ایران کی بڑے پیمانے پر فضائی مشقیں
ایران نے پانچ روزہ جنگی مشقیں شروع کر دی ہیں جن کا مقصد ممکنہ اسرائیلی فضائی حملے سے ملک کی جوہری تنصیبات کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کو ٹیسٹ کرنا ہے۔
ایران کے ایئر ڈیفنس کے سربراہ نے کہا کہ ان مشقوں کو مقصد فضائی حملے اور فضائی نگرانی کے خطرے سے نمٹنا ہے۔
تہران میں ایک اور اعلیٰ عہدے دار نے خبردار کیا کہ ایران کے جوہری اثاثوں پر اسرائیل کی طرف سے فضائی حملے کی صورت میں اس کا بھرپور جواب دیا جائے اور تل ابیب کو مزائیلوں سے نشانہ بنایا جائے گا۔
ایران پر اس کے جوہری پرواگرام کے حوالے سے شدید عالمی دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ناقدین کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے باز رکھنے کے لیے فضائی حملے کے امکان کو رد نہیں کیا گیا ہے۔
ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
ایران کی ایئر ڈیفنس کے سربراہ بریگیڈیئر احمد میگہانی نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ان جنگی مشقوں میں چھ لاکھ مربہ کلو میٹر کے علاقے کا احاطہ کیا جائے گا اور اس کا مقصد ایران کی دفاعی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ فضائی حملے کے تحت ان پر لازم ہوتا ہےکہ وہ ان حساس تنصیبات کی حفاظت کے لیے تیار رہیں۔
دریں اثناء صدر محمود احمدی نژاد کے ایک مشیر مجتبیٰ ذالنور نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے حملے کی صورت میں بھرپور جواب دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا اگر دشمن نے حملہ کیا تو ہمارے میزائیل تل ابیب پر گریں گے۔
ایران کے پاسدارن انقلاب کے فضائی حصے کے سربراہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے اگر ایران پر حملے کی کوشش کی تو انہیں تباہ کر دیا جائے گا۔
امیر عالی حاجیزاد نے کہا کہ ایرانی فضائی دفاعی نظام اسرائیل کے ایف سولہ اور ایف پندرہ طیاروں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ طیارے حملے کے بعد واپس اپنے اڈوں پر پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گئے تو ان اڈوں کو زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائیلوں سے نشانہ بنایا جائے گا۔
یہ جنگی مشقیں ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب سلامتی کونسل کے مستقل ارکان برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ اور ان کے علاوہ جرمنی تہران پر زور ڈال رہے ہیں کہ وہ اس پیش کش پر دوبارہ غور کرے جس کے تحت ایران کے کچھ یورینیم کو افزودگی کے لیے ملک سے باہر بھیجنے کی تجویز دی گئی تھی۔
یہ پیش کش اقوام متحدہ کے جوہری توانائی سے متعلق ادارے کی طرف سے ایران کو کی گئی تھی اور اس کے تحت ایران کے ستر فیصد یورینیم کوافزودگی کے لیے یا تو روس یا فرانس بھیجنے کی تجویزدی گئی تھی جہاں ان کو ایندھن کی راڈز میں تبدیل کرکے جوہری ریکٹرز میں استعمال کے قابل بنایا جانا تھا۔
اس نظام کے تحت ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے یورینیم کو افزودہ کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔
لیکن ایران نے اس پیش کش کو رد کر دیا ہے اور اس بارے میں یقین دہانی طلب کی ہیں۔
Bookmarks