یو نہیں جو کتاب اس پیمبر پہ آتی

وہ گمراہیاں سب ہماری جتاتی

ہنر ہم میں جو ہیں وہ معلوم ہیں سب

علوم اور کمالات معدوم ہیں سب

چلن اور اطوار مذموم ہیں سب

فراغت سے دولت سے محروم ہیں سب

جہالت نہیں چھوڑتی ساتھ دم بھر

تعصب نہیں بڑھنے دیتا قدم بھر

وہ تقویمِ پارینہ یونانیوں کی

وہ حکمت کہ ہے ایک دھو کے کی ٹٹی

یقیں جس کو ٹھہرا چکا ہے نکمی

عمل نے جسے کردیا آکے ردی

اسے وحی سے سمجھے ہیں ہم زیادہ

کوئی بات اس میں نہیں کم زیادہ

زبور اور توریت و انجیل و قرآں

بالا جماع ہیں قابلِ نسخ و نسیاں

مگر لکھ گئے جو اصول اہلِ یوناں

نہیں نسخ و تبدیل کا ان میں امکاں

نہیں مٹتے جب تک کہ آثار دنیا

مٹے گا کبھی کوئی شوشہ نہ ان کا

نتائج ہیں جو مغربی علم و فن کے

وہ ہیں ہند میں جلوہ گر سو برس سے

تعصب نے لیکن یہ ڈالے ہیں پردے

کہ ہم حق کا جلوہ نہیں دیکھ سکتے

دلوں پر ہیں نقش اہل یوناں کی رائیں

جواب وحی اترے تو ایماں نہ لائیں

اب اس فلسفہ پر جو ہیں مرنے والے

شفا اور مجسطی کے دم بھرنے والے

ارسطو کی چوکھٹ پہ سر دھرنے والے

فلاطون کی اقتدا کرنے ولاے

وہ تیلی کے کچھ بیل سے کم نہیں ہیں

پھرے عمر بھر اور جہاں تھے وہیں ہیں

وہ جب کرچکے ختم تحصیلِ حکمت

بندھی سر پہ دستارِ علم و فضیلت

اگر رکھتے ہیں کچھ طبعیت میں جودت

تو ہے سب ان کی بڑی یہ لیاقت

کہ گردن کو وہ رات کہہ دیں زباں سے

تو منواکے چھوڑیں اسے اک جہاں سے

سوا اس کے جو آئے اس کو پڑھاویں

انہیں جو کچھ آتا ہے اس کو بتاویں

وہ سیکھے ہیں جو بولیاں سب سکھاویں

میاں مٹھو اپنا سا اس کو بناویں

یہ لے دے کے ہے علم کا ن کے حاصل

اسی پر ہے فخر ان کو بین الاماثل

نہ سرکار میں کام پانے کے قابل

نہ دربار میں لب ہلانے کے قابل

نہ جنگل میں ریوڑ چرانے کے قابل

نہ بازار میں بوجھ اٹھانے کے قابل

نہ پڑھتے تو سو طرح کھاتے کما کر

وہ کھوئے گئے اور تعلیم پاکر

جو پوچھو کہ حضرت نے جو کچھ پڑھا ہے

مراد آپ کی اس کے پڑھنے سے کیا ہے

مفاد اس میں دنیا کا یا دین کا ہے

نتیجہ کوئی یا کہ اس کے سوا ہے

تو مجذوب کی طرح سب کچھ بکیں گے

جواب اس کا لیکن نہ کچھ دے سکیں گے

نہ حجت رسالت پہ لاسکتے ہیں وہ

نہ اسلام کا حق جتا سکتے ہیں وہ

نہ قرآں کی عظمت دکھاسکتے ہیں وہ

نہ حق کی حقیقت بتا سکتے ہیں وہ

دلیلیں ہیں سب آج بے کار ان کی

نہیں چلتی توپوں میں تلوار ان کی

پڑے اس مشقت میں ہیں وہ سراپا

نتیجہ نہین ان کو معلوم جس کا

گئیں بھول آگے کی بھیڑیں جو بیٹا

اسی راہ پر پڑ لیا سارا گلا

نہیں جانتے یہ کہ جاتے کدھر ہیں

گئے بھول رستہ وہ یا راہ پر ہیں

مثال ان کی کوشش کی ہے صاف ایسی

کہ کھائی کہیں بندروں نے جو سردی

ادھر اور ادھر دیر تک آگ ڈھونڈی

کہیں روشنی ان کو پائی نہ اس کی

مگر ایک جگنو چمکتا جو دیکھا

پتنگا اسے آگ کا سب نے سمجھا

لیا جاکے تھام اور سب نے اسی دم

کیا گھانس پھونس اس پہ لاکر فراہم

لگے اس کو سلگانے سب مل کے پیہم

پہ کچھ آگ سلگی نہ سردی ہوئی کم

یو نہیں رات ساری انہوں نے گنوائی

مگر اپنی محنت کی راحت نہ پائی

گزرتے تھے جو جانور اس طرف سے

جب اس کشمکش میں انہیں دیکھتے تھے

ملامت بہت سخت تھے ان کو کرتے

کہ شرمائیں وہ زعم باطل سے اپنے

مگر اپنی کد سے نہ باز آتے تھے وہ

ملامت پہ اور الٹے غراتے تھے وہ

نہ سمجھے وہ جب تک ہوا دن نہ روشن

اسی طرح جو ہیں حقیقت کے دشمن

نہ جھاڑیں گے گرد تو ہم سے دامن

پہ جب ہوگا نور سحر لمعہ افگن

بہت جلد ہو جائے گا آشکارا

کہ جگنو کو سمجھے تھے وہ اک شرارا

وہ طب جس پہ غش ہیں ہمارے اطباء

سمجھتے ہیں جس کو بیاضِ مسیحا

بتانے میں ہے بخل جس کے بہت سا

جسے عیب کی طرح کرتے ہیں اخفا

فقط چند نسخوں کا ہے وہ سفینہ

چلے آئے ہیں جو کہ سینہ بسینہ

نہ ان کو نباتات سے آگہی ہے

نہ اصلا خبر معدنیات کی ہے

نہ تشریں کی لے کسی پر کھلی ہے

نہ علمِ طبیعی نہ کیمسٹری ہے

نہ پانی کا علم اور نہ علمِ ہوا ہے

مریضوں کا ان کے نگہباں خدا ہے

نہ قانون میں ان کے کوئی خطا ہے

نہ مخزن میں انگشت رکھنے کی جا ہے

سیدی میں لکھا ہے جو کچھ بجا ہے

نفیسی کے ہر قول پر جاں فدا ہے

سلف لکھ گئے جو قیاس اور گماں سے

صحیفے ہیں اترے ہوئے آسماں سے

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر

عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر

زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر

ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر

ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا

وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے

عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے

تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے

مقر جہاں نیک و بد کی سزا ہے

گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے

جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں

کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں

گویے امیروں کے نورِ نظر ہیں

ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں

مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں

خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں

جو سقے نہ ہوں جی سے جائیں گزر سب

ہو میلا جہاں گم ہوں دھوبیھ اگر سب

ہے دم پر اگر شہر چھوڑٰں نفر سب

جو تھڑ جائیں مہتر تو گندے ہوں گھر سب

پہ کرجائیں ہجرت جو شاعر ہمارے

کہیں مل کے " خس کم جہاںپاک" سارے

عرب جو تھے دنیا میں اس فن کے بانی

نہ تھا کوئی آاق میںجن کا ثانی

زمانہ نے جن کی فصاحت تھی مانی

مٹادی عزیزوں نے ان کی نشانی

سب ان کے ہنر اور کمالات کھوکر

رہے شاعری کو بھی آخر ڈبو کر

ادب میں پڑی جان ان کی زباں سے

جلا دین نے پائی ان کے بیاں سے

سناں کے لیے کام انہوں نے لساں سے

زبانوں کے کوچے تھے بڑھ کر سناں سے

ہوئے ان کے شعروں سے اخلاق صیقل

پڑی ان کے خطبوں سے عالم میں ہلچل

خلف ان کے یاں جو کہ جادوبیاں ہیں

فصاحت میں مقبول پیرو جواں ہیں

بلاغت میں مشہور ہندوستاں ہیں

وہ کچھ ہیں تولے دیکے اس گوں کے یاں ہیں

کہ جب شعر میں عمر ساری گنوائیں

تو بھانڈ ان کی غزلیں مجالس میں گائیں

طوائف کو از بر ہیں دیوان ان کے

گویوں پے بے حد ہیں احسان ان کے

نکلتے ہیں تکیوں میں ارمان ان کے

ثنا خواں ہیں ابلیس و شیطان ان کے

کہ عقلوں پہ پردے دیئے ڈال انہوں نے

ہمیں کر دیا فارغ البال انہوں نے

شریفوں کی اولاد بے تربیت ہے

تباہ ان کی حالت بری ان کی گت ہے

کسی کو کبوتر اڑنے کی لت ہے

کسی کو بٹیریں لڑانے کی دھت ہے

چرس اور گانجے پہ شیدا ہے کوئی

مدک اور چنڈو کا رسیا ہے کوئی

سدا گرم انفار سے ان کی صحبت

ہر اک رند اوباش سے ان کی ملت

پڑھے لکھوں کے سایہ سے ان کو وحشت

مدارس سے تعلیم سے ان کو نفرت

کمینوں کے جرگے میں عمریں گنوانی

انہیں گالیاں دینی اور آپ کھانی

نہ علمی مدارس میں ہیں ان کو پاتے

نہ شائتہ جلسوں میں ہیں آتے جاتے

پہ میلوں کی رونق ہیں جاکر بڑھاتے

پڑے پھرتے ہیں دیکھتے اور دکھاتے

کتاب اور معلم سے پھرتے ہیں بھاگے

مگر ناچ گانے میں ہیں سب سے آگے

اگر کیجئے ان پاک شہدوں کی گنتی

ہوا جن کے پہلو سے بچ کر ہے چلتی

ملی خاک میں جن سے عزت بڑوں کی

مٹی خاندوانوں کی جن سے بزرگی

تو یہ جس قدر خانہ برباد ہونگے

وہ سب ان شریفوں کی اولاد ہونگے

ہوئی ان کی بچپن میں یوں پاسبانی

کہ قیدی کی جیسے کٹے زندگانی

لگی ہونے جب کچھ سمجھ بوجھ سیانی

چڑھی بھوت کی طرح سر پر جوانی

بس اب گھر میں دشوار تھمنا ہے ان کا

اکھاڑوں میں تکیوں میں رمنا ہے ان کا