حکومت نے قومی مصالحتی آرڈنینس کے تحت فائدہ اُٹھانے والے افراد کی فہرست جاری کر دی ہے جن میں صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین بھی شامل ہیں۔
دریں اثناء پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہناہے کہ قومی مفاہمتی آرڈیننس کے تحت فائدہ اٹھانے والے افراد کے ناموں کی فہرست کے منظرعام پر آنے کے بعد ان افراد کو اپنے عہدے سے الگ ہوکر عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے۔
سنیچر کے روز قانون و انصاف کے وزیر مملکت افضل سندھو نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ این آر او سے جس شخصیت نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے ان میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین شامل ہیں جن کے خلاف 72 مقدمات تھے جن میں قتل کے 31 اور اقدام قتل کے 11 مقدمات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آرڈیننس سے فائدہ اُٹھانے والوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری جہانگیر بدر، وزیر دفاع احمد مختار اور وزیر داخلہ رحمان ملک اور امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن بھی شامل ہیں۔
وزیر مملکت نے کہا کہ مجموعی طور پر این آر او کے تحت تین ہزار چار سو سے زائد مقدمات ختم کیے گئے تھے اور ان مقدمات میں مجموعی طور پر آٹھ ہزار اکتالیس افراد نے فائدہ اُٹھایا ہے۔
این آر او کے تحت سب سے زیادہ مقدمات صوبہ سندھ میں ختم کیے گئے جن کی تعداد 3230 ہے جبکہ اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی صوبہ سندھ سے ہے جو 7793 ہے۔
انہوں نے کہا کہ فائدہ اٹھانے والوں میں 34 سیاستدانوں کے علاوہ اور بیورکریٹس اور سفارت کار بھی شامل ہیں۔
افضل سندھو کا کہنا تھا کہ صدر آصف علی زردرای کے خلاف جو درج مقدمات این آر او کے تحت ختم کیے گئے ان میں اثاثہ جات ریفرنس کے علاوہ پولو گراؤنڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے چیئرمین سے کمیشن لینے کا مقدمہ بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کے خلاف بھی این آر او کے تحت مقدمات ختم کیے گئے جن میں مذکورہ جماعت کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کے علاوہ رکن قومی اسمبلی وسیم اختر اور سابق رکن قومی اسمبلی کنور خالد یونس بھی شامل ہیں۔
وزیر مملکت نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کے خلاف تئیس مقدمات تھے جن میں پانچ قتل کے مقدمے تھے۔ اسی ایم کیو ایم کے ایک اور وزیر بابر غوری کے خلاف چار مقدمے تھے۔ ان کے مطابق ایم کیو ایم کے صوبائی وزیر شعیب بخاری کے خلاف قتل کے تیرہ مقدمات تھے جو سب این آر او کے تحت ختم ہو چکے ہیں۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ این آر او کو سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں اٹھائیس نومبر تک تحفظ حاصل ہے جس کے بعد عدالت جو بھی فیصلہ دے گی اس کو من وعن تسلیم کیا جائے گا۔
افضل سندھو کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہی این آر او کو اسمبلی میں لے کر آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ این آر او کے بارے میں دو درخواستیں ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت ان درخواستوں پر جو بھی فیصلہ دے گی حکومت نہ صرف اُس کو تسلیم کرے گی اور اگر عدالت نے حکومت میں شامل لوگوں کے خلاف فیصلہ دیا تو حکومت اُن افراد کو تحفظ فراہم نہیں کرے گی۔
این آر او سے فائدہ اُٹھانے والے دیگر سیاست دانوں میں بندرگاہوں کے وفاقی وزیر بابر غوری، گورنر سندھ عشرالعباد، شعیب بخاری، عمران فاروق، انور سیف اللہ، سراج دورانی، مشتاق اعوان، گُل شیر، حاجی نواز کھوکھر، رانا نذیر احمد، ولی الرحمن ، یوسف تالپور، پیر مکرم، طارق انیس، حاجی کبیر، چوہدری ذوالفقار علی، چوہدری شوکت علی، میاں رشید، سردار مقصود احمد خان لغاری اور میر باز کھیتران شامل ہیں۔ این آر او سے فائدہ اُٹھانے والوں میں پاکستان کی انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ برگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز احمد بھی شامل ہیں۔
اس آرڈیننس کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی شامل ہیں۔
این آر او سے مستفید ہونے والوں میں صدر آصف علی زرداری کے پرنسپل سیکرٹری سلیمان فاروقی کے علاوہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے مشیر سعید مہدی بھی شامل ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف مقدمات این آر او کے تحت ختم نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے مقدمات عدالت میں ختم ہوئے تھے جبکہ ان کی اہلیہ نے بھی این آر او سے فائدہ نہیں اُٹھایا تھا اور ان کا معاملہ عدالت میں ہی طے پاگیا تھا۔
افضل سندھو کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مقدمات سیاسی مخالفت کی بنا پر درج کیےگئے تھے جبکہ دس سال کے دوران بدعنوانی کے صرف ایک مقدمے کا فیصلہ ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت این آر او کے مقدمات کا سامنا عدالتوں میں کرے گی۔
فہرست میں شامل چند نام
بندرگاہوں کے وفاقی وزیر بابر غوری، گورنر سندھ عشرالعباد، شعیب بخاری، عمران فاروق، انور سیف اللہ، سراج دورانی، مشتاق اعوان، گُل شیر، حاجی نواز کھوکھر، رانا نذیر احمد، ولی الرحمن ، یوسف تالپور، پیر مکرم، طارق انیس، حاجی کبیر، چوہدری ذوالفقار علی، چوہدری شوکت علی، میاں رشید، سردار مقصود احمد خان لغاری اور میر باز کھتران شامل ہیں۔ این آر او سے فائدہ اُٹھانے والوں میں پاکستان کی انٹیلیجنس بیورو کے سابق سربراہ برگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز احمد بھی شامل ہیں۔
Bookmarks