ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی ، ذرا پھر سے کہنا
بڑی دلربا ہے یہ ساری کہانی ، ذرا پھر سے کہنا
کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا ، نہیں دیکھ پایا
کہ راستے میں تھی آنسوؤں کی روانی ، ذرا پھر سے کہنا
ہوا یہ خبر تو سناتی رہی ، میں سنتا رہوں
بدلنے کو ہے اب یہ موسم یہ خزانی ، ذرا پھر سے کہنا
مُکر جانے والے کبھی زندگی میں، خوشی پھر نا پائے
یونہی ختم کر لے ، چلو یہ کہانی ، ذرا پھر سے کہنا
سمے کے سمندر ! کہا تو نے جو بھی ، سنا ، پر نا سمجھے
جوانی کی ندی ، میں تھا تیز پانی ،ذرا پھر سے کہنا
(Amjad Islaam Amjad)
Bookmarks