لاہور : پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے جہاں معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے، وہاں عوام کی بڑی تعداد کو ذہنی امراض میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر بار چھوڑنے اورانجانے شہرمیں منتقل ہونے والوں کو قبائلی اور صوبہ سرحد کی مخصوص روایات کی وجہ سے معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ قبائلی ہو یا سرحد، پختون روایات کے تحت خواتین کو گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن جب انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے گھربار چھوڑ کر انجانے شہر میں رہنا پڑتا توانہیں علاقے چھوڑنے اورعدم تحفظ کی وجہ سے شدید ذہنی دباو کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ دوسری جانب قبائلی علاقوں اورصوبہ سرحد میں خودکش حملوں اوربم دھماکوں نے بھی عام لوگوں کا سکھ چین تباہ کردیا ہے۔ ایسے میں بعض لوگ نفسیات کے ماہرین سے رابطہ کرتے ہیں جبکہ اکثریت ازخود خواب آور ادویات خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ معروف ماہرنفسیات ڈاکٹر محمد عرفان اللہ کہتے ہیں : ”پختون روایات کی رو سے ایک قبیلے کا فرد دوسرے قبیلے کے علاقے میں چلاجاتا ہے تو ان کی وہاں وہ عزت نہیں ہوتی۔ آئے روز بم دھماکوں کی وجہ سے مالاکنڈ اور وزیرستان سمیت پشاور میں بھی لاکھوں لوگ دربدر ہیں یہ لوگ جب دوسرے محلے میں جاتے ہیں تو ان کی عزت نفس محروج ہوتی ہے اب اگر ایک محلے سے دوسرے محلے میں جانے پر ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو تو وزیرستان اور مالاکنڈ سے آکر یہاں رہنے کے لئے آنے والوں کے مسائل کااندازہ کوئی نہیں کرسکتا انہیں سوشل مسائل کے ساتھ ساتھ ذہنی مسائل کا بھی سامنا کرناپڑتاہے۔“ پشاورکے ایک کیمسٹ اسراراللہ کا کہناہے : ”روزانہ درجنوں ایسے لوگ آتے ہیں جو خواب آور ادویات طلب کرتے ہیں اور کچھ عرصہ سے خواب آور ادویات کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ لوگ خودآکر خریدتے ہیں۔ ان کے پاس ڈاکٹر کا کوئ نسخہ نہیں ہوتالیکن ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ادویات فروخت نہ کرنے کے قوانین کو پاکستان میں کوئی بھی خاطر میں نہیں لاتا۔“ دہشت گردی کی زد میں آنے والے پاکستان کے قبائلی اور سرحد کے عوام کو پہلے اپنے کاروبار اورملازمت کی فکر لاحق تھی جبکہ اب دھماکوں اور خودکش حملوں میں اضافے نے انہیں بچوں کی زندگی اوردھماکوں کے زد میں آنے کے خوف نے بھی گھیر لیا ہے۔ ڈاکٹر عرفان اللہ کا کہنا ہے : ”دس سال قبل لوگ غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے ڈپریشن میں مبتلا ہوتے تھے لیکن گزشتہ ایک دھائی سے ہمارے مشاہدے میں نئی چیز آئی ہے کہ آنے والے لوگوں کو زندگی کھو جا نے کا خوف ہوتاہے یہ لوگ خاص طور پر بچوں کے مستقبل کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں۔ پہلے روزانہ تین چار مریض آتے تھے مگر اب کلینکس کے باہر ایسے لوگوں کی قطاریں لگی ہوتی ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کے پاس دوائی خریدنے کے لئے پیسے بھی نہیں ہوتے، جن حالات سے ہمارے فرنٹیئر اور قبائلی علاقوں کے لوگ گذر رہے ہیں، ایسے میں لوگ زندگی سے بے زار ہوجاتے ہے اورہمارے پاس آنے والے لوگ زندگی سے بے زار دکھائی دیکھتے ہیں ان پر اب ہماری تجویز کردہ ادویات کا بھی اتنا اثر نہیں ہوتا انہیں بہتر ماحول فراہم کرنا ہی ان کا علاج ہے۔“ جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے باعث عوام کچھ ایسے ہی مسائل کا شکار ہیں
Bookmarks