کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مناقب کو چھانا مثالب کو تایا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا
ائمہ میں جو داغ دیکھا، بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا
نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی کو چھوڑا
رجال اور اسانید کے جو ہیں دفتر
گواہ ان کی آزادگی کے ہیں یکسر
نہ تھا ان کا احساں یہ اک اہلِ دیں پر
وہ تھے اس میں ہر قوم و ملت کے رہبر
لبرٹی میں جوآج جائق ہیں سب سے
بتائیں کہ لبرل بنے ہیں وہ کب سے
فصاحت کے دفتر تھے سب گاؤ خوردہ
بلاغت کے رستے تھے سب ناسپردہ
ادھر روم کی شمع انشا تھی مردہ
ادھر آتشِ پارسی تھی فسردہ
یکاک جو برق آکے چمکی عرب کی
کھلی کی کھلی رہ گئی آنکھ سب کی
عرب کی جو دیکھی وہ آتش زبانی
سنی بر محل ان کی شیوا بیانی
وہ اشعار کی دل میں ریشہ دوانی
وہ خطبوں کی مانند دریا روانی
وہ جادو کے جملے وہ فقرے فسوس کے
تو سمجھے کہ گویا ہم اب تک تھے گونگے
سلیقہ کسی کو نہ تھا مدح و ذم کا
بنہ ڈھب یاد تھا شرحِ شادی و غم کا
نہ انداز تلقین و عظ و حکم کا
خزانہ تھا مدفوں زباں اور قلم کا
نواسنجیاں ان سے سیکھیں یہ سب نے
زباں کھول دی سب کی نطقِ عرب نے
زمانہ میں پھیلی طب ان کی بدولت
وہئی بہرہ ور جس سے ہر قوم و ملت
نہ صرف ایک مشرق میں تھی ان کی شہرت
مسلم تھی مغرب تک ان کی حذاقت
سلر نو میں جو ایک نامی مطب تھا
وہ مغرب میں عطارِ مشکِ عرب تھا
ابو بکر رازی علی ابنِ عیسیٰ
حکیم گرامی حسین ابن سینا
حنین ابن اسحٰق قسمیں دانا
ضیا ابنِ بیطار راس الاطبا
انھیں کے ہیں مشرق میں سب نام لیوا
انہیں سے ہوا پار مغرب کا کھیوا
غرض فن ہیں جو مائیہ دین و دولت
طبیعی ، الہی، ریاضی و حکمت
طب اور کیمیا، ہندہ اور ہئیبت
سیاست، تجارت، عمارت، فلاحت
لگاؤگے کھوج ان کا جاکر جہاں تم
نشاں ان کے قدموں کے پاؤ گے واں تم
ہوا گو کہ پامال بستاں عرب کا
مگر اک جہاں ہے غزالخواں عرب کا
ہراکر گیا سب کو باروں عرب کا
سپیدو سیہ پر ہے احساس عرب کا
وہ قومیں جو ہیں آج سرتاج سب کی
کنونڈی رہیں گی ہمیشہ عرب کی
رہے جب تک ارکان اسلام برپا
چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا
رہا میل سے شہد صافی مصفآ
رہی کھوٹ سے سیمِ خالص مبرا
نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں
علم ایک تھا شش جہت میں درافشاں
پہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا
گیا چھوٹ سر رشتہ دینِ ہدیٰ کا
رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہما کا
تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک
وہ بگڑا نہیں دنیا میں جب تک
برے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب
وہ دنیا میں بس کر اجڑنے لگے اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب
بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر
گھٹا کھل گئی سارے عالم پہ چھاکر
نہ ثروت رہی ان کی قائم نہ عزت
گئے چھوڑ ساتھ ان کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن ان سے ایک ایک رخصت
مٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا اونچا
کہ آتی ہوواں سے نظر ساری دنیا
چڑھے اس پہ پھر اک خرومند دانا
کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا
تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ
کہ عالم کو زیر و زبر پائے گا وہ
Bookmarks