری ہمت و قوت سے اس فتنہ اور اس کے سرپرستوں کا مقابلہ کریں،انشاء اللہ فتح و کامرانی ان کے قدم چومے گی

    قادیانیت اور ان کے سرپرستوں کی ذلت کا فیصلہ ہوچکا ہے اور ان کے زوال کا وقت قریب ہے ،لہذا ان کے خلاف بھرپور احتجاج کیا جائے، باغیانِ نبوت اور گستاخانِ رسالت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرکے اپنی دنیا و آخرت سنواری جائے۔ مبادا ہماری اس خاموشی سے ہمارا حشر بھی ان باغیان رسالت اور دشمنان اسلام کے ساتھ ہو۔
    اس لئے ضروری ہے کہ جگہ جگہ جلسے، جلوس، بینر، پوسٹر اور احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں اور اپنا وزن اسلام، شعائر اسلام، تحفظ ناموس رسالت کے پلڑے میں ڈال کر اپنے محمدی ہونے کا ثبوت دیا جائے، اسی طرح علماء امت کی خدمت میں بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے مواعظ، خطبات، دروس اور تقاریر میں اس مسئلہ کی حقیقت واضح کریں اور قادیانی کفر اور ان کی حمایت و تعاون کے بھیانک عواقب و نتائج سے قوم کو آگاہ کریں، اس کے علاوہ صحافیوں،کالم نگاروں اور زندگی کے دوسرے شعبہ جات سے متعلق افراد، سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے حصہ کا کام کریں اور اسلام دشمن قادیانیوں پر واضح کردیں کہ اگر تم اپنے جھوٹے نبی کی جھوٹی نبوت کے لئے یہ سب کچھ کرسکتے ہوتو مسلمان اپنے سچے نبی، سچے دین، سچے مذہب، سچے قرآن اور سچے عقائد کے لئے تم سے کہیں آگے ہیں۔
    نیز مسلمانوں پریہ بھی واضح کیاجائے اورخصوصاََنئی نسل کوباورکرایاجائے کہ تمہار ا سیاسی تعلق خواہ کسی سے بھی ہو،مگرتمہارایہ تعلق تمہارے دین ومذہب کے تابع ہوناچاہیے،اورتمہاری دین ومذہب اورنبی امی ا سے وابستگی تمام دنیاوی اور مادی مفادات سے بالاتر ہونی چاہیے،لہذاجہاں حضورا کی عزت وناموس اورسیاسی وابستگی اوردنیاوی مفادات کاٹکراوٴ ہو،وہاں دینی،ملی غیرت اورحضوراسے دلی وابستگی کے پیش نظر تمہیں سب مفادات سے بالاترہوکر حضورا اورآپ کی عزت وناموس کے تحفظ کواپناناچاہیے۔
    خدا کرے کہ ہماری یہ آواز صدا بصحرا نہ ہو، بلکہ مسلمانوں اور خصوصاً ان بھولے بھالے کارکنوں کے کان کھولنے اور بیداری کا سبب بن جائے جو محض اپنے کسی سیاسی یا لسانی اور قومی راہنما اور لیڈر کی برخود غلط منطق کی بنا پر قادیانی حمایت کا علم اٹھاکر اپنی دنیا و آخرت تباہ کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔واللّٰہ یقول الحق وہو یہدی السبیل۔
    وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین

    بشکریہ : ماہنامہ بینات

  4. #4
    Join Date
    19 Nov 2009
    Location
    GENEVA
    Age
    35
    Posts
    204
    Threads
    1
    Thanked
    7

    Default

    nice sharing brother

  5. #5
    Decent123 is offline Senior Member+
    Last Online
    3rd May 2012 @ 03:54 PM
    Join Date
    01 Jul 2009
    Posts
    527
    Threads
    68
    Credits
    0
    Thanked
    135

    Default

    hmmm

Similar Threads

  1. Replies: 5
    Last Post: 25th January 2017, 12:45 PM
  2. Replies: 6
    Last Post: 9th December 2010, 11:36 AM
  3. Replies: 11
    Last Post: 15th October 2009, 03:27 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •