کفن
جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بيٹا دنوں ايک بجھے ہوئے الائو کے سامنے خاموش بيٹھے ہوئے تھے اور اندر بيٹے کي نوجوان بيوي بدھيا درد سے زدہ بچھاڑيں کھا رہي تھي، اور رہ رہ کر اس کے منہ سے اس دل خراش صدا نکلتي تھي کہ دونوں کليجہ تھام ليتے تھے، جاڑوں کي رات تھي فضا سناٹے ميں غرق سارا گائوں تاريکي ميں جذب ہوگيا تھا، گھيسو نے کہا معلوم ہوتا ہے بچے گي نہيں سارا دن تڑپتے ہوگيا جا ديکھ تو آمادھو درد ناک لہجے ميں بولا مرنا ہےتو جلدي مر کيوں نہيں جاتي ديکھ کر کيا آئو؟ تو بڑا بے درد بے سال بھر جس کے ساتھ جندگاني کا سکھ بھوگا اس کے ساتھ اتني بے وپائي، تو مجھے سے تو اس کا تڑپنا اور ہاتھ پائوں پنکنا نہيں ديکھ جاتا، چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گائوں ميں بدنام، گھسيو ايک دن کام کرتا تو تين دن آرام کرتا، مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹہ بھر چلم پيتا، اس لئے انہيں کوئي رکھتا ہي نہيں تھا، گھر ميں مٹھي بھر اناج ہو تو ان کيلئے کام کرنے کي قسم تھي۔
جب دو ايک وقت کے فاقے ہوجاتے تو گھيسو درختوں پر چڑھ کت لکڑياں توڑ لاتا اور مادھو بازار ميں اس کو بيچ آتا اور جب تک وہ پيسے رہتے دنوں ادھر ادھر مارے مارے پھرتے، جب فاقے کي نوبت آجاتي تو پھر لکڑياں توڑتے يا کوئي اور مزدوري تلاش کرتے، گائوں ميں کام کي کمي نہ تھي، کاشتکاروں کا گائوں تھا۔
محنتي آدمي کيلئے چار پچاس کام تھے، مگر ان دنوں کو لوگ اسي وقت بلاتے جب آدميوں سے ايک کا کام پاکر بھي قناعت کرلينے کے سوا اور کوئي چارہ نہ ہوتا، کاش دونوں سادھوں ہوتے تو انہيں قناعت اور توکل کيلئے ضبط نفس کي مطلق ضرورت نہ ہوتي، يہ ان کي خلقي صفت تھي، عجيب زندگي تھي ان لوگوں کي گھر ميں مٹي کے دو چار برتنوں کے سوا کوئي اثاثہ نہيں، پھٹے چھتيڑوں سے اپني عرياني ڈھانکے ہوئے دنيا مکروں سے آزاد قرض سے لدے ہوئے، گالياں بھي کھاتے تھے مگر کوئي غم نہيں۔
مسکين اتنےکہ وصول کي مطلق اميد نہ ہونے پر بھي لوگ کچھ نہ کچھ قرض دے ديتے تھے، مٹريا آلو کي فصل ميں کھيتوں سے مڑ يا آلو اکھاڑ لاتے اور بھون بھون کر کھاتے يا ديں پانچ دس اوکھ توڑ لاتے اور راتوں کو چوستے گھسيو نے اسي زاہدانہ اداز سے ساتھ سال کي عمر کاٹ لي اور مادھو بھي سعادت مند بيٹے کي طرح اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا رہا تھا، بلکہ اس کا نام اور بھي روشن کر رہا تھا، اس وقت بھي دونوں الائو کے سامنے بيٹھے آلو بھون رہے تھے، جو کسي کے کھيت سے کھود کر لائے تھے۔
گھيسو کي بيوي کا تو مدت ہوئے انتقال ہوگيا تھا، مادھو کي شادي پچھلے سال ہوئي تھي، جب سے عورت آئي تھي اس نے اس خاندان ميں تمدن کي بنياد ڈالي تھي، پسائي کرکے گھاس چھيل کر دو سير بھر آٹے کا بھي انتظام کر ليتي اور ان دونوں بے غيرتوں کا دوزخ بھرتي تھي، جب سے وہ آئي يہ دونوں اور بھي آرام طلب اور السي ہوگئے تھے، بلکہ اکڑنے بھي لگے تھے، کوئي کام سے بلا تو بے نيازي سے دو گئي مزدوري مانگتے، وہي عورت آج صبح سے دردزہ سے مررہي تھي، اور يہ دونوں انتظار کررہے تھے کہ مرجائے تو آرام سے سوجائيں، گھيسو نے آلو نکلا کر چھيلتے ہوئے کہا، جاکر ديکھ تو کيا حالت ہے اس کي پڑيل کي پھساد ہوگا، اور کيا يہاں تو اوجھا بھي ايک روپيہ مانگتا ہے کہ کس کے گھر سے آئے؟ مادھو کو انديشہ تھا کہ وہ کوٹھري ميں گيا تو گھيسو آلوں کا بڑا حصہ صاف کردے گا، بولا مجھے وہاں ڈر لگتا ہے۔
ڈر کس بات کا ہے ميں تو يہاں ہوں، تو تم ہي جا کر ديکھ لو، ميري عورت مر رہي تھي تو ميں تين دن اس کے پاس سے ہلا بھي نہيں اور پھر مجھ سے لجائے گي کہ نہيں کبھي اس کا منہ نہيں ديکھا آج اس کا گھر ہوا بدن، ديکھو اسے تن کي سدھ تونہ ہوگي، مجھے ديکھ لے گي تو کھل کر ہاتھ پائوں بھي نہ پٹک سکے گي، ميں سوچتا ہوں کہ کوئي بال بچہ ہوگيا ہوتا تو کيا ہوتا، سونٹھ، ، گڑ تيل کچھ تو نہيں ہے گھر ميں، سب کچھ آئے گا بھگوان بچہ دےتو، جو لوگ ابھي پيسہ نہيں دے رہے ہيں، وہي تب بلا کر ديں گے، ميرے نو لڑکے ہوئے، گھر ميں کبھي کچھ نہ تھا، مگر اسي طرح ہر بار کام چل گيا۔
جس سماج ميں رات دن کام کرنے والوں کي حالت ان کي حالت سے کچھ بہت اچھي نہ تھي اور کسانوں کے مقابلے ميں وہ لوگ جو کسانوں کي کمزوريوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہيں، زيادہ فارغ البال ت
ھے، وہاں اس قسم کي ذہينت کا پيدا ہوجانا کوئي تعجب کي بات نہ تھي، ہم تو کہيں گے۔
گھيسو کسانوں کے مقابلے ميں زيادہ باريک بين تھا، اور کسانوں کي تہي دماغ جمعيت ميں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کي فتنہ پرواز جماعت ميں شامل ہوگيا تھا۔
ہاں اس ميں يہ صلاحيت نہ تھي، کہ شاطروں کے آئين و ادب کي پابندي بھي کرتا، اس لئے جہاں اس کي جماعت کے اور لوگ گائوں کے سرغنہ اور
مکھيا بننے ہوئے تھے، اس پر سارا گائوں انگشت نمائي کرتا تھا، پھر بھي اسے تسکين تو تھي ہي کہ اگر وہ خستہ حال ہے، تو کم از کم اسے کسانوں کي ہي جگر توڑ محنت تو نہيں کرني پڑتي اور اس کي سادگي اور بے زباني سے دوسرے بے جا فائدہ تو نہيں اٹھاتے، دونوں آلو نکال کر جلدي جلدي کھانے لگے کل سے کچھ نہيں کھايا تھا اتنا صبر نہ تھا کہ انہيں کچھ ٹھنڈا ہوجانے ديں۔
کئي بار دونوں کي زبانيں جل گئيں، چھيل جانے پر آلو کا بيروني حصہ تو زيادہ گرم معلوم نہ ہوتا تھا، ليکن دانتوں کے تلے پڑتے ہي اندر کا حصہ زبان اور تالو اور حلق کو جلا ديتا تھا، اور اس انگارے ک ومنہ ميں رکھنے سے زيادہ خريت اس ميں تھي کہ وہ اندر پہنچ جائے، وہاں اسے ٹھنڈا کرنے کيلئے کافي سامان تھا اس لئے دنوں جلدي جلدي نگل جاتے، حالانہ کہ اس کوشش ميں انکي آنکھوں سے آنسو نکل جاتے۔
گھيسو کو اس وقت ٹھا کر کي برات ياد آئي جس ميں بيس سال پہلے وہ گيا تھا، اس دعوت ميں اس اسے جو سيري نصيب ہوئي تھي وہ اس کي زندگي ميں ايک يادگار واقعہ تھا، اور آج بھي اس کي ياد تازہ تھي بولا وہ بھوج نہيں بھولتا تب سے پھر اس طرح کا کھانا اور بھر پيٹ نہيں ملا، لڑکي والوں نے سب کو پوڑيا کھلائي تھيں، سب کو چھوٹے بڑے سب نے پوڑيا کھائيں، اور اصلي گھي کي سٹپني رائتہ تين طرح کے سوکھے ساگ ايک رسہ دار ترکاري دہي چٹني مٹھائي ، اب کيا بتائوں اس کے بھوج ميں کتنا سواد ملا تھا، کوئي روک ٹوک نہيں تھي، جو چيز ہو مانگو اور جتنا چاہو کھائو لوگوں نے تو ايسا کھايا ايسا کھايا کہ کسي سے پاني نہ پيا گيا مہر پروسنے والے ہيں کہ سامنے گرم گرم گول گول مہکتي کچوريا ڈالے ديتے ہيں منع کرتے ہيں کہ انہيں چاہے تيل کو ہاتھ سے روکے ہوئے تھے، مگر وہ ہيں کہ دئے جاتے ہيں، اور جب سب نے منہ دھو ليا تو ايک ايک بيرا پان بھي ملا مگر مجھے لينے کي کہا سدھ تھي کھڑا نہ ہوا جاتا تھا چت پٹ جا کر اپنے کمبل پر ليٹ ايسا دريا دل تھا وہ ٹھا کر مادھو نے ان تکلفات کا مزہ ليتے ہوئے کہا، کہ اب ہميں کوئي ايسا بھوج کھلاتا سادي بياہ ميں مت کھرچ کرو، کريا کرم ميں مت کھرچ کرو، پوچھو گرميوں کا مال بٹور بٹور کر کہاں رکھو گے، مگر بٹورے ميں تو کمي نے بھي نہ کھائي ہوگي چھاپٹھا تھا تو اس کا آدھا بھي نہيں ہے آلو کھا کر دونوں نے پاني پيا اور دہي الائو کے سامنے دھوتيا اوڑھ کر پائوں پيٹ ميں ڈالے سو رہے تھے، دوازے کنڈلياں مارنے پڑے ہوں اور بدھيا ابھي تک کراہ رہي تھي۔
صبح کو مادھو نے کوٹھري ميں ديکھا تو اس کي بيوي ٹھنڈي ہوگئي تھي، اس کے منہ پر مکھياں بھنک رہي تھيں، پتھرائي ہوئي آنکھيں اور پر ننگي ہوتھيں، سارا جسم خاک ميں لت پت ہورہا تھا، اس کے پيٹ ميں بچہ مرگيا تھا، مادھو بھاگا ہوا گھيسو کے پاس گيا پھر دونوں زور زور سے ہائے ہائے کرنے اور چھاتي پيٹنے لگے، پڑوس والوں نے يہ آواز سني تو دوڑے ہوئے آئے اور رسم قديم کے مطابق غم زدوں کي شفي کرنے لگے، مگر زيادہ رونے دھونے کا موقعہ نہ ملا کفن اور لکڑي کي فکر کرني تھي، گھر ميں تو پيسہ اس طرح غائب تھا جيسے چيل کے گھونسلے ميں مانس، باپ بيٹے روتے ہوئے گائوں کے زميندار کے پاس گئے وہ ان دونوں کي صورت سے نفرت کرتے تھے کئي بار نہيں اپنے ہاتھوں سے پيٹ چکا تھا، چوري کي علت ميں وعدہ پر کام پر نہ آنے کي علت ميں پوچھا کيا ہے، بے گھسوا روتا کيوں ہے، اب تو تيري صورت ہي نظر نہيں آتي ہے، اب معلوم ہوتا ہے کہ تم اس گائوں ميں رہنا نہيں چاہتے۔
گھيسو زمين پر سر رکھ کر آنکھوں ميں آنسو بھرتے ہوئےکہنے لگا سرکار بڑي بپت ميں ہو، مادھو کي گھر والي رات گجر گئي، دن بھر تڑپتي رہي سرکار رات تک ہم دنوں اس کے سرہانے بيٹھے رہے ہے دوا دارو جو کچھ ہوسکا کيا مگر وہ ہميں دگا دے گئي، اب کوئيايک روٹی دينے والا نہيں رہا مالک تباہ ہوگئے، گھر اجڑ گيا آپ کا گلام ہوں، آپ کے سوا اس کي مٹي کون پار لگائے، ہمارے ہاتھوں ميں تو جو کچھ تھا، وہ سب دوا دارو ميں اٹھ گيا۔
سرکار کي دبا ہوگي تو اس کي مٹي اٹھے گي آپ کے سوا اور کس کے دوار پرجائے، زميندار صاحب رحم دل آدمي تھے، مگر گھيسو پر رحم کرنا کالے کمبل کر رنگ جڑتا تھا جي میں آيا تو کہ دہ چل دور ہو يہاں سے لاش گھر ميں رکھ کر سڑا، يوتو بلانے سے بھي نہيں آتا، آج جب ضرورت پڑي ہے تو خود چل کر آيا ہے، خوشامد کرنے حرام خور کہيں کا، بدمعاش مگر يہ غصہ يا انتقام کا موقعہ نہيں ملا تھا، طوعا کرہادور دينے نکال کرپھيک دئيے مگر تشني کا ايک کلمہ بھي منہ سے نہ نکلا اس کي طرف تاکاتک نہيں گويا سرکا بوجھ اتارا ہو۔
جب زميندار نے دو روپے دئيے تو گائوں کے بننے مہاجنوں کو انکار کي جرات کوں کرہوتي، گھيسو زميندار کے نام سے ڈھنڈورا پيٹتا جاتا کسي نے دو آنے دئيے کسي نے چار آنے ايک گھنٹے ميں گھيسو کے پاس پانچ روپے کي معقول رقم جمع ہوگئي، کسي نے غلہ ديا، کسي نے لکڑي اور دوپہر کو گھيسو اور مادھو بازار سے کفن لانے چلے گئے، ادھر لوگ بانس دانس کاٹنے لگے، گائوں کي رقيق القلاب عورتيں لاش آرک ديکھتي تھيں، اور اس کي بے بسي پر دو بوند آنسو گر اکر چلي جاتي تھيں، بازار ميں پہنچ کر گھيسو بولا لکڑي تو اسے جلانے بھر کو مل گئي ہے کيوں، مادھو؟ مادھو بولاہاں لکڑھي تو بہت ہے اب کفن چاہئيے۔
تو کوئي ہلکا سا کفن لے ليں، ہاں اور کيا لاش اٹھتے اٹھتے رات ہوجائے گي رات کو کفن کون ديکتھا ہے، کيسا برارواج ہے کہ جسے جيتے جي تن ڈھانکنے کو چھيتڑا بھي نہ ملے اسے مرنے پر نيا کفن چاہيے، کفن لاش کے ساتھ جل ہي تو جاتا ہے، اور کيا رکھا ہے يہي پانچ روپے ملتے تو کچھ دوا دارو کرتے۔
Bookmarks