Page 8 of 8 FirstFirst ... 5678
Results 85 to 96 of 96

Thread: 100 Mashoor Zaheef Ahadees~~,

  1. #85
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Thumbs up

    Zaeef hadees no 96
    Attached Images Attached Images  
    سیگنچر میں آئی ٹی دنیا کے لنک علاوہ کسی اور ویب سائٹ کے لنک کی اجازت نہیں
    شکریہ
    آئی ٹی دنیا ٹیم

  2. #86
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    Zaeef hadees no 97
    Attached Images Attached Images  

  3. #87
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    Zaeef hadees no 98
    Attached Images Attached Images  

  4. #88
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    Zaeef hadees no 99
    Attached Images Attached Images  

  5. #89
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    Zaeef hadees no 100
    Attached Images Attached Images  

  6. #90
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default Zaeef Aur Mauzo Ahadees Ka New Sisilla>>

    asslamaolikum Wbk
    Dosto Mien Nay Socha K In 100 Mashoor Zaeef Ahadees K Elawa B Mazeed Zaeef Ahadees Paish Ki Jian Ta K Hum Loog Kisi Zaeef Hadees Ki Waja Say Apna Aqeeda Hi Tabah Na Kar Lian::isi Silsila Ko Jari Rakhtay Howay Inshallah Ab Mazeed Zaeef Aur Mangharat Rawayaat Biyan Ki Jian Ge...

  7. #91
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Thumbs down حديث ( من زارقبری بعدمماتی فکانما زارنی فی 

    دارقطنی ( 2 / 278 ) نےحاطب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    جس نے میری موت کے بعدزیارت کی گویا کہ اس نے میری زندگی میں میری زيارت کی ہو ۔ الحديث ۔

    تواس حدیدث پر اکثر علماء نے باطل ہونے کا حکم لگایا ہے اور یہ کہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ۔

    اس حدیث کے ایک راوی ھارون بن ابی قزعۃ کے متعلق امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی نے لسان المیزان ( 4 / 285 ) میں ترجمہ کرتے ہوۓ کہا ہے کہ :

    ھارون بن ابی قزعۃ المدنی عن رجل ، عن زیارۃ قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ کہ ھارون بن ابوقزعہ مدنی ایک شخص سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زيارت میں بیان کرتا ہے ۔

    امام بخاری رحمہ اللہ الباری کہتے ہیں کہ لایتابع علیہ ۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ازدی کا قول ہے : ھارون بن ابی قزعۃ آل حاطب میں سے ایک آدمی سے مرسل روایات بیان کرتا ہے ۔

    تومیں ( حافظ ابن حجر) کہتا ہوں تواس سے یہ متعین ہوگیا کہ ازدی نے جو چاہا ہے وہی ہے ، اور یعقوب بن ابی شیبہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے ۔ دیکھیں لسان المیزان ( 6 / 217 ) ۔

    اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے تلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر ( 2 / 266 ) میں بھی اسے ذکر کرنے کے بعد کہا کے ہے اس کی سند میں ایک مجھول شخص ہے ، اور حافظ ابن حجر کا اس آدمی سے مقصد بھی آل حاطب کا ایک شخص ہے ۔

    اور شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی التوسل والوسیلۃ میں اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ : اس کا جھوٹ اورکذب ظاہر اور دین اسلام کے خلاف ہے ، کیونکہ جس نے ایمان کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اورمومن ہی مرا تووہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں شمارہوا اورخاص کراگروہ ان کی طرف ہجرت کرنے اوران کے ساتھ جہاد کرنے والوں میں سے ہوا ۔

    اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح اور ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرے صحابہ پرسب وشتم نہ کرو ،اس ذات کی قسم جس کے ھاتھ میں میری جان ہے اگرتم احدپہاڑجتنا سونا بھی اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کروتو پھر بھی ان کےایک مد اورنہ ہی آدھےمد تک پہنچ سکتے ہو۔صحیح بخاری ومسلم ۔

    توصحابہ کرام کے بعد واجبی اموراورفرائض مثلا حج ، جہاد ، اورپانچ نمازوں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم پردرود جیسے پرعمل کرنے والا بھی صحابہ کرام جیسا نہیں ہوسکتا توپھرایک ایسا عمل جوکہ مسلمانوں کے اتفاق سے واجب بھی نہیں بلکہ جس عمل کے لیے سفر بھی مشروع نہیں بلکہ ممنوع ہے پرعمل کرنے والاشخص صحابہ اکرام جیسا کیسے ہوسکتا ہے ؟

    لیکن مسجد نبوی اور مسجد اقصی کی طرف نمازکے لیے سفرکرنا مستحب ہے اوراسی طرح حج کے لیے کعبہ جانا واجب ہے ، توجوبھی یہ مستحب اورواجب سفر کرتا ہے وہ بھی کسی صحابی کی طرح نہیں ہوسکتا جس نے اپنی زندگی میں یہ سفر کیا تھا تواب ایک ایسا سفر جو کہ ممنوع سفر ہے اس کے کرنے والا کیسے ہوگا ؟ ۔ دیکھیں التوسل والوسیلۃ ( 134 ) ۔

    اورصفحہ ( 133 ) میں لکھتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زیارت کے بارہ میں جتنی بھی احادیث وارد ہيں وہ سب کی سب ضعیف ہیں جن پردینی امورمیں سے کسی پربھی اعتمادنہیں کیا جاسکتا ۔

    لھذا اسی لیے ان روایات کوصحاح اورسنن میں سے کسی نے بھی روایت نہیں کیا بلکہ انہیں روایت کرنے والے وہ ہیں جوضعیف احادیث کوروایت کرتے ہیں مثلا دارقطنی اور بزار وغیرہ ۔

    شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کوباطل قراردے کراس کی علت بیان کرتے ہوۓ کہا ہے کہ پہلی علت یہ ہے کہ اس میں راوی کا نام بیان نہیں ، اورھارون ابی قزعۃ کوضعیف قرار دیا ، اورتیسری علت یہ بیان کی ہے کہ اس میں اختلاف اوراضطراب پایا جاتا ہے ۔

    پھرعلامہ البانی رحمہ اللہ کہتےہیں کہ : اجمالی طورپر یہ حديث واھی الاسناد ہے ۔ دیکھیں الضعیفۃ حدیث نمبر ( 1021 ) ۔

    اورایک جگہ پرعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں :

    اکثرلوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اوران جیسا عقیدہ رکھنے والی سلفی حضرات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زيارت سے منع کرتے ہیں ، تویہ کذب اورافتراء ہے اورشیخ الاسلام اورسلفیوں پر یہ کوئ پہلا الزام اورجھوٹ نہیں ۔

    جس نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے کتب کا مطالعہ کیا ہے وہ اس بات کا بخوبی علم رکھتا ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکی زیارت مشروع قرار دی ہے لیکن ایک شرط لگائ ہے کہ اگر اس زیارت میں مخالفات شرعیہ اوربدعات نہ پائ جائيں ، مثلا قبرکی زیارت کرنے کی نیت سے رخت سفرباندھنا ۔

    اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمومی طورپرفرمان ہے :

    ( تین مساجد کے علاوہ کسی اورکی طرف سفر نہیں کیا جاسکتا ) تواس حدیث میں مستثنی صرف مساجد ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں بلکہ ہراس جگہ کا استثناء ہے جس سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کا مقصد ہو چاہے وہ مسجد ہو یا قبر وغیرہ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں جس میں ہے کہ :

    میں بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے ملا توانہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ کہاں سے آرہے ہو ؟ میں نے جواب دیا طور سے ، تووہ کہنے لگے کہ اگر جانے سے پہلے تم ملتے تو وہاں نہ جاتے ! میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے ، تین مسجدوں کے علاوہ کسی اورکی طرف سواریاں تیار نہ کی جائيں ۔ مسنداحمد وغیرہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔

    تویہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ صحابہ کرام اس حدیث سے عموم ہی سمجھے تھے ، اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ اس نے کسی قبر کی زيارت کے لیے سفر کیا ہو ، تواس مسئلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ تعالی کے سلف بھی وہی صحابہ ہیں ، توجوبھی شیخ الاسلام پرطعن کرتا ہے وہ اصل میں سلف صالحین رضي اللہ تعالی عنھم پرطعن کرتا ہے ۔

    اورکسی نے کیا ہی خوب کہا ہے اللہ تعالی اس پررحم کرے :

    سلف کی اتباع میں ہی ہر قسم کی خیرو بھلائ ہے اور ہر خلف کی اتباع میں شر ہی شر ہے ۔ انتھی ۔ دیکھیں سلسلۃ احادیث الضعیفۃ حدیث نمبر( 47 )

    خلاصہ :

    اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی غرض و نیت سے سفر کرنااس حدیث کی بنا پرحرام اوربدعت ہے جس میں تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور جگہ پرعبادت کی غرض سے سفرکرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔

    لیکن جوشخص مدینہ میں ہے اس کے لیے قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت صحیح اورمشروع ہے اور اسی طرح مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز پڑھنے کی غرض سے سفرکرنا عبادت اوراللہ تعالی کے قرب اور اطاعت کا باعث ہے ۔

    غلطی اور اشکال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ان دونوں کے درمیان فرق کوسمجھا نہ جاۓ کہ مشروع کیا چيزاور ممنوع کیا ہے ۔

  8. #92
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default نماز فجر كى چاليس نمازيں تكبير تحريمہ كے س

    نماز فجر كى چاليس نمازيں تكبير تحريمہ كے ساتھ مداومت كرنے والى حديث كى صحت ؟
    بيھقى رحمہ تعالى نے شعب الايمان ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ كى نبى صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع حديث بيان كى ہے كہ:

    " جس نے صبح اور عشاء كى آخرى نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور اس كى كوئى ركعت نہ رہے تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھ دى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات "

    ديكھيں: شعب الايمان للبيھقى ( 3 / 62 ).

    " العلل المتناھيۃ " ميں ہے كہ:

    " يہ حديث صحيح نہيں، بكر بن يعقوب جو يعقوب بن تحيۃ سے بيان كرتے ہيں ان كے علاوہ كسى بھى راوى كا علم نہيں، اور يہ دونوں راوى بھى مجھول الحال ہيں.

    ديكھيں: العلل المتناھيۃ ( 1 / 432 ).

    ليكن سنن ترمذى ميں يہ الفاظ آئے ہيں:

    " جس نے چاليس يوم تك نماز جماعت كے ساتھ ادا كى اور تكبير تحريمہ كے ساتھ ملا تو اس كے ليے دو قسم كى برات لكھى جاتى ہے، آگ سے برات، اور نفاق سے برات "

    سنن ترمذى حديث نمبر ( 241 ) ترمذى رحمہ اللہ تعالى نے اسے ضعيف قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے حسن كہا ہے.

    اس حديث كو متقدمين علماء كرام كى ايك جماعت نے بھى ضعيف كہا اور اس كى علت بيان كرتے ہوئے اسے مرسل كہا ہے، ليكن بعض متاخرين نے اسے حسن كہا ہے.

    ديكھيں: التلخيص الحبير ( 2 / 27 ).

    اور پھر حديث صرف نماز فجر پر ہى مقتصر نہيں، بلكہ حديث ميں تو اس كا اجر بيان ہوا ہے كہ جو شخص نماز پنجگانہ كو تكبير تحريمہ كے ساتھ ادا كرنے كى محافظت كرے.

    اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ اس مدت ميں كے دوران تكبير تحريمہ پا لينا اس شخص كے دين ميں قوى ہونے كى دليل ہے.

    جب حديث صحيح ہونے كى محتمل ہے تو اميد ہے كہ جو شخص بھى اس كى حرص ركھے گا اس كے ليے يہ فضل عظيم اور اجر جزيل لكھ ديا جائے گا، اس حرص سے انسان كو كم از كم اس عظيم شعار اسلام كى محافظت كى تربيت حاصل ہو گى.

    اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے ليے نفاق اور آگ سے برات لكھ دے، يقينا اللہ تعالى سننے اور قبول كرنے والا ہے.

  9. #93
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default

    سات بار ( اللھم اجرنی من النار ) پڑھنے کی حدیث

    سوال :
    کیا ایسی کوئ صحیح حدیث ہے جس میں یہ ہو کہ فجر اورعشاء کے بعد ( اللھم اجرنی من النار ) ( اے اللہ مجھے آگ سے پناہ دے ) سات بار پڑھنا ضروری ہے ؟


    جواب:
    الحمد للہ
    یہ حديث امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مسنداحمد ( 17362 ) میں اورابو داود رحمہ اللہ تعالی نے سنن ابوداود ( 5079 ) میں روایت کی ہے جس الفاظ یہ ہیں :
    ( اذا صلیت الصبح فقل قبل ان تکلم احدا من الناس " اللھم اجرنی من النار " سبع مرات فانک ان مت من یومک ذالک کتب اللہ لک جوارا من النار ، واذا صلیت المغرب فقل قبل ان تکلم احدمن الناس لانس اسئلک الجنۃ ، اللھم اجرنی من النار ، سبع مرات فانک ان مت من لیلتک کتب اللہ ‏عزوجل لک جوارا من النار ) ۔

    ( جب آپ فجرکی نماز سے فارغ ہوں تو کسی سے بات کرنے سے قبل سات بار" اللھم اجرنی من النار" اے اللہ مجھے آگ سے بچا کہیں تواگر آپ کواس دن موت آجاۓ تواللہ تعالی تمہارے لیے آگ سے بچاؤ لکھ دے گا ، اوراگرآپ مغرب کی نماز پڑھ کرکسی سے بات کرنے سے قبل سات بار اللھم انی اسئلک الجنۃ اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں ، اورسات بااللھم اجرنی من النار اے اللہ مجھے آگ سے بچا تواگرآپ اس رات فوت ہوجائيں تواللہ تعالی آگ سے بچاؤ لکھ دے گا )

    تواس حدیث میں دوچيزیں ہیں :

    1- یہ کلمات عشاء کے بعد نہیں کہیں جائيں گے جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گيا ہے ۔

    2 – یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہيں ، دیکھیں السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی رحمہ اللہ حدیث نمبر ( 1624 ) ۔

    تواس بنا پرنہ تویہ دعا نماز فجر اورنہ ہی نماز مغرب کے بعدکہنی واجب اور نہ ہی مستحب ہے ۔

    3 – انس رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے تین باراللہ تعالی سے جنت کا سوال کیا توجنت یہ کہتی ہے اے اللہ اسے جنت میں داخل کردے ، اورجس نے تین بارجھنم کی آگ سے پناہ طلب کی توآگ کہتی ہے اے اللہ اسے آگ سے پناہ دے دے ۔

    سنن ترمذي حدیث نمبر ( 2572 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4340 ) اوریہ حدیث صحیح ہے اسے علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح الجامع ( 6275 ) میں صحیح کہا ہے ۔

    لیکن یہ کسی وقت اورنماز کے ساتھ مقید نہیں بلکہ کسی بھی وقت کہا جاسکتا ہے ، تومومن کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ اللہ تعالی سے جنت کا سوال اورجھنم سے بچاؤ طلب کرتا رہے اور اس میں کسی بھی وقت کی تعیین نہ کرے نہ تونمازاور نہ ہی اوقات میں بلکہ کسی بھی وقت مانگ سکتا ہے ۔

    واللہ تعالی اعلم .

  10. #94
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default صوفیاء کے ہاں ضعیف اورموضوع احادیث

    صوفیاء کے ہاں ضعیف اورموضوع احادیث



    الحمد للہ
    شیخ الاسلام ابن تیمۃ رحمہ اللہ تعالی سے اس حدیث (میں نہ تواپنے آسمان میں سما سکا اورنہ ہی اپنی زمین میں لیکن اپنےمومن بندے کے دل میں سما گیا ) کے متعلق سوال کیا گيا توان کا جواب تھا :
    الحمدللہ :

    یہ اسرائلی روایات میں سے ہے جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئ معروف سند نہیں ملتی ، اوراس کا معنی یہ ہے کہ اس کے دل میں میری محبت اور معرفت رکھ دی گئ ہے ۔

    اوریہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ :

    ( رب کا گھر دل ہے ) یہ بھی پہلی والی جنس سے ہے اوراسرائیلی روایت ہے ، دل تو اللہ تعالی پرایمان اور اس کی معرفت اور محبت کی جگہ ہے ۔

    اور یہ بھی راویت کرتے ہیں :

    ( میں ایک غيرمعروف خزانہ تھا میں نے چاھا کہ معروف ہوجا‎ؤں تومیں نے مخلوق پیدا کی تومیں نے انہیں اپنی وجہ سے اورمجھے انہوں نے میری وجہ سے جانا ) ۔

    یہ کلام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں اورنہ ہی اس کی کوئ‏ صحیح اورضعیف سند ہی میرے علم میں ہے ۔

    اوریہ بھی روایت کی جاتی ہےکہ :

    ( اللہ تعالی نے عقل پیدافرمائ تواسے کہا ادھرآ‎ؤ تووہ آگئ ، پھر اسے کہا واپس جاؤ تووہ واپس چلی گئ ، تواللہ تعالی نےفرمایا : مجھے میری عزت وجلال کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ شان والی کوئ مخلوق پیدا ہی نہیں فرمائ ، میں تیری وجہ سے پکڑکروں گا اور تیری وجہ سے عطا کروں گا ) ۔

    یہ حدیث محدثین کے ہاں بالاتفاق موضوع اورباطل ہے ۔

    اورجویہ حدیث روایت کی جاتی ہے :

    ( دنیا سے محبت ہرگناہ کی جڑ ہے ) ۔

    یہ قول جندب بن عبداللہ البجلی کا قول معروف ہے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی کوئ سند معروف نہیں ۔

    اوریہ بھی روایت کرتے ہیں :

    ( دنیا مومن کا قدم ( چلنے میں دوقدموں کا درمیانی فاصلہ ) ہے ) ۔

    یہ کلام نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورنہ ہی سلف صالحین وغیرہ میں سے کسی سے معروف ہے ۔

    اوریہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ :

    ( جس کسی کے لیے کسی چيزمیں برکت کردی جاۓ تووہ اس کا التزام کرے ) ( اورجس نے کسی چيزکو اپنے لیے لازم کیا وہ اسے لازم ہوجاۓ گی ) ۔

    پہلی کلام توبعض سلف سے ماثور ہے ، اوردوسری باطل اس لیے کہ جس نے بھی اپنے لیے کسی چیز کولازم کیا تووہ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کبھی لازم ہوگی اورکبھی لازم نہيں ہوسکتی ۔

    اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی بیان کرتے ہیں :

    ( فقراء کے ساتھ مل کرقوت حاصل کرو کیونکہ کل انہیں غلبہ حاصل ہوگا اوراس کے علاوہ اور کونسا غلبہ ہے )

    ( فقیری میرا فخر ہے جس سے میں فخر کرتا ہوں ) ۔

    یہ دونوں کذب ہیں مسلمانوں کی معروف کتب میں سے کسی میں بھی نہیں پائ جاتیں ۔

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی بیان کیا جاتا ہے :

    ( میں علم کا شہراورعلی اس کا دروازہ ہیں ) ۔

    محدثین کے ہاں یہ حدیث ضعیف بلکہ موضوع درجے کی ہے ، لیکن اسے ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے اس کا وقوع توہے لیکن ہے کذب بیانی ۔

    یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم :

    ( قیامت کے روز فقراء کوبٹھا کراللہ تعالی فرماۓ گا : مجھے میری عزت وجلال کی قسم میں نے دنیا کوتم سے اس لیے دورنہیں کیا تھا کہ تم میرے نزدیک حقیر تھے ، لیکن میں نے یہ کام آج کے دن تمہاری قدرومنزلت بڑھانے کے لیے کیا ، میدان محشر میں جا‎ؤجہاں لوگ کھڑے ہیں ان میں سے جس نے بھی تمہیں کوئ ورٹی کا ٹکڑا دے کر یا پھر پانی پلاکر یاپھر خرقہ پہنا کر احسان کیا اسے جنت میں لے جاؤ ) ۔

    شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ کذب ہے اہل علم اورمحدثین میں سے کسی نے بھی اسے روایت نہيں کیا بلکہ یہ باطل اورکتاب وسنت اوراجماع کے خلاف ہے ۔

    اوریہ بھی بیان کرتے ہیں کہ :

    جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ھجرت کر کے مدینہ تشریف لاۓ تو بنونجار کی بچیاں دفیں لے کر نکلیں اوروہ یہ اشعار پڑھ رہی تھیں :

    ہم پرثنیۃ الوداع سے چودویں کا چاند طلوع ہوا ، شعروں کے آخر تک ، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا : اپنی دفوں کوحرکت دو اللہ تمہیں برکت عطا فرماۓ ۔

    خوشی وسرور کے وقت عورتوں کا باتیں اوردف بجانا صحیح ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ کام کیا جاتا تھا ، لیکن یہ قول کہ ( دفوں کوحرکت دواورانہیں ہلا‎ؤ )نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاس کا ثبوت نہیں ملتا ۔

    اوریہ روایت بھی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    ( اے اللہ تونے مجھے میری سب سے محبوب جگہ سےنکالا ہے تومجھے اپنی سب سے محبوب جگہ میں رہائش عطافرما ) ۔

    یہ حديث بھی باطل ہے ترمذی وغیرہ نے روایت کی ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو مکہ کو یہ کہا تھا :

    یقینا تومیرے نزدیک احب البلاد یعنی شہروں میں سب سے محبوب ہے ، اور یہ بھی فرمایا : کہ تو اللہ تعالی کے ہاں بھی احب البلاد ہے ۔

    اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ :

    ( جس نے میری اورمیرے باپ ابراھیم علیہ السلام کی ایک ہی سال میں زیارت کی وہ جنت میں داخل ہوگا ) ،یہ کذب اورموضوع ہےاہل علم میں سے کسی نے بھی اسے روایت نہیں کیا ۔

    علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں :

    ایک اعرابی نے نمازپڑھی اورٹھونگے مارے یعنی اس میں جلدی کی توعلی رضی اللہ تعالی عنہ اسے کہنے لگے نمازمیں جلدی نہ کر، تووہ اعرابی کہنے لگا : اے علی اگر یہ ٹھونگے تیرا باپ بھی مارلیتا تووہ آگ میں داخل نہ ہوتا ۔

    یہ بھی کذب اورجھوٹ ہے ۔

    اور جو یہ بیان کرتے ہیں کہ :

    عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے اپنے باپ کوقتل کیا تھا ۔ یہ بھی کذب وجھوٹ ہے اس لیے کہ ان کے والد تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل ہی فوت ہوچکا تھا ۔

    اوریہ بھی روایت بیان کی جاتی ہے کہ :
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جب آدم علیہ السلام ابھی مٹی اورپانی کے درمیان تھے تومیں نبی تھا اور میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام نہ توپانی اور نہ ہی مٹی تھے ) تویہ الفاظ بھی باطل ہیں ۔

    یہ روایت بھی بیان کی جاتی ہے :
    غیرشادی شدہ کا بستر آ گ ہے ، آدمی عورت کے بغیر اورعورت مرد کے بغیر مسکین ہے ۔

    اس کلام کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتا ۔
    اوریہ بھی ثابت نہیں کہ جب ابراھیم علیہ السلام نے بیت اللہ بنایا تواس کے ہرکونےمیں ایک ہزار رکعت نماز پڑھی تو اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائ کہ " اے ابراھیم یہ کیا ، بھوک مٹائ جارہی ہے یا کہ پردوپوشی ہے ۔

    تویہ بھی ظاہری کذب وجھوٹ ہے اس کا مسلمانوں کی کتب میں وجود تک نہیں ملتا ۔

    اورایک یہ روایت بھی بیان کرتے ہیں :
    فتنے کوکراھت سے نہ دیکھا کرو کیونکہ اس میں منافقوں کی جڑکا ٹی جاتی ہے " نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت اورمعروف نہیں ۔

    اوریہ روایت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں :
    ( میں نے اپنی امت کے گناہ دیکھے توسب سے بڑا گناہ یہ تھا کہ کسی نے آیت سیکھی اوراسے بھلا دیا یہ سب سے بڑا گناہ تھا ) اگر تویہ حدیث صحیح ہوتو اس کا معنی یہ ہے کہ جس نے آیت سیکھی پھراس کی تلاوت کرنا بھول گيا ۔

    اور ایک حدیث کے لفظ ہیں : " میری امت کےگناہوں میں ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالی نے قرآن مجید کی آیات دیں تووہ اس سے سوگیا حتی کہ وہ اسے بھول گئيں " تونسیان اعراض کے معنی میں ہے کہ اس نے قرآن مجید سے اعراض کرلیا اس پرایمان نہ لایا اور عمل بھی نہ کیا ، لیکن اسے پڑھنے میں سستی کرنا ایک گناہ ہے ۔

    اوریہ بھی روایت بیان کرتے ہیں :
    " قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے جو محمد اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بہتر ہے ، قرآن مجید اللہ تعالی کانازل کردہ کلام ہے مخلوق نہیں کس دوسرے سے تشبیہ نہی دی جاۓ گی " مذکورہ الفاظ ثابت اورماثور نہیں ہیں ۔

    اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی بیان کیا جاتا ہے :
    ( جس نے علم نافع حاصل کیا اور اسے مسلمانوں سے چھپایاتواللہ تعالی قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہناۓ گا ) ۔

    سنن میں اس معنی کی حدیث معروف ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس سے کسی علم کا سوال کیا گيا اوروہ اس کا علم رکھتے ہوۓ بھی چھپاۓ توقیامت کے دن اللہ تعالی اسے آگ کی لگا ڈالے گا ) ۔

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی بیان کیا جاتا ہے :
    ( جب تم میرے صحابہ ميں پیدا ہوۓ اختلاف تک پہنچو تو وہیں رک جاؤ اور کچھ نہ کہو ، اور جب قضاء و قدر کے مسئلہ میں آؤ‎ توپھر بھی خاموشی اختیار کرلو) ۔

    یہ منقطع اسناد کے ساتھ معروف ہے ۔

    یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ :
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے فرمایا اوروہ دو دو انگور کھا رہے تھے ۔ تو اس روایت میں دو دو کا کلمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام نہیں بلکہ یہ باطل ہے ۔

    اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی بیان کیا جاتا ہے :
    ( جس نے کسی عورت سے زنا کیا اوراس سے بیٹی پیدا ہوئ‏ توزانی اپنی زنا کی بیٹی سے شادی کرسکتا ہے ) یہ قول بعض غیرشافعیوں کا ہے ، اوربعض نے اسے شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ، کچھ شافعی اس کا انکار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ : اس کی حلت کی تصریح نہیں کی لیکن رضاعت میں اس کی صراحت کی ہے مثلا :

    جب بچی نے زنا کے حمل والی عورت کا دودھ پیا ، اور عام علماء یعنی احمد اور ابوحنیفہ وغیرہ رحمہم اللہ اس کی حرمت پرمتفق ہیں ، اورامام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہی صحیح قول ہے ۔

    اوریہ روایت بھی پیش کی جاتی ہے :
    سب سے حق اوراچھی اجرت کتاب اللہ پراجرت لینا ہے ۔

    جی ہاں یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ سب سے اچھی اجرت کتا ب اللہ کی ہے ، لیکن یہ حدیث رقیہ میں یعنی دم کرنے والی حدیث میں ہے اوریہ معاوضہ اس قوم کے مریض کی عافیت اور صحیح ہونے پر تھا نہ کہ تلاوت کرنے پر ۔

    اورجو یہ روایت بیان کی جاتی ہے :
    ( جس کسی نے ذمی پر ظلم کیا اس کی طرف سے اللہ تعالی جھگڑا کرے یا میں قیامت کے دن اس کا مقدمہ لڑوں گا )

    یہ روایت ضعیف ہے ، لیکن یہ معروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کسی نے کسی معاھد کوناحق قتل کیا وہ جنت کی راحت حاصل نہیں کرسکے گا ۔

    اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی بیان کیا جاتا ہے :
    ( جس کسی نے مسجد میں چراغ جلایا توجب تک مسجد میں اس کی روشنی رہے گی فرشتے اور عرش اٹھانے والے اس کی بخشش کی دعا کرتے رہیں گے ) میرے علم میں اس کی کوئ سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے ۔ .

    دیکھیں : الفتاوی الکبری ( 5 / 88 - 93 )

  11. #95
    Join Date
    22 Dec 2006
    Location
    MAA'N K QADMOO TALAY
    Posts
    547
    Threads
    180
    Credits
    0
    Thanked
    49

    Default زبان کے ساتھ وضو کی نیت کی بدعت اور سنت سے اس

    زبان کے ساتھ وضو کی نیت کی بدعت اور سنت سے اس کا رد

    بدعتی کہتا ہے" میں فلاں نماز کے لیے وضو کی نیت کرتا ہوں" یہ ایسی منکر بدعت ہے جس پر کتاب اور سنت سے کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی عقل مند لوگوں کا کام ہے بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست، پاگل شخص اور بیمار ذھن ہی ہوتا ہے۔
    میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیں کہ میں فلاں فلاں قسم کے صبح کے کھانے کی نیت کرتا ہوں؟!
    یا جب آپ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں پیشاب یا پاخانہ کرنے کی نیت کرتا ہوں؟
    يا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا کرادہ کرتے ہیں تو تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی فلاں بنت فلاں سے نکاح کے بعد جائز شرعی جماع کرتا ہوں؟
    ایسا کرنے والا شخص یقینا پاگل اور مجنون ہی ہوسکتا ہے-
    تمام عقل مند انسانوں اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے نہ کہ زبان، کسی چيز کے بارے میں میں آپ کے ارادے کور نیت کہتے ہیں جس کے لیے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونے والے عمل کو ماضح کریں-
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
    (( انما الااعمال بالنیات و انما لکل امری مانوی۔۔۔۔۔۔۔۔))
    "اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو (مثلا ثواب وعذاب) اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا"-

    [ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]
    یعنی اعمال وہی معتبر ہیں جن کی نیت اور عمل کے ساتھ تصدیق کی جائے- حدیث بالا کے باقی الفاط اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ زبان کے ساتھ (رٹے رٹائے) الفاظ کہنے کو نیت نہیں کہتے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
    (( فمن کانت ھجرۃ الی اللہ ورسولہ فھجرۃ الی اللہ و رسولہ ومن کانت ھجرۃ الی دنیا یصیبھا او امراۃ ینکحھا فھجرۃ ماھاجر الیہ))
    " پس جس نے اللہ اور اس کے رسولۖ کےلیے ھجرت کی تو اس ھجرت اللہ اور اس کے رسولۖ کے لیے ہی ہوگی اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ھجرت کی ہوگی تو اس کی ھجرت اسی مقصد کے لیے ہوگی (نہ کہ اللہ اور رسولۖ کے لیے)۔

    [ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]

    کسی شخص نے بھی یہ بات نہیں کی کہ نکاح یا حصول دنیا مثلا خرید و فروخت یا تجارت کے لیے کپا گھر بار چھوڑے تو کس پر زبان سے نیت کرنا لازم ہے' بلکہ کی نیت اس کے طرز عمل سے معلوم ہوتی ہے- اگر وہ شخص ان چيزوں میں زبان سے نیت کرنک شروع کردے تو عقل مند لوگ اسے پاگل اور مجنون ہی قرار دیں گے-
    یہ بھی یاد رہے کہ عبادات میں اصل حرت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیلکے جائز نہیں بلیہ حرام ہے، اللہ آپ کو اور مجھے اتباع سنت پر قائم رکھے-
    عبادات میں یہ حرمت بغیر کسی شرعی دلیل کے جواز نہیں بن جاتی- زبان سے نیت کرنے والا شخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتا تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کردے اور اگر وہ رٹے رٹائے الفاظ بطور عبادت کہتا ہے تو اس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے اور حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔
    امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے شروع میں " میں نیت کرتا ہوں رفع حدث کے لیے يا نماز پڑھنے کے لیے " وغیرہ الفاظ بلکل نہیں کہتے تھے اور نہ آپ کے اصحابہ کرام سے یہ بات ثابت ہے اور اس سلسلہ میں ایک حرف بھی آپ سے مروی نہیں' نہ صحیح سند سے اور نہ ہی ضعیف سند سے-
    ( ذادالمعاد: 1/196)
    اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کے اقوال تفصیل سے ذکر کیے ہیں، علم کے ساتھ نیت انتہائی آسان ہے، یہ وسوسوں، خود ساختہ بندشوں اور نام نہاد زنجیرون کی محتاج نہیں ہے اور اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ آدمی کو وسوسہ اس وقت آتا ہے جب وہ فاتر العقل يا شریعت کے بارے میں جاہل ہوتا ہے-
    لوگوں نے اس بات کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا زبان سے نیت کرنا مستحب ہے؟
    امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کے ساتھیوں میں سے بعض کہتے ہین کہ ایسا کہنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے-
    اما مالک اور امام احمد کے ساتھیوں میں سے ایک گروھ کا یہ کہنا ہے کہ ایسا کرنا مستحب نہیں بلکہ نیت سے زبان سے الفاظ ادا کرنا بدعت ہے، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور تابعین سے نماز اور وضو یا روزوں میں یہ چيز بلکل جائز نہیں ہے-
    علماء یہ کہتے ہیں کہ کسی فعل کے بارے میں علم کے ساتھ ہی نیت حاصل ہوجاتی ہے- لہاذا زبان کے ساتھ رٹے رٹائے الفاظ پڑھنا ہوس پرستی، فضول اور ہذیان ہے۔
    نیت انسان کے دل میں ہوتی ہے اور زبان کے ساتھ نیت کرنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نیت کا تعلق دل سے نہیں، اسی لیے وہ اپنی زبان سے نیت حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حاصل شدہ چيز کے حصول کی ہوس تحصیل حاصل کے زمرے میں آتی ہے- اس مذکورہ غلط عقیدہ کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان وسوسوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں- (مجموع الفتاوی: 18/263،264)
    امام ابن رجب الحمبلی رحم اللہ علیہ اپنی کتاب" جامع العلوم (ص40)" میں فرماتے ہیں کہ " ان مسائل میں کوئی حوالہ ہم نہ سلف صالحین سے پاتے ہیں اور نہ کسی اور امام سے-
    ان سطور کے تحریر کرنے کے بعد مجھے گمراھ بدعتوں کے ایک سردار اور سقاف اردن کے باری میں معلوم ہوا کہ یہ خبیث شخص ام المومنین حضرت عائشہ رصی اللہ عنہ کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال کرتا ہے، جس میں آیا ہے کہ" جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے کھانے کے بارے میں میں پوچھا اور انہوں نے کہا کہ کھانا موجود نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمايا میں روزا رکھتا ہوں"-

    (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز صوم النافلۃ بنیۃ من النھار قبل زوال [1154])
    سقاف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام حج میں اس قول سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا تھا کہ:

    (( لبیک بعمرۃوالحج))
    اے اللہ میں حج و عمرہ کے ساتھ لبیک کہ رہا ہوں-

    [ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب احلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم وھدیۃ: 1251]
    اور حالانکہ اس کا یہ استدلال مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے-
    ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال غلط ہے کیونکہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حال اور کیفیت کی خبر دی ہے نہ کہ نیت کی، اگر آپ لفظی نیت کرتے تو اس طرح کہتے کہ" میں روزے کی نیت کرتا ہوں" یا اس کے مشابہ کوئی بات فرماتے-
    تلبیہ کے وقت آپ کا (( لبیک بعمرۃ والحج)) کہنا بھی لفظی نیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، ورنہ آپ یوں کہتے کہ" میں عمرہ اور حج کا ارادہ کرتا ہوں" یا " میں حج و عمرہ کی نیت کرتا ہوں"۔ ان الفاظ کا تعلق اس سنت نبوی سے ہے جو تلکیہ ( لبیک کہنے) سے ہے نہ کہ لفظی نیت سے-
    حج اور عمرہ میں لفظی نیت کے بری اور مذموم بدعت ہونے پر دلیل حافظ ابن رجب کا وہ قول بھی ہے جو انہوں نے " جامع العلوم (ص20)" پر لکھا ہے:
    " ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو احرام کے وقت یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں تو انہوں نے (ناراض ہوکر) اسے کہا کہ کیا تو لوگوں کو (اپنی نیت و ارادہ کے بارے میں) بتانا چہتا ہے (کہ تو نیکی کا بڑا کام کررہا ہے)؟ کیا اللہ تعالی تیرے دل کے بھیدوں سے (بھی) واقف نہیں ہے؟"
    تو ابن عمر کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ زبان کے ساتھ نیت کرنا مستحب نہیں ہے اور نہ ہی اصلاحن جائز ہے۔ واللہ الموفق

    اقتسابات: " عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد
    ترجمہ و تحقیق: حافظ زبیر علی زئی"

  12. #96
    WAQAS1412's Avatar
    WAQAS1412 is offline Senior Member+
    Last Online
    20th January 2021 @ 02:42 PM
    Join Date
    01 Apr 2013
    Location
    Islamabad
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    8,617
    Threads
    160
    Credits
    83
    Thanked
    622

    Default

    [IMG]http://i137.***********.com/albums/q223/humanoid_girlz/Jazakallah03.png[/IMG]


Page 8 of 8 FirstFirst ... 5678

Similar Threads

  1. Mashoor aqwaal........
    By hasnat371 in forum General Knowledge
    Replies: 9
    Last Post: 10th November 2016, 01:07 AM
  2. Duniya Ka Sab Se MashooR GaMe..
    By mohdsoomro in forum PC Games
    Replies: 2
    Last Post: 27th December 2009, 01:05 AM
  3. Mulla Zaheef Story
    By Sohail in forum Halat-e-Hazra
    Replies: 25
    Last Post: 30th April 2009, 08:23 PM
  4. Mashoor O Maroof website
    By nicejaani in forum General Discussion
    Replies: 3
    Last Post: 7th October 2008, 12:34 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •