قبائلی علاقوں میں ازبک جنگجو عوامی حمایت سے محروم
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پاکستانی فوج اور ہمسایہ ملک افغانستان میں اتحادی افواج کے ساتھ برسر پیکار اسلامی تحریک برائے ازبکستان (آئی ایم یو) سے وابستہ ازبک عسکریت پسندوں کی شہرت انتہائی درندہ صفت جنگجوؤں کی ہے۔
افغانستان کی سرحد سے منسلک پاکستان کے پہاڑی قبائلی علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد سے ان کی درندہ صفت فطرت کی اطلاعات نے مقامی آبادی میں ان کی مقبولیت کو انتہائی کم کر دیا ہے۔ پاکستان کے عسکری تجزیہ کاروں کے بقول پاکستانی فوج اور افغانستان میں اتحادی افواج کی کارروائیوں کے نتیجے میں ازبک جنگجوؤں کی تعداد اب 1,000 کے قریب رہ گئی ہے۔ 2007 میں ازبک جنگجوؤں کی تعداد (چیچن، تاجک اور یوغر باشندوں سمیت) تقریباً 4,500 تھی۔
ازبک جنگجو پہلی بار 1980 کے عشرے میں سوویت افواج سے لڑنے کے لئے افغانستان آئے تھے۔ تاہم، سوویت یونین کی تحلیل اور اس کے نتیجے میں اقتدار پر قبضے کے لئے افغانستان کی سیکولر حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ کے کافی عرصے بعد بھی وہ یہاں موجود ہیں۔
"یہ وہ وقت تھا جب القاعدہ بھی افغانستان میں اپنے پنجے گاڑ رہی تھی اور وہ بیشتر ازبک جنگجوؤں کو اپنے نزدیک 'کافروں' یا 'اسلام کے دشمنوں' کے خلاف جہاد پر مائل کرچکی تھی"، عسکری تجزیہ کار اور قبائلی علاقوں کی سلامتی کے ذمہ دار سابق سیکرٹری ریٹائرڈ بریگیڈیر محمود شاہ نے بتایا۔
"القاعدہ بعض وسط ایشیائی ریاستوں پر قبضہ کرنا چاہتی تھی اور افغانستان اور پاکستان میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافے کی خواہش مند تھی تاکہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی جاسکے"، شاہ نے کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ ازبک جنگجوؤں کی لڑنے کی صلاحیتوں سے بھی فائدہ اٹھانا چاہتی تھی، جن میں سے بیشتر اسلامی تحریک برائے ازبکستان سے نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں۔
"وہ بہترین جنگجو ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انتہائی بے رحم ہیں۔ پاکستانی طالبان بھی کافی حد تک ان کی حربی مہارت پر انحصار کرتے ہیں، اور وہ ہمیشہ [طالبان] کے ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہے ہیں"، پشاور میں انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے مقامی مدیر اسماعیل خان نے بتایا۔
خان کا کہنا تھا کہ ازبک جنگجو پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور انہوں نے طالبان کی حربی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ "پاکستانی فوجی حکام بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں"، انہوں نے کہا۔
جب ازبک جنگجوؤں نے سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لئے افغانستان کا رخ کیا تو اس وقت ان کی قیادت جمعہ نمنگانی کے ہاتھ میں تھی۔ پاکستانی انٹیلیجنس اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ بعد میں افغانستان میں القاعدہ کی قیادت نے 1999 اور 2000 کے دوران کابل کے نزدیک کرغہ میں ازبک جنگجوؤں اور بعض پاکستانی عسکریت پسند (جہادی) تنظیموں کے لئے تربیتی کیمپ قائم کئے۔
2001 میں افغانستان کے صوبے پکتیکا میں اتحادی فوج کے ایک فضائی حملے میں جمعہ نمنگانی ہلاک ہوگئے۔ ان کی وفات کے بعد طاہر یلداش نے ازبک جنگجوؤں کی کمان سنبھال لی۔ 2009 میں یلداش کی ہلاکت سے متعلق افواہیں گرم تھیں لیکن وہ رواں ماہ کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک نئی وڈیو میں دکھائی دیے۔
افغانستان میں کرغہ اور دیگر تربیتی کیمپوں میں پاکستان کے قبائلی عسکریت پسند کمانڈروں مثلاً نیک محمد، مولوی نذیر، فقیر محمد، مولوی لیاقت اور دیگر کو ازبک جنگجوؤں کو جاننے کا موقع ملا اور جب اتحادی افواج نے انہیں افغانستان سے باہر نکال دیا تو وہ جنوبی وزیرستان کے علاقوں اعظم وارسک، وانا اور کلوشہ میں آباد ہوگئے۔
ابتدا میں قبائلی علاقوں کے باشندوں نے ازبک جنگجوؤں کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے باشندوں نے بتایا کہ طالبان کے ساتھ ہمدردیاں رکھنے والے افراد نے اپنی لڑکیوں کو ازبکوں کے نکاح میں دے دیا، انہیں زرعی زمینیں کرایہ پر دیں اور ان کے ساتھ مل کر کاروبار کرنے لگے۔
تاہم، مقامی قبائلی ذرائع کا کہنا ہے کہ 2007 میں مولوی نذیر کی زیر سربراہی ایک طالبان نواز گروپ نے ان کی ظالمانہ سرگرمیوں کے باعث انہیں جنوبی وزیرستان سے نکال دیا۔ اس کے بعد ازبک جنگجوؤں نے شمالی وزیرستان میں پناہ لے لی۔ وہاں وہ دو گروپوں میں بٹ گئے جس میں یحیٰی مرادوف نے اسلامی جہاد یونین کا اپنا دھڑا قائم کر لیا۔ ازبک جنگجوؤں کا ایک اور گروپ اسلامی تحریک برائے ترکستان کے پرچم تلے چین کے ژن ژیانگ صوبے سے تعلق رکھنے والے یوغر النسل اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ مشترکہ مقصد میں شامل ہو گیا۔
ازبک جنگجوؤں کی شہرت اپنے مخالفوں کے سر قلم کرنے اور دیگر سفاکانہ اقدامات کی ہے۔ اس کے مقابلے میں قبائلی علاقوں کے عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ ان طریقوں کے خلاف ہیں۔
وزیرستان کے ایک سرگرم قبائلی سیاسی کارکن ڈاکٹر سید عالم محسود نے بتایا کہ ازبک "کرایے کے جنگجو ہیں۔ وہ انسانی جذبات سے بالکل عاری ہیں اور وہ انسانوں کا بالکل احترام نہیں کرتے"۔
"انہوں نے ہمارے عمائدین کا قتل عام کیا، اپنے گندے قدموں تلے ہماری ثقافتی اور سماجی اقدار کو روند ڈالا اور قبائلی معاشرے کے ڈھانچے کو تباہ کر دیا"، محسود نے کہا۔ "مخالفین اور معزز قبائلیوں کو اغوا کر کے ان کے گلے کاٹنے جیسے اقدامات کے باعث احمد زئی قبیلے نے اتفاق رائے سے فیصلہ کرتے ہوئے ازبکوں کو اپنی سر زمین سے بے دخل کر دیا"۔
شاہ کے نزدیک ازبک جنگجو "مفادات کے پجاری فوجی" ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی باشندوں نے ازبک جنگجوؤں کو اس لئے علاقے سے بے دخل کر دیا کیونکہ وہ ہم جنس پرستانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے اور نئے اراکین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے تھے۔ اسلام میں ہم جنس پرستی کی سختی سے ممانعت ہے۔
"ان کے ظالمانہ اور وحشیانہ اقدامات کے باعث ۔۔۔ انہیں 'قصائیوں' اور 'غیر انسانی اور جنگلی درندوں' جیسے خطابات سے نوازا گیا"، وانا کے ایک رہائشی علی گل وزیر نے کہا۔
"قبائلی علاقوں میں ازبک جنگجوؤں کو دہشت اور تباہی کی علامت تصور کیا جاتا تھا، کیونکہ وہ اپنے ظالمانہ اقدامات کے خلاف کوئی مخالفت برداشت کرنے کو تیار نہ تھے"، انہوں نے بتایا اور مزید کہا کہ احمد زئی وزیر قبیلے کے لوگ "اپنی زمین پر ان وحشی ازبک جنگجوؤں کے وجود کو برداشت کرنے پر" تیار نہ تھے۔
جنوبی وزیرستان کے ایک قبائلی صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ مقامی قبائلیوں کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے ازبک جنگجوؤں کی تعداد کی خبر دینے پر ازبک لشکر کی جانب سے انہیں قتل کرنے کا حکم دینے کے بعد وہ اپنے گھر سے فرار ہو گئے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن کے 2007 کے ایک تخمینے کے مطابق، قبائلی علاقوں میں ازبک جنگجوؤں کے علاوہ 5,000 کے قریب عرب جنگجو؛ 3,000 یمنی؛ 2,000 مصری؛ 2,800 الجزائری اور 1,200 کے قریب تیونس، عراق، لیبیا اور اردن کے جنگجو موجود تھے۔
لیکن پشاور میں مقیم افغان اور قبائلی علاقوں کے امور کے ماہر ایک سینئر صحافی شمیم شاہد کا کہنا ہے کہ ازبکستان سے اب بھی نئے اراکین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ "یہ اراکین عام طور پر یتیم بچے ہوتے ہیں یا پھر انہیں ازبکستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے اغوا کرنے کے بعد افغانستان اور ترکی کے راستے پاکستان پہنچا دیا جاتا ہے"، انہوں نے کہا۔ شاہد نے الزام لگایا کہ ازبک جنگجوؤں کی بیشتر اعلٰی قیادت مجرمانہ ریکارڈ کی حامل ہے اور وہ اپنے آبائی ملک میں انصاف کے کٹہرے سے بچنے کے لئے یہاں آن بسے ہیں۔
وانا کے رہائشی علی گل وزیر نے بتایا کہ ازبک جنگجوؤں کے مظالم اور قبائل دشمن پالیسیوں کی وجہ سے انہیں دیے جانے والے عطیات کا سلسلہ تقریباً بند ہو چکا ہے۔ مالی وسائل ختم ہو جانے کے بعد ازبک جنگجوؤں نے رقم حاصل کرنے کے دیگر طریقوں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔
ان کی آمدنی کے اہم ذرائع میں اغواء برائے تاوان، گاڑیاں چھیننا، اسلحے کی تجارت، غیر قانونی ذرائع سے رقم کی منتقلی اور خلیجی اور عرب ممالک میں طالبان اور القاعدہ سے ہمدردیاں رکھنے والوں کی مالی امداد شامل ہیں
Bookmarks