ممتا کا جزبہ تھا یا عورت کی طاقت
ہماری زندگی میں کھبی کھبی ایسے واقعات ہوتے ہیں جن سے یاں تو ہمت بلکل ہی ٹوٹ جاتی ہے.یاپھر زندگی کو جینے کا ایک اور بہانہ مل جاتا ہے.
آج سکینہ کے خاوند کو ملک سے باہر گئے دوسرا دن تھا.سکینہ گھر کے کاموں میں مصروف تھی.اس بات سے انجان کے اُس کے سُسرال والے اُس کے لئے ایک سازش تیار کر رہے ہیں.جس گھر میں ابھی سب بیٹھے تھے.سکینہ اُس ہی گھر کی مالکن تھی.وہ گھر لاہور کے شہر میں تھا.سکینہ کی ماں کا گھر سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں تھا.
سکینہ کے دیور نے اپنی ماں اور ایک بہن کے ساتھ مل کر یہ سازش کی کہ وہ آج کسی بہانے سے سکینہ کو اُس کے چھ بچوں سمیت گھر سے نکال دیں گے.خاوند توسر پر ہے نہیں ابھی.اور اس کی بوڑھی ماں بھی کونسا آنے والی ہے جلدی.سکینہ دوپہر کا کھانا بنا چُکی تو ساس کو کمرے سے بُلانے کے لئے گئی.ہنڈیاں میں نند نے آکر نمک اور ڈال دیا تاکہ بات شروع کرنے کا بہانہ مل سکے.بس ساس کا نوالہ مُنہ تک لے کر جانے کی دیر تھی کہ ساس نے سکینہ کو مارنا شروع کر دیا اور بات بڑھاتے بڑھاتے اتنی اگے لے گئے کہ سکینہ کو اُس کے بچوں سمیت گھر سے نکال دیا.اب سکینہ بے آسرا کھڑی اپنے ڈرے ہوئے بچوں کوچُپ کرا رہی تھی. خود کے آنسو رکتے نہ تھے.مگر اپنے بچوں کی خاطرخود کو سمبھالا.ویسے یہ حالات کوئی پہلی بار نہ تھے.یہ سلسلہ تب سے چل رہاتھا جب سے اُس کا سُسر فوت ہوا تھا.اور اب اُس کا اس گھر میں ایک ہی ہمدرد تھا اُس کا خاوند.مگر پردیس کی دوری کی وجہ سے اُس کو تو یہ بھی نہ معلوم تھا کہ اُس کی بیوی اور بچے اس وقت سڑک پر کھڑے ہیں.سکینہ نے ایک بار تو کسی گاڑی کے نیچے آجانا مناسب سمجھا پر اللہ اور اُس کے رسول کے حکم کے خلاف جانے کی اُس کی جرات نہ ہوئی.
اپنے بچوں کو ساتھ لئے پیدل سیالکوٹ کی طرف چلنے لگی.پیسے نام کی کوئی چیز تواُس کے پاس تھی نہیں اس لئے یہ خاندان بھوکا پیاسا لمبی سنسان سڑک پرچلتارہا.یہاں تک کے رات سر پر آن کھڑی ہوئی.سکینہ سے اپنے بچوں کی بھوک اور پیاس کا عالم دیکھا نہ جاتا تھا دل ہی دل میں خون کے گھونٹ پیتی تھی اوربچوں کو اللہ کے فرشتوں کی کہانی سُناتے چلتی جاتی تھی.رات کو گہرا پاکر راستے پر آنے والے ایک قبرستان میں رات گزارنے کی سوچی.بچوں کو قبرستان میں چلنے کے لئے کہا.بچے ڈر رہے تھے.پر سکینہ نے بچوں کو سمجھایا کہ مسلمان کو کوئی جن بھوت نہیں پکڑتا ہاں بُرے لوگوں کو بھوت ستاتے ہیں.اور اگر تم کو کوئی بھوت دکھے یا ڈرائے تو اُس کو کلمہ سُنا دینا وہ تم سے ڈر کر بھاگ جائے گا.بچوں نے کھبی بھی اپنی ماں کو جھوٹ کہتے نہ سُنا تھا اس لئے ماں کی باتوں سے ایک اعتماد پا کر قبرستان میں رات گُزارنے چلے گے. سکینہ نے اپنی سر کی بڑی چادر زمین پر بچھا دی اور سب بچوں کو سُلا دیا.اور خود آسمان کو اپنی چادر بنا کر اللہ کے حضور رونے لگی.روتے روتے اُس کا دل کب ھلکہ ہو گیا اور زندگی کی رمق جاگ گئی اُس کو خود کو پتہ نہ چلا.صبح کے چھ بجے بچوں کو اُٹھایا اور پھر سے اپنے سفر پر نکل پڑی.اب وہ سیالکوٹ میں داخل ہو چُکی تھی.اپنے گاؤں میں جیسے ہی پہنچی لوگ اُس کو ایسی حالت میں دیکھ کر حیران رہ گئے.اور اُس کو اُس کے گھر تک لے گئے. سکینہ نے سارا قصہ اپنی ماں کو کہہ سُنایا.سکینہ کی ماں نے حوصلہ دیا اور کہا کہ سوائے اللہ کے اور کسی میں طاقت نہیں کسی کو برباد کرنے کی.تم صبر رکھو اللہ بہتر کرے گا.
سات ماہ بعد سکینہ کا خاوند پاکستان واپس آگیا.گھر والوں سے پتہ چلا کہ سکینہ گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے.پر سارا محلہ سکینہ کی بے قصوری کا گواہ تھا.سب نے اُس کو سہی بات سے آگاہ کیا.اُس کا خاوند بھاگا بھاگا سکینہ کے گھر گیا.وہاں اپنے بچوں اور بیوی کو سہی سلامت دیکھ کر اُس کی جان میں جان آئی.میاں نے سکینہ کو وہی رہنے کو کہا اور واپس پردیس چلا گیا دو مہینے کی کمائی لے کر واپز لوٹا.سکینہ کو گھر لے کر دیا اور اپنی زندگی کے شریک حیات کو پھر کوئی غم نہ دیا.
دوستو یہ بہادر عورت میری ماں تھی.اب اس دُنیا میں نہیں ہیں.ایک عورت اگر اپنی زندگی کا اتنا مشکل مرحلہ اتنی جانبازی سے پار کر سکتی ہے تو ہم سب کیوں نہیں.مجھے اپنی زندگی کا جو لمحہ مشکل لگتا ہے تو اپنی ماں کے یادوں کو یاد کر کے حوصلہ بڑھ جاتا ہے.
اُمید ہے کہ میری یہ آپ بہتی آپ سب کے لئے ایک حوصلے کا پیغام ہو گا.
شُکریہ
سُلطانہ مُصطفیٰ
Bookmarks