Results 1 to 7 of 7

Thread: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (دیگر مذاہب کی &#

  1. #1
    naqshbandios_limra's Avatar
    naqshbandios_limra is offline Senior Member+
    Last Online
    27th March 2023 @ 04:00 PM
    Join Date
    28 Aug 2008
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    4,267
    Threads
    499
    Credits
    1,323
    Thanked
    626

    Exclamation حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (دیگر مذاہب کی &#



    ابتدائیہ
    سب سے پہلے خالق کائنات کی حمد و ثنا ہے جس نے اپنے بے پایاں فضل و کرم سے انسان کو عظیم الشان مرتبہ بخشا اور اسے اس کائنات میں ارادہ و اختیار اور تصرف کی قوتیں دے کر خلیفہ کی حیثیت دی۔کائنات کی ساری قوتوں کو انسان کے آگے سرتسلیم خم کرنے کا حکم دیا۔صرف شیطان نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسان کی اس حیثیت کو چیلنج کر دیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ انسان کو اللہ کا نافرمان بنا دے گا اور اللہ کے اس پروگرام میں رکاوٹ ڈالے گا۔چنانچہ اللہ نے انسان کو ہمیشہ شیطان کے حملوں سے بچنے اور اپنا مطیع و فرمانبردار رہنے کا حکم دیا۔
    قرآن مجید میں ارشاد ہے


    قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ

    ہم نے فرمایا: تم سب جنت سے اتر جاؤ، پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا، نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے

    2:38



    اللہ نے جہاں انسان کو عزت و تکریم کی مسند پر متمکن کیا ، وہیں کائنات میں اس کے مقام کے پیش نظر بہت سی ذمہ داریاں بھی عاید کر دیں ۔یہ مقام تقاضا کرتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے پروگرام کی تکمیل میں معاونت کرے اور اس حاکم اعلیٰ کے قانون کو نافذکرنے کے لیے ہمہ تن مصروف رہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر علاقے اور ہر زمانے میں ، انسانوں کی راہ نمائی کے لیے اپنے انبیاء بھیجے ۔ان عظیم المرتبت ہستیوں نے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا اور انھیں شیطان کی پھیلائی ہوئی بدنظمیوں ، بدکرداریوں اور نافرمانیوں سے بچاکر اللہ کا مطیع وفرمانبردا ربنانے کی کوشش کی۔جب تک انسانیت عالم بلوغ تک نہیں پہنچی اللہ تعالیٰ ، اپنے انبیاء کے ذریعے سے ، ایک بچے کی مانند انگلی پکڑ پکڑ کر اس کی راہ نمائی کرتے رہے ۔جب دنیا ذہنی و مادی ترقی کے ایک خاص مقام پر پہنچ گئی تو اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا اور آسمانی ہدایت کی تکمیل کر کے انبیاء و رسل کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔اللہ نے ہر نبی کو نبی آخر الزمان کی حقیقت سے آگاہ کیا اور تمام آسمانی کتب میں واضح طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ان انبیاء نے اپنے مخاطبین کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے کی صورت میں آپ پر ایمان لانے کی ہدایت دی۔

    اسلام سے پہلے کے تمام مذاہب کی تعلیمات ، چونکہ ایک خاص دور، خاص علاقے اور خاص قوموں تک محدود ہوتی تھیں ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پرنازل کی جانے والی کتابوں اور صحائف کی حفاظت کا خصوصی اہتمام نہیں کیا۔ آخری ، مکمل اور ہمیشہ رہنے والے مذہب کے باعث اسلام کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اللہ نے اس کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا۔ دیگر مذاہب کی کتب میں وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے پیروکاروں کی خواہشات نفس کے باعث بے شمار تبدیلیاں ہوتی رہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعے بعض ایسی نشانیاں ان میں بھی باقی رہنے دیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں تھیں ۔ چنانچہ ہم نے اس مقالے میں دیگرمذاہب کی مقدس کتب میں ملنے والی ان نشانیوں اور پیش گوئیوں کا ذکر کیا ہے ، جن کا تعلق نبی آخرالزمان سے جوڑ ا جا سکتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے ان مذاہب کے پیروکاروں کی تحریف سے محفوظ رکھی ہیں ۔ہم نے دور حاضر کے چار اہم مذاہب، یہودیت، نصرانیت، ہندوازم، سکھ مذہب اور بدھ مت کی کتب میں مذکوران مقامات کا جائزہ لیا ہے ، جن کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑا جا سکتا ہے ۔


    دعائے خلیل
    اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان پیغمبر او ر اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی مثال آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے مختلف باتوں میں آزمایا اور انھوں نے تسلیم ورضا اور اطاعت و فرمانبرداری کے ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی تو اللہ نے ان کو اپنا خلیل قرار دیا اور خلیل کے ہر عمل کی تقلید قیامت تک کے انسانوں پر فرض کر دی۔چنانچہ خلیل اللہ اور ذبیح اللہ نے کعبہ کی تعمیر کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی جس کی قبولیت کا عندیہ بھی اللہ تعالیٰ نے دے دیا۔ انھوں نے فرمایا



    رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ

    اے ہمارے رب ! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے

    2:129
    Khanqah Daruslam

  2. #2
    naqshbandios_limra's Avatar
    naqshbandios_limra is offline Senior Member+
    Last Online
    27th March 2023 @ 04:00 PM
    Join Date
    28 Aug 2008
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    4,267
    Threads
    499
    Credits
    1,323
    Thanked
    626

    Default




    تورات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
    حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کا نام یہود ہے ۔ان کی مذہبی کتاب، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ تورات یا عہد نامہ قدیم ہے ۔ موجودہ عبرانی تورات انتالیس کتابوں پر مشتمل ہے ۔ ان میں سے پانچ کتب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر مشتمل ہیں ۔ یہ پیدائش ، خروج ، احبار، گنتی اور استثنا ء ہیں ۔ باقی چونتیس کتب بھی مختلف انبیاء اور شخصیات سے منسوب ہیں ۔ تورات کا یونانی نسخہ مزید سات کتب کے اضافے کے ساتھ چھیالیس کتابوں پر مشتمل ہے ۔ تورات میں متعدد مقامات پر نہایت واضح الفاظ میں ایک آنے والے نبی کا ذکر موجود ہے

    ’’میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ انھیں وہ سب کچھ بتائے گا جس کا میں اسے حکم دوں گا۔اگر کوئی شخص میرا کلام جسے وہ میرے نام سے کہے گا، نہ سنے گا تو میں خود اس سے حساب لوں گا۔‘‘
    [۱]

    عیسائی علما اس آیت کا مصداق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرار دیتے ہیں ۔ لیکن جب ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے آپ کسی طرح بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند نہیں تھے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام عام انسانوں کی طرح پیدا ہوئے ۔انہوں نے شادی کی۔ان کی وفات عام طریقے سے ہوئی ۔ان کو کتاب اور شریعت دی گئی۔ہجرت کے مرحلے سے گزر کر ان کی قوم کو اقتدار حاصل ہوا ۔ انھوں نے عملی طور پر اللہ کے احکا م کو نافذ کیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالیں تو وہ اپنی پیدائش، عملی زندگی ، دعوت ، وفات وغیرہ کے لحاظ سے کسی طرح بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل نہیں تھے بلکہ ان سے مکمل طور پر مختلف تھے ۔ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی پیدایش، شادی، اولاد، وفات اورشریعت ، ہر طرح سے ان کے مماثل تھے ۔

    یہود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد اور مسلمانوں کے دشمنی کی وجہ یہی چیز تھی۔ وہ اپنی کتابوں اور انبیاء بنی اسرائیل کی پیش گوئیوں کی روشنی میں ایک آنے والے نبی کے انتظار میں تھے ۔ ان کو اس حد تک نبی کی آمد اور آمد کے مقام کا اندازہ تھا کہ انھوں نے مدینہ کو اپنا مرکز بنا لیا تھا اور عربوں کو اکثر یہ بات جتاتے تھے کہ ہمار ا نبی آنے والا ہے اور ہم اس کے ساتھ مل کر عرب پر غلبہ حاصل کر لیں گے ۔وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کو اچھی طرح سے پہچانتے تھے ۔
    قرآن مجید نے اس بات کو اس طرح سے بیان کیا ہے

    وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ

    حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی (کی دعا) مانگتے تھے، سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہو گئے

    2:89

    اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی کتابوں میں بیان کردہ نشانیوں کی وجہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے یقین کے ساتھ بطور نبی جانتے اور پہچانتے تھے ۔انھیں اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس کیفیت کو نہایت بہتریں مثال کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ ارشاد ہے


    الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

    اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی شان و عظمت) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اور یقیناً انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے
    2:146


  3. #3
    naqshbandios_limra's Avatar
    naqshbandios_limra is offline Senior Member+
    Last Online
    27th March 2023 @ 04:00 PM
    Join Date
    28 Aug 2008
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    4,267
    Threads
    499
    Credits
    1,323
    Thanked
    626

    Exclamation

    عہد نامہ قدیم میں حضرت داؤد سے منسوب کتاب زبورکی ایک نص سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے نبی تھے ۔ کیونکہ اگر آپ سچے نبی نہ ہوتے تو اس تحریر کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی طرح ناکامی سے دوچار ہوتے اور اللہ کی طرف سے سزا کے حق دار ٹھہرتے ۔

    زبور میں لکھا ہے
    ’’کیونکہ شریروں کی قوت توڑ دی جائے گی، لیکن خداوند راست بازوں کو سنبھالتا ہے ۔خداوند کامل لوگوں کے ایام کو جانتا ہے ، ان کی میراث ہمیشہ قائم رہے گی۔وہ آفت کے وقت مرجھائیں گے نہیں ، وہ قحط کے دنوں میں بھی آسودہ رہیں گے ۔لیکن شریر نیست و نابود ہوجائیں گے ۔خداوند کے دشمن کھیتوں کی شادابی کی مانند ہوں گے ، وہ دفعتا غائب ہو جائیں گے ، جیسے دھواں غائب ہو جاتا ہے ۔‘‘
    [2]

    کتاب استثنا میں ایک جگہ واضح طو رپر انبیاء کے آنے کے مقامات کا ذکرکرنے کے بعدکسی نبی کے کوہ فاران سے آنے کے بارے میں لکھا ہے ، جو کہ ہر لحاظ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا اترتا ہے

    اس نے کہا خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر ظاہر ہوا: اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا۔وہ جنوب سے اپنی پہاڑ ی ڈھلانوں میں سے لاتعداد مقدسوں کے ساتھ آیا۔
    [۳]

    سابقہ تمام مذاہب کی کتابوں میں تاریخ میں وقوع پزیر ہونے والے معمولی واقعات کی پیش گوئیاں بھی موجود ہیں اور وہ نہایت واضح الفاظ میں نام و مقامات کی تعیین کے ساتھ موجود ہیں ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد نے تاریخ کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ کروڑ وں لوگوں نے آپ کے پیغام پر لبیک کہا اور دنیا کے بہت بڑ ے حصے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کی حکومت قائم ہوئی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عظیم الشان واقعے کا ذکر سابقہ انبیاء نے نہ کیا ہو۔صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتب میں بیان کردہ ایسی پیش گوئیوں کو عمدا غائب کیا گیا ہے ۔

    کتاب پیدایش میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ہے

    ’’اور اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی۔میں یقینا اسے برکت دوں گا۔میں اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑ ھاؤں گا۔اس سے بار ہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑ ی قوم بناؤں گا۔‘‘
    [۴]

    عربی زبان کے بعض پرانے تراجم میں ان الفاظ کا اضافہ بھی موجود ہے

    ’’اور اسے برومند کروں گا اور ’’ماد ماد ‘‘ کے ذریعے اسے بڑ ا بناؤں گا۔‘‘
    قاضی عیاض نے ’’مادماد‘‘ کوعبرانی زبان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام کے طورپر ذکر کیا ہے ۔
    [۵]


    انجیل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
    انجیل عیسائی مذہب کی مقدس کتاب ہے ۔اسے عہد نامہ جدید بھی کہتے ہیں ۔یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب کی جاتی ہے ۔ یہ کتاب اپنی اصل حالت میں نہیں ہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد ، زبانی روایات کی صورت میں سینہ بسینہ منتقل ہوتی رہی۔ اس کے چار حصے چار مختلف حواریوں سے منسوب ہیں

    جنھیں انجیل متی، انجیل مرقُس ، انجیل لوقا اورانجیل یوحنا کہا جاتا ہے ۔

    اس کے علاوہ رسولوں کے اعمال، پَولُسْ رسول ، یعقوب، پطرس ، یوحنا اور یہوداہ کے خطوط اور یوحنا عارف کا مکاشفہ شامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ خوش خبری دی تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بعد ان کے اس کام کی تکمیل کریں گے ۔جیسے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :


    وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ

    اور (وہ وقت بھی یاد کیجئے) جب عیسٰی بن مریم (علیہما السلام) نے کہا: اے بنی اسرائیل! بیشک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسولِ (معظّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، پھر جب
    وہ (رسولِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے
    61:06


  4. #4
    naqshbandios_limra's Avatar
    naqshbandios_limra is offline Senior Member+
    Last Online
    27th March 2023 @ 04:00 PM
    Join Date
    28 Aug 2008
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    4,267
    Threads
    499
    Credits
    1,323
    Thanked
    626

    Default

    اسی طرح انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب الفاظ اس طرح سے ہیں

    ’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمھیں ایک اور مددگا ر بخشے گا تاکہ وہ ہمیشہ تک تمہارے ساتھ رہے ۔‘‘
    [۶]


    اسی طرح انجیل یوحنا کے اگلے باب میں لکھا ہے
    ’’جب وہ مددگار یعنی روح حق آئے گا جسے میں باپ کی طرف سے بھیجوں گا تو وہ میرے بارے میں گواہی دے گا۔
    [۷]

    انجیل کے یونانی نسخوں میں ’’مددگار‘‘ کے لیے لفظ
    "Paracletos"
    استعمال ہوا ہے ، جب کہ انگریزی نسخوں میں
    "Paracletos
    " کا ترجمہ "
    Comfortor"
    مددگار کر دیا گیا ہے ۔جب کہ
    "Paracletos"
    کا صحیح ترین ترجمہ
    ’’A kind friend ‘‘
    یا ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر ہم قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو یہ لفظ اصل میں
    "Paracletos"
    کے بجائے
    "Periclytos"
    ہے جس کا ترجمہ عربی زبان میں ’’احمد یا محمد‘‘ اور انگریزی میں
    "the praised one"
    ہے


    اہل کتاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اچھی طرح جانتے تھے ۔اور یہ تعارف کوئی نیا نہیں بلکہ صدیوں سے تھا۔اس کی مثال انجیل یوحنا میں موجود اس مکالمے سے دی جا سکتی ہے جو یہودی علما اور یوحنا کے درمیان ہوا تھا:

    ’’یروشلم شہر کے یہودی بزرگوں نے بعض کاہنوں اور لاویوں کو یوحنا کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس سے پوچھیں کہ وہ کون ہے ۔یوحنا نے صاف صاف اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ۔
    انھوں نے اس سے پوچھا: پھر تو کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ یوحنا نے جواب دیا: میں وہ بھی نہیں ہوں ۔پھر پوچھا: کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا نہیں ۔‘‘
    [۸]

    ’’وہ نبی‘‘ سے مراد وہی ہستی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کی بشار ت اس سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام دے چکے تھے ۔اور یہود میں آپ کے آنے کی خبر اتنی عام تھی کہ بغیر نام لیے لوگ سمجھ لیتے تھے کہ اس سے کون مراد ہے ۔اسی لیے جب وہ نبی کہہ کر یوحنا سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں وہ نبی نہیں ہوں ۔

    انجیل کے مطابق اپنے آخری زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا

    ’’مجھے تم سے اور بھی بہت کچھ کہنا ہے مگر ابھی تم اسے برداشت نہ کر پاؤ گے ۔لیکن جب وہ ’’روح حق‘‘ آئے گا تو وہ ساری سچائی کی طرف تمہاری راہ نمائی کرے گا۔وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا ، بلکہ تمہیں صرف وہ بتائے گا جو وہ سنے گا اور مستقبل میں پیش آنے والی باتوں کی خبر دے گا۔‘‘
    [۹]

    ان نشانیوں سے صاف طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نشان دہی ہو رہی ہے ۔ آپ کو عرب میں صادق و امین کہا جاتا تھا۔ آپ غیب کی خبریں اور ایسی باتیں بتایا کرتے تھے ، جن سے عر ب کے لوگ واقف نہیں تھے ۔

  5. #5
    naqshbandios_limra's Avatar
    naqshbandios_limra is offline Senior Member+
    Last Online
    27th March 2023 @ 04:00 PM
    Join Date
    28 Aug 2008
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    4,267
    Threads
    499
    Credits
    1,323
    Thanked
    626

    Default


    ہندو مذہب کی کتابوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
    ہندو مذہب اگرچہ، مختلف النوع بتوں ، دیویوں اور دیوتاوٗں پر مشتمل بت پرستی کے عقائد باطلہ سے بھر پور ہے ، لیکن اس کی مذہبی کتب ویدوں میں کئی مقامات پر ایسی حکیمانہ باتیں اور آخری زمانے میں آنے والی ایک ایسی شخصیت کا ذکر موجود ہے ، جس کی علامتیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی پر پوری نہیں اترتی ہیں ۔ اس لیے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چونکہ ہر دور اور ہر علاقے میں اپنے انبیاء کے ذریعے سے انسانوں کی راہ نمائی کی ہے ، اس لیے عین ممکن ہے کہ ہندو مذہب بھی اپنی ابتدا میں الہامی ہدایات پر مشتمل ہو ۔ بعد کے زمانے میں یہودیت اور نصرانیت کے پیروکاروں کی طرح، ہندوؤں کے مذہبی طبقے نے بھی اپنی خواہشات کی پیروی میں خدائی احکام میں تحریف کر دی ہو۔ جس طرح ہمارے پاس ہندو مذہب کو الہامی قرار دینے کے لیے کوئی واضح نص موجود نہیں ہے ، اسی طرح اسے غیر الہامی ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی ایسی جامع و مانع دلیل نہیں ہے ، جو فیصلہ کن ہو۔

    چنانچہ ہم ہندو مت کی مذہبی کتب کی بعض تحریروں کی روشنی میں یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ اس مذہب کی تعلیمات اپنی ابتدا میں آفاقی ہدایت پر مشتمل تھیں اور بعد کے زمانے میں اس کے ماننے والوں نے تحریف کی ہے ۔ ہم اس مقالے میں ان کتب سے کچھ ایسے اقتباسات پیش کرتے ہیں ، جن کا مصداق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو سکتے ہیں ۔ہندو وں کی مقدس کتابوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے :

    1
    وید

    2
    پران

    3
    اپنشد


    وید
    ہندو مذہب کی مقدس کتب کو وید کہتے ہیں ۔ ان کی تعدا دچار ہے
    1۔ رِگ وید 2۔ یجر وید 3۔ سا م وید 4۔ اتھر وید

    ان کتب میں کئی مقام پر ایسی پیش گوئیاں موجو د ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخصیت پر پوری نہیں اترتی ہیں ۔ مثلا اتھر وید میں کاند: ۲۰ / سوکت: ۱۲۷ / منتر نمبر ۱تا ۱۴ میں نر اشنس کے بارے میں اس طرح سے تفاصیل درج ہیں

    ۱۔
    ’’ لوگو، احترام سے سنو، نراشنس کی تعریف کی جائے گی، ہم اس مہاجر یا امن کے علم بردار کو ساٹھ ہزار نوے دشمنوں کے درمیان محفوظ رکھیں گے ۔‘‘

    تشریح
    نراشنس سنسکرت زبان کا لفظ ہے ۔’’نر‘‘ کے معنی انسان اور ’’اشنس‘‘ کا مطلب ایسی شخصیت ہے جس کی کثرت سے تعریف کی جائے ۔ اس کا عربی مترادف ’’ محمد ‘‘ ہے ۔اس منتر میں بیان کردہ شخصیت کو مہاجر اور امن کے علم بردار کا خطاب بھی دیا گیا ہے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور قبائل اوس و خزرج اور پورے عرب قبائل کے درمیان صدیوں سے جاری جنگوں کا خاتمہ کیا۔

    ساٹھ ہزار نوے دشمنوں کا اندازہ ان اعداد وشمار سے کیا جا سکتا ہے ۔قبائل یہود کی تعداد دس ہزار، قریش اور ان کے حلیف دس ہزار، غزوہ تبوک میں چالیس ہزار، اسی منافقین جنہوں نے تبوک جانے سے معذرت کی اور دس وہ لوگ جنہوں نے آپ کو انفرادی طور پر شہید کرنے کی کوشش کی۔

    ۲۔
    ’’ اس کی سواری اونٹ کی ہو گی ۔اس کی بارہ بیویاں ہوں گی۔اس کا درجہ اتنا بلند اور اس کی سواری اتنی تیز ہو گی کہ وہ آسمان کو چھوئے گی ، پھر اتر آئے گی۔‘‘

    تشریح
    اس منتر کا مصداق آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ کی سواری بالعموم اونٹ ہوتی تھی اور آپ کی ازواج کی تعداد بارہ تھی۔(گیارہ ازواج اور ایک ماریہ قبطیہ لونڈی)۔ اللہ نے ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ کہ کر آپ کے مقام کو بلند کیا۔آپ سے زیادہ بلند مقام کسی اور نہیں دیا۔ آ پ کی سواری سے مراد براق ہے ، جس کے ذریعے لمحوں میں ، شب معراج میں ، کائنات کے مختلف گوشوں سے آپ کو روشناس کرا کر واپس دنیا میں پہنچا دیا گیا۔

    ۳۔
    ’’ اس نے فاتح، رشی کو سو اشرفیاں ، دس ہار، تین سو گھوڑ ے اور دس ہزار گائیں عطا کیں ۔

    تشریح
    سو اشرفیوں سے مراد مکہ میں آپ پر ایمان لانے والے سو صحابہ تھے جنہوں نے حبشہ ہجرت بھی کی۔دس ہار سے مراد عشرہ مبشرہ، تین سو گھوڑوں سے اصحاب بدر اور دس ہزار گائیوں سے مراد فتح مکہ کے موقع پر آپ کے دس ہزار ساتھی ہیں ۔

    ۴۔
    ’’ تبلیغ کر اے احمد! تبلیغ کر جیسے چڑ یاں پکے ہوئے پھل والے درخت پہ چہچہاتی ہیں ۔ تیری زبان اور تیرے دونوں ہونٹ قینچی کے دونوں پھلوں کی طرح چلتے ہیں ۔‘‘

    تشریح
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ کے عمل کو پھل دار درخت پر چڑ یوں کے چہچہانے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔اور آپ کا کلام قرآن مجید قینچی کے دو پھلوں کی طرح حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے ۔

    ۵۔
    حمد کرنے والے اپنی حمدوں کے ساتھ یا نمازی اپنے نمازوں کے ساتھ طاقت ور سانڈ کی طرح جنگ میں جاتے ہیں ۔ اور ان کی اولاد اپنے گھروں میں یوں مامون رہتی ہے جیسے گائے اپنے ٹھکانوں میں ۔

    تشریح
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی حمد کرنے والے اور نمازی لوگ ہیں جو ہر حال میں اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ۔حالت جنگ میں وہ شیروں اور طاقت ور سانڈوں کی طرح لڑائی کرتے ہیں اور انھیں کسی کا کوئی ڈر نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء کے دور میں امن و امان کی صورت حال یہ تھی کہ سالوں تک کہیں کوئی معمولی جرم بھی نہیں ہوتا تھا اور لوگ انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اتنے محفوظ و مامون تھے ۔

    ۶۔
    اے احمد اس کلام حکیم کو مضبوطی سے پکڑ کہ یہ گایوں اور مالوں کی اساس اور اسے متقیوں تک پہنچا جیسے بہادر نشانے پر تیر مارتا ہے ۔

    تشریح
    کلام حکیم سے مراد قرآن مجید ہے جو دیناوی اور اخروی برکات کا ماخذ و منبع ہے ۔ اللہ نے اسے مضبوطی سے پکڑ نے کا حکم دیا تھا ۔ قرآن میں ارشاد ہے

    واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفر قوا۔
    اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری لگائی تھی کہ اللہ کا پیغام بنی نوع انسان تک پہنچا دیں ۔

    ۷۔
    وہ دنیا کا سردار جو دیوتا ہے سب سے افضل انسان ہے ، سارے لوگوں کا رہنما اور سب قوموں میں معروف ہے ۔ اس کی اعلیٰ ترین تعریف گنواؤ۔

    تشریح
    اس منتر میں نبی کریم کو سردار اور دیوتا کہا گیا ہے ۔ آپ کو سب سے افضل انسان اور راہ نما بیان کیا گیا ہے ۔آ پ کو قیامت تک کے لیے نبی بنایا گیا ہے اور آپ کی آمد کی پیش گوئیاں تما م قوموں اور مذاہب میں معروف تھیں ۔اعلیٰ تریں تعریف سے مراد قیامت تک آپ پر بھیجا جانے والا درود و سلام ہے جس کا خود اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ۔

  6. #6
    naqshbandios_limra's Avatar
    naqshbandios_limra is offline Senior Member+
    Last Online
    27th March 2023 @ 04:00 PM
    Join Date
    28 Aug 2008
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    4,267
    Threads
    499
    Credits
    1,323
    Thanked
    626

    Exclamation


    ۱۱۔
    اللہ نے احمد کو جگایا اور کہا اٹھ اور یہاں وہاں لوگوں کے پاس جا اور میری بڑ ائی بیان کر یقینا میں ہی غالب ہوں ۔میں تجھے ساری نعمتوں سے نواز دوں گا۔
    [۱۰]

    تشریح
    گیارہویں منتر کو سمجھنے کے لیے سورہ مدثر کی ابتدائی آیات کا مطالعہ ہی کافی ہے


    یآٰیھا المدثر ۔ قم فانذر ۔ وربک فکبر ۔ وثیابک فطھ ر۔ والرجز فَاھْجُرْ ۔ وًلَاتَمْنُنْ تستکثر ۔ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ

    اے چادر اوڑھنے والے ۔ اٹھ اور آگاہ کر دے ۔ اور اپنے رب کی بڑ ائی بیان کر۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ ۔ ناپاکی سے احتراز کر۔ اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر۔ اور اپنے رب کی راہ میں صبر کر۔
    74: 1-7


    رِگ وید ۱ : ۹ تا ۱۸ میں ہے
    ’’میں نے محمد کو دیکھا ہے ۔سب سے زیادہ اولوالعزم اور سب سے زیادہ مشہور، جیسا کہ وہ جنت میں ہر ایک کے پیغمبر تھے ۔‘‘

    رگ وید کے کاند۱۹:سوکت ۱۶۳، منتر نمبر۱ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’سمدرادوت عربن‘‘استعمال کیے گئے ہیں ۔

    سَ (ساتھ) مُدرا (مہر) عربن (عرب سے تعلق رکھنے والا)۔ یعنی عرب سے تعلق رکھنے والا، خاتم النبیین۔

    پُران
    ہندو مذہب کی مقدس کتابوں میں پران بھی بہت زیادہ تقدس کے حامل ہیں ۔ پرانوں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واضح الفاظ میں پیش گوئیاں ملتی ہیں ۔

    مثلا شری مد بھاگوَت ، مہاتم پران (۲:۷۶) میں لکھا ہے
    ’’گیان ہیتو کرِت موح مد اندھکارنا شم ودھایم ہی تدد دیتے ویوہکہ ۔‘‘
    [۱۲]

    ’’ جب بے شمار ادوار حیات میں اجتماعی خیر کے طلوع ہونے سے انسان کو حق کا فیضان حاصل ہونے والا ہو تب محمد کے ذریعے تاریکیوں کا خاتمہ ہو کر فہم و حکمت کا نور طلوع ہو گا۔‘‘

    اسی طرح بھوشیہ پران، پرتی سگ پرو، کھنڈ۳، ادھیائے ۳، اشلوک نمبر۵ تا ۱۶ میں راجہ شک راج کاذکر ہے جو’’ ہُن دیس‘ موجودہ عراق پہنچے تو پہاڑ میں بیٹھے ہوئے سفید لباس سے آراستہ ایک مرد کو دیکھا۔جس نے پوچھنے پر بتایا کہ میں مسیح ہوں ۔چنانچہ انھوں نے راجہ کے ساتھ سوال و جواب کیا اور راجہ کے استفسار پر فرمایا

    ’’ اسی دوران اپنے پیروؤں کے ساتھ محمد نامی مقدس ملیچھ وہاں آئیں گے ۔
    [۱۳]

    راجا بھوج ان سے کہے گا: اے ریگستان کے باشندے ، شیطان کو شکست دینے والے ، معجزون کے مالک، برائیوں سے پاک و صاف ، برحق، باخبر اور خدا کے عشق و معرفت کی تصویر، تمھیں نمسکار ہے ۔تم مجھے اپنی پناہ میں آیا ہوا غلام سمجھو۔ راجا بھوج کے پاس رکھی ہوئی پتھر کی مورتی کے لیے محمد کہیں گے کہ وہ تو میرا جھوٹا کھا سکتی ہے ۔یہ کہہ کر راجا بھوج کو ایسا ہی معجزہ دکھا دیں گے ۔یہ سن اور دیکھ کر راجا بھوج بہت متعجب ہو گا اور ملیچھ دھرم میں اس کا اعتقاد ہو جائے گا۔‘‘
    [۱۴]


    بدھ مت کی تعلیمات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر
    جس طرح باقی مذاہب میں ایک آنے والی عظیم الشان ہستی کے بارے میں پیش گوئیاں موجود ہیں ، جو آخری زمانے میں آئے گی ، اسی طرح بدھ مت کی تعلیمات میں بھی ایسی شخصیت کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کی علامات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور پر پوری نہیں اترتیں ۔بدھ مت کی زبان میں رسول کو بدھ کہا جاتا ہے ۔لفظ بدھ ، بدھی سے ہے جس کا معنیٰ عقل و دانش ہے ۔گوتم بدھ نے اپنے شاگرد نندا کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا


    ’’نندا ! اس دنیا میں ، میں نہ تو پہلا بدھ ہوں اور نہ آخری۔اس دنیا میں حق وصداقت اور فلاح و بہبود کی تعلیم دینے کے لیے ، اپنے وقت پر ایک اور بدھ آئے گا۔وہ پاک باطن ہو گا۔اس کادل مصفیٰ ہو گا۔علم و دانش سے بہرہ ور اور سرور عالم ہو گا۔جس طرح میں نے دنیا کو حق کی تعلیم دی ہے ، اسی طرح وہ بھی دنیا کو حق کی تعلیم دے گا۔ اور وہ دنیا کو ایسی شاہراہ حیات دکھائے گا جو صاف اور سیدھی ہو گی۔نندا ، اس کا نام’ میترئے ‘ ہو گا۔‘‘
    [۱۵]

    بدھ مت میں جس آنے والے کا ذکر کیا گیا ہے ، اس کا نام ’’میترئے ‘‘ بتایا گیا ہے ۔میترئے کا مفہوم ’’رحمۃ للعالمین ‘‘ ہے ۔ بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ ’’رحم ‘‘ اور بعض نے ’’صاحب رحم ‘‘ کیا ہے ۔

    بدھ کی جو صفات ، بدھ مت کی کتب میں بیان کی گئی ہیں ، پنڈت وید پرکاش نے ان کاذکر اس طرح سے کیا ہے

    ’’۱۔ بدھ خدا کا نمائندہ اور صاحب ثروت ہوتا ہے ۔
    ۲۔ بدھ صاحب اولاد ہوتا ہے ۔
    ۳۔ بدھ بیوی والا اور صاحب حکومت ہوتا ہے ۔
    ۴۔ بدھ اپنی طبعی حیات کو پورا کرتا ہے ۔‘‘
    [۱۶]

    چنانچہ جب ہم ان صفات پر سابقہ تمام مزعومہ ہستیوں کو جانچتے ہیں تو صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی نظر آتے ہیں جو ان علامات کا مصداق ہیں ۔پنڈت وید پرکاش نے بدھ کی صفات کا جائزہ لیتے ہوئے ہر پہلو سے بدھ کی شخصیت کو جانچنے کے بعد خلاصہ بحث کے طور پر جو نتیجہ نکالا ہے وہ ان الفاظ میں ہے :

    ’’اس طرح یہ حقیقت اچھی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ بودھ مت کی کتابوں میں جس میترئے کے ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے ، وہ آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔‘‘
    [۱۷]


    حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم زرتشت کی تعلیمات میں
    قدیم ترین ایرانی مذہب مجوسیت، جس کے بانی زرتشت (یا زردشت) ہیں اور ان کی مقدس کتا ب کا نام ’’اوستا‘‘ ہے ۔ اس کتاب میں بھی ایک آنے والی ہستی کی پیش گوئیاں موجود ہیں ۔


    اوستا میں لکھا ہے
    ’’ایک مرد سرزمین نازیان سے جو ہاشم کی ذریت سے ہو گا، خروج کرے گا۔ اپنے جد کے دین اور فراوان لشکر کے ہمراہ ایران کی طرف آئے گا، زمین کو آباد کرے گا اور اس کو عدل سے بھر دے گا۔‘‘
    [۱۸]

  7. #7
    naqshbandios_limra's Avatar
    naqshbandios_limra is offline Senior Member+
    Last Online
    27th March 2023 @ 04:00 PM
    Join Date
    28 Aug 2008
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    4,267
    Threads
    499
    Credits
    1,323
    Thanked
    626

    Default

    سبحان اللھ

Similar Threads

  1. Replies: 16
    Last Post: 21st January 2021, 09:48 PM
  2. Replies: 89
    Last Post: 21st January 2021, 09:46 PM
  3. Replies: 7
    Last Post: 4th December 2012, 08:15 PM
  4. Replies: 6
    Last Post: 15th May 2010, 11:54 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •