لندن:اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کرنے کی روش تشویشناک ہے جو دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ بات جموں و کشمیر حق خودارادیت تحریک یورپ کی طرف سے یوم حق خودارادیت کے موقع پر برطانوی وزیراعظم گورڈن براﺅن کو پیش کی گئی ایک یادداشت میں میں کہی گئی۔ جموں و کشمیر حق خودارادیت تحریک یورپ کے چیئرمین راجہ نجابت حسین اور دیگر عہدیداروں کی طرف سے پیش کی گئی اس یادداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا طویل عرصہ سے حل طلب ہونا اور پاک بھارت تعلقات میں سرد مہری نہایت تشویشناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارت کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف تحریک خالصتاً ایک مقامی تحریک ہے جو بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورمز پر کئے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں میں کشمیری عوام کا حق خودارادیت تسلیم کر چکی ہے جس کے مطابق کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کا اختیار دینا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کو پیش کی گئی یادداشت میں سابق بھارتی رہنا جواہر لعل نہرو کے بھارتی ذرائع ابلاغ کی طرف سے جاری کردہ اور پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیانات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یادداشت میں مزید کہا گیا ہے کہ کشمیر کے تنازعہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان جنگوں کے بعد کئے جانے والے تاشقند اور شملہ معاہدوں سے مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی مدد نہ مل سکی۔ یادداشت میں اقوام متحدہ اور بڑی عالمی طاقتوں سے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیلئے اقدامات کی اپیل کی گئی ہے۔ یادداشت میں کہا گیا ہے کہ چونکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ہندوستان کیلئے برطانیہ کے وائسرائے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن نے بھی تسلیم کیا تھا اس لئے برطانوی حکومت پر یہ اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔ یادداشت میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کوئی علاقائی یا دو ممالک کے درمیان تنازعہ نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاءاور دنیا بھر کا امن اس مسئلہ کے حل سے وابستہ ہے اس لئے اقوام متحدہ اس تنازعہ کے حل کو اپنے ایجنڈہ میں سرفہرست رکھے اور بھارت پر اپنی فوج کے بڑے حصہ کو مقبوضہ کشمیر سے انخلاءکے لئے دباﺅ ڈالے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد تک امن مشن تعینات کرے اور سلامتی کونسل مشرقی تیمور بوسنیا اور کوسوو کی طرز پر اس مسئلہ کے حل کیلئے بھی ثالثی کا منصوبہ تیار کرے اور اس منصوبہ میں جی ایٹ اور یورپی یونین کے رکن ممالک کو بھی شامل کیا جائے۔
Bookmarks