بھری محفل میں بھی تیری نظروں کو ترستے ہیں
چمن میں رہ کے بھی ہم تو بہاروں کو ترستے ہیں

نکل آئے موجِ طوفان آج تو بہاؤ حوصلے دل کے
وہ کوئی اور ہوں گے جو کناروں کو ترستے ہیں

وفورِ درد سے گھبرا کے اکثر ہجر کے میرے
ردائےِ ضبط کی نازک سہاروں کو ترستے ہیں

متاعِ گل کا دیوانہ فقط گلچین نہیں ہمدم
اسیرانِ قفس بھی لالہ زاروں کو ترستے ہیں

کسی نے کہہ نہ دی ہو راز کی یہ بات پھولوں سے
کہ اہلِ دل ازل سے گلزاروں کو ترستے ہیں

فضائے گلشنِ یورپ بہت دلکش سہی لیکن
جمیل اپنے وطن کے مرگزاروں کو ترستے ہیں