Results 1 to 2 of 2

Thread: Raja gid

  1. #1
    Laique Shah is offline Senior Member
    Last Online
    24th August 2009 @ 07:21 PM
    Join Date
    05 Feb 2007
    Location
    ITDunya
    Posts
    3,212
    Threads
    109
    Thanked
    0

    Default Raja gid


    مجھے یہ تحریر پسند آئی


    رزق حرام سندھ کے طاس میں اس جگہ جہاں اب رانی کوٹ کا بے آباد قلعہ ہے۔ یہاں خشک تال تھے جن کے اردگرد چھدری ڈاڑھی کی طرح درختوں کا سلسلہ تھا۔ ناریل اور پپیتے کے درخت تھے۔ یوکلپٹس کے خوشبو دار اور بلند قد ایسے درخت تھے جن میں جب سمندری ہوائیں چلتیں تو قد آدم گھاس اور ان درختوں میں چھپے ہوئے پوکھروں کی خود روئیدگی آہستہ آہستہ ہلنے لگتی اور خوشبو دار ہو جاتی۔ ہواؤں میں نمی اور تالابوں کے ٹھہرے پانیوں میں گنے کے باسی رس کی خوشبو تھی۔ سارے میں نیند کا تعویذ دفن تھا۔ مورفیا کی بھول بھلیاں تھیں۔ ایل ایس ڈی کے خواب تھے۔ اس بار چیل جاتی نے کانفرنس سے بہت پہلے جنگل کے تمام پرندوں کو اپنا ہم زبان بنا لیا۔ وہ بھاری اکثریت سے جیت جانے کی امید لے کر آئے تھے۔ کالی کلیچی مہر لاٹ قاز ممولے، جنگلی تیتر سب چیلوں کی ٹکڑیوں میں گھسے بیٹھے تھے اور جانتے تھے کہ اس بار راجہ گدھ اور اس کے ہم مشربوں کو ضرور جنگل بدر کا حکم مل جائے گا۔ راجہ گدھ کو اپنی وکالت کے لئے وکیل ڈھونڈنے میں بڑی مشقت کرنا پڑی تھی۔ ریڑھ والے جانور اس کی باتوں کو دیوانہ پن سمجھتے۔ رینگنے والوں کے پاس پہنچا تو وہ اس کی بات نہ سمجھ سکے۔ تھک ہار کر اس نے گیدڑ کو اپنی پیروی پر رضا مند کیا تھا لیکن اتنے انتظار کے باوجود ابھی تک گیدڑ چوپال میں نہ پہنچا تھا۔ اب تو راجہ گدھ کے کٹھ میں بھی چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔ جس وقت سیمرغ کی سواری آئی۔ سارے میں آندھی چلی۔ لال آندھی جس میں چھوٹے چھوٹے کنکر سرخ مٹی اور سوکھے پتے تھے۔ پھر بڑ کے جٹا دھاری درخت پر جیسے بجلی گری۔ تمام جنگل سفید ہو گیا اور پرندوں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس کے بعد سارے میں امن اور شانتی پھیل گئی۔ سیمرغ نے تین بار اپنے تن کی فاسفورس جیسی بتی بجھائی اور سوال کیا ” کیا ملزم حاضر ہے “۔ ” حاضر ہیں آقا ۔ ۔ ۔ ۔ اور حکم کے منتظر ہیں ۔ “ راجہ گدھ نے کہا۔ ”تجھے اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہو تو کہہ ؟ “ راجہ گدھ نے لجاجت سے نظریں جھکا کر کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ” گیدڑ میرا وکیل ہے آقا ۔ ۔ ۔ وہی کچھ میری ترجمانی کر سکتا ہے۔ “ سارے جنگل میں خاموشی چھا گئی اور جنگل پار سے سانپوں کے پھنکارنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ ” پھر نکال اپنے وکیل کو ۔ ۔ ۔ ۔ کہاں ہے وہ ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ “ چیلوں کی ملکہ بولی۔ راجہ گدھ نے دور تک نظر دوڑائی اور لجاجت سے بولا ۔ ۔ ۔ ” آقا ہمیں کچھ مہلت دے تاکہ ہمارا وکیل پہنچ جائے اور ہماری بے بسی پر روشنی ڈال سکے۔ اگر قصور ہمارا نکلا تو یقین رکھ ہمیں حکم کی ضرورت نہ ہو گی۔ ہم خود جنگل چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ اللہ کی مخلوق کے لئے یہ کرہ ارض تنگ نہیں ہے۔ ہمیں کہیں نہ کہیں جگہ مل جائے گی “۔ چیلوں کو معلوم تھا کہ وہ عوام کو رام کر چکے ہیں اور گدھوں کی پشت پناہی کے لئے کوئی بھی تیار نہیں حتیٰ کہ مینا بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ ایک چیل نے تنک کر کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ” اے راجہ گدھ ہم اس وقت تک تیرا انتظار نہیں کر سکتے جب تک دوسری بار بنی نوع انسان تہذیب یافتہ ہو کر دوبارہ ایسا بم بنائے جو ایک ہی سانس میں میلوں تک بستیاں کھا جائیں ۔ ۔ ۔ ۔ نکالنا ہے تو اب حاضر کر اپنے وکیل کو ۔ “ اس وقت حبشہ کے دیس کی ایک بوڑھی گدھ بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ” سیمرغ ! ہمارے وکیل پر جانوروں کا بہت دباؤ ہے جانور اس معاملے سے الگ تھلگ رہنا چاہتے ہیں۔ ان کو خوف ہے کہ اگر جنگل بدر کی رسم پرندوں میں رواج پا گئی تو رفتہ رفتہ جانور بھی کوئی نہ کوئی الزام لگا کر جلا وطن کا طریقہ رائج کر دیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گیدڑ کو روک رہے ہیں ۔ ۔ ۔ کہ پرندوں کے معاملے میں دلچسپی نہ لے لیکن ہمارا وکیل ارادے کا پکا ہے، آتا ہی ہو گا “۔ اس وقت سرخاب نے پر جھاڑے اور توقیر سے بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ” عالی جناب کچھ پرندوں کا خیال ہے کہ جنگل بدر کی سزا مناسب نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ جو جنگل کے لئے پیدا ہوئے ہیں انہیں یہیں رہنا چاہئے جو پانی کے باسی ہیں ان کے لئے پانی افضل مقام ہے۔ اگر ہم اللہ کے بنائے ہوئے قانون میں دست درازی کریں گے تو وہ کسی نہ کسی عذاب کی شکل میں ہمیں سزا ضرور دے گا اور ہماری کئی ذاتیں ایسے معدوم ہو جائیں گی جیسے پرانے زمانے کے پہاڑ پیکر جانور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ چیلوں کی ملکہ طمطراق سے سارے میں گھومی اور چلّا کر کہنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ ان پرندوں کی نشاندہی کی جائے جو اس طرح سوچتے ہیں۔ ہم ان سے بحث کرنا چاہتے ہیں ۔ “ سرکاری وکیل نے جزبز ہو کر کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ” افسوس ان کمزور پرندوں کا نام نہیں لیا جا سکتا۔ رازداری میں بتائی گئی بات کو افشا کرنا میرا منصب نہیں۔ “ اس بات پر چیلوں کی ٹکڑی میں پھڑکانے کی صدائیں بلند ہوئیں اور بھانت بھانت کی چہکار سے خشک تال گونج اٹھا۔ تھوڑی دیر بعد سرخاب نے مجمع کو کنٹرول کر کے کہا ۔ ۔ ۔ ” اور کچھ پرندوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جونہی گدھ جنگل سے باہر نکلے، یہ شہروں میں رہیں گے پھر انسان ان کو بھی ویسے ہی استعمال کرے گا جیسے صدیوں سے وہ گدھے گھوڑے بیل اور دودھ دینے والے جانوروں کو زیر استعمال لاتا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ انسان تک ہمارے وہ تمام راز پہنچ جائیں گے جو آج تک محفوظ ہیں، وہ ضرور پرندوں کی بولی سیکھ لے گا ۔ “ تترانیا کا کیسری میکاؤ اٹھا اور مودب لہجے میں بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ” جنگل والے خواہ مخواہ انسان سے خائف ہیں۔ ہم آبنوسی انسانوں میں رہتے ہیں وہ بڑی شرافت سے ہمارے ساتھ گزر بسر کرتے ہیں۔ آقا کرگس جاتی اگر شہروں کو جاتی ہے تو جانے دے ہمیں فکر نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اول و آخر انسان ہی اللہ کا خلیفہ ہے اور ہم سے زیادہ جانتا ہے۔ “ سیمرغ نے تین بار فاسفورس کی بتی بند کی اور گویا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ “ تو ٹھیک کہتا ہے میں جانتا ہوں صرف انسان ساکن ہے۔ کائنات کی باقی تمام اشیاء متحرک ہیں کیونکہ انسان مطلوب ہے اور باقی ہر شے طالب ۔ ۔ ۔ ۔ افسوس انسان نے اپنے آپ کو مطلوب کی جگہ سے ہٹا کر طالب بنا لیا ہے اسی لئے گردش میں ہے ورنہ وہ اس قدر دیوانے پن کا شکار نہ ہوتا اور اب تک اللہ کی رضا کو پا لیتا ۔ “ اس وقت چیل جاتی کے ایک حواری سارس نے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ “ آقا ! انسان طالب ہو یا مطلوب ۔ ۔ ۔ ۔ متحرک ہو کہ ساکن ۔ ۔ ۔ ۔ فرزانہ ہو کہ دیوانہ ۔ ۔ ۔ ۔ نجات کو پہنچنے والا ہو کہ تباہی سے ہمکنار ہونے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کو انسان سے غرض ! ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کے گرد گھوم کر ہمیں کچھ حاصل نہ ہو گا ۔ “سمیرغ نے قہقہہ لگایا۔ ناریل کے درخت اس قہقہے سے لرزنے لگے۔ ” سنو اس احمق کی بات سنو ۔ ۔ ۔ ۔ بیوقوف اس کائنات کے جو بھی فیصلے ہوتے ہیں اور جو بھی فیصلے ہوں گے،کسی نہ کسی طرح آخر میں انسان ان سے متاثر ہوتا ہے یا انہیں متاثر کرتا ہے ۔ “ اس وقت گیدڑ تال میں ایسے اترا جیسے شیر سرکس کے پنجرے میں حاضر ہوتا ہے۔ سارے میں سناٹا چھا گیا۔ گیدڑ نے اپنی گھپے دار دم کے ساتھ تین بار کورنش ادا کیا اور پھر بڑ کے درخت کی طرف چہرہ کر کے گویا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ” اے پرندوں کے بادشاہ ! میں صورت حال سے اچھی طرح واقف نہیں کہ جو کچھ مجھ تک پہنچا وہ ملزم کی زبانی تھا۔ اس یکطرفہ بیان پر اکتفا نہیں کر سکتا۔ اگر واضح اور مختصر الفاظ میں مجھ تک راجہ گدھ اور ان کی برادری کا قصور بیان کر دیا جائے تو میں دفع الزام کی کوشش کروں “۔ چیل ملکہ نے جلال میں آ کر کچھ کہنے کو زبان کھولی لیکن سرخاب نے اسے روکا اور بیان کیا۔ ” سن گیدڑ ! ۔ ۔ ۔ ۔ اس روئے زمین پر چرند پرند حیوان انسان سب خیر و برکت سے رہتے تھے۔ صرف انسان فتنے سے خالی نہیں۔ اس نے اپنی عقل سے اپنے آپ کو متمدن کیا اور پھر اسی عقل کا سہارا لے کر ایسے ہتھیار ایجاد کئے جس سے بستیاں اجاڑ، مرغزار تباہ اور اللہ کی زمین پر فساد پھیلا ۔ ۔ ۔ ۔ چیلوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ انسان دیوانہ ہے اور اس کی دیوانگی کا یہ اقتفا ہے کہ وہ اپنی ہی نسل کو نیست و نابود کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ ” سانپ کی طرح کہ خود ہی بچہ جنے اور خود ہی کھا جائے ۔ “ چیل ملکہ بولی۔ ” چیلوں کو ڈر ہے کہ گدھ پر بھی دیوانگی کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ وہ نہ ہو کہ یہ بھی جنگل کے باسیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرے ۔ ۔ ۔ ۔ اس لئے چیل ملکہ دعویٰ دار ہے کہ راجہ گدھ اور اس کی برادری کو جنگل بدر کا حکم سنایا جائے ۔ “ گیدڑ نے پنجے سے اپنی ناک کھجائی اور تحمل سے بولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” کیا تو وضاحت کر سکتا ہے کہ دیوانگی کیا چیز ہے ؟ “ سرخاب نے مدد طلب نظروں سے ملکہ چیل کی طرف دیکھا۔ ملکہ چیل بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ” ہاں دیوانگی کی کچھ علامتیں ہیں۔ جو ذی روح اپنے آپ کو یا اپنے ہم جنسوں کو خود ختم کرنے کی کوشش کرے وہ دیوانہ ہوتا ہے ۔ “ گیدڑ نے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ” تو کیا گدھ خودکشی کا یا پھر قتل کا مرتکب ہوا ؟ “ چیل جاتی میں تھوڑا سا خوف پھیل گیا۔ ” ابھی نہیں ابھی آغاز ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی گدھ دیوانگی کے انجام کو نہیں پہنچا۔ ابھی چاند راتوں میں پچھلے پہر یہ تالوں میں آوارہ پھرتا ہے۔ ایسی آوازیں حلق سے نکالتا ہے جیسے تپے ہوئے لوہے پر پانی کے چھینٹے ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دیوانگی کا آغاز ہے فاضل جج دیکھے گا کہ بہت جلد راجہ گدھ اس انتہا کو پہنچنے والا ہے۔ یہاں پہنچ کر آج کے انسان نے اپنے ہم جنسوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کوئی طاقت اسے جنگل کے جانوروں کو ختم کرنے سے نہیں روک سکے گی ۔ “ ” کیا یہ گدھ ہمیشہ سے دیوانہ تھا ؟ “ ” نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلے یہ ایسے نہیں رہتا تھا جیسے اب رہتا ہے۔ اس کی اڑانیں بھی تھکا دینے والی تھیں اور یہ بھی رزق حلال کھاتا تھا لیکن اس نے کہیں چوری چوری رزق حرام کا تصور انسان سے سیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان حیلہ جوئی اور مکر سے کماتا ہے، بھائی کا حق غصب کرتا ہے، اپنوں کی دشمنی میں غیروں سے مل کر کماتا ہے، صلہ رحمی کا خیال نہیں کرتا، ہر آنے والے مال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، بانٹ کر نہیں کھاتا بلکہ چھین کر کھاتا ہے جو کھا نہیں سکتا اسے کتے کی طرح چھپا کر رکھ چھوڑتا ہے۔ حرام روزی کے انسان کو اتنے گر آتے ہیں جتنے گھونسلے بنانے کے طریقے ہمیں یاد ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ انسان پہلے رزق حرام سے واقف نہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہی راجہ گدھ کو اس کا علم تھا ۔ “ بھوری لم ڈوری جو طبعاً غبی تھی چلّائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” بتا بتا کیسے کیسے واقف ہوا ۔ “ سرخاب اٹھا اور خطیب کی طرح گویا ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ” صاحبو ! رزق حلال کا مسئلہ اولاً جنت میں طے ہو چکا ہے۔ پہلے بابا آدم اور اماں حوا حفظ و اماں سے جنت میں رہتے تھے اور بموجب حکم الٰہی بہشتی لباس پہنتے تھے۔ اس وقت ان پر بہشت کا ہر میوہ، جنت کا ہر پرندہ ہر جانور حلال تھا لیکن وہ حرام کھانے کے مرتکب ہوئے۔ حرام کیا ہے ؟ وہ جس سے منع کر دیا جائے۔ حضرت آدم نے وہ گندم کا دانہ کھایا جس کی ممانعت کی گئی تھی۔ پہلی بار ان کے جسم میں منفی لہریں داخل ہوئیں۔ اب تک ان کی سرشت صرف نیکی کی طرف راغب تھی، اب اس میں تضاد شامل ہوا ۔ “ ” اس بات سے تیرا کیا مطلب ہے سرخاب وضاحت کر ۔ ۔ ۔ ۔ “ چنڈول بولے۔……(جاری ہے )
    کتاب کا نام:…راجہ گدھ مصنفہ :… بانو قدسیہ ا

  2. #2
    raja51481's Avatar
    raja51481 is offline Senior Member+
    Last Online
    10th September 2016 @ 12:19 PM
    Join Date
    18 Oct 2015
    Location
    lahore
    Age
    46
    Gender
    Male
    Posts
    324
    Threads
    11
    Credits
    1,037
    Thanked
    6

    Default

    thank

Similar Threads

  1. i am raja
    By raja51481 in forum Introduction
    Replies: 3
    Last Post: 10th November 2015, 08:44 PM
  2. raja shahid
    By rajashahid in forum Introduction
    Replies: 4
    Last Post: 13th April 2014, 11:55 AM
  3. raja
    By qasim_raja in forum Introduction
    Replies: 18
    Last Post: 23rd January 2010, 01:15 AM
  4. Aik tha Raja aik thi Rani
    By mastermindcs in forum Tanz-o-Mazah
    Replies: 5
    Last Post: 19th June 2009, 03:52 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •