صوبۂ سرحد کے ضلع بٹگرام میں مشتعل افراد نے دو بین الاقوامی امدادی اداروں فرنچ ریڈ کراس اور کیئر انٹرنیشنل کے دفاتر کو نذر آتش کر دیا ہے۔
بٹگرام کے ضلعی رابطہ افسر امین الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کی دوپہر بارہ بجے تقریباً دو سو مشتعل افراد نے شہر سے تقریباً تین کلومیٹر دور واقع بین الاقوامی امدادی اداروں فرنچ ریڈ کراس اور کیئر انٹرنیشنل کےدفاتر پر ہلہ بول دیا اور فائرنگ کے بعد دونوں امدادی اداروں کے دفاتر کو آگ لگادی۔
ان کے بقول پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر حالات پر قابو پالیا ہے۔
بٹگرام میں فرنچ ریڈ کراس کے سربراہ جل پونسر نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کی صبح وہ معمول کے مطابق اپنے دفتر میں کام میں مصروف تھے کہ انہیں فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں اور جب انہوں نے باہر جھانک کردیکھا تو مشتعل افراد کا ایک ہجوم دفتر کو نذر آتش کر رہا تھا۔
ان کے مطابق انہوں نے خواتین اور دیگر اہلکاروں کو باہر نکالا جبکہ احتجاج کرنے والوں نے دفتر میں موجود کمپیوٹر اور دیگر سامان لوٹ لیا ہے۔
جل پونسر کے مطابق انہوں نے قریب واقع امریکہ کی ایک امدادی تنظیم کیئر انٹر نشنل کے دفتر میں پناہ لی مگر مشتعل ہجوم نے اس کو بھی آگ لگادی جس سے دفتر کے گراؤنڈ فلور کو شدید نقصان پہنچا۔
انہوں نے انتظامیہ کی طرف سے سکیورٹی کی فراہمی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا: ’بدقسمتی سے سکیورٹی کے اہلکار موقع پر موجود نہیں تھے۔ بارہ بجے انہیں اطلاع دی گئی تاہم وہ ایک بجے کے قریب پہنچ گئے‘۔
جل پونسر کا کہنا تھا کہ یہ اسلام آباد میں لال مسجد کے خلاف حکومت آپریشن کا ردعمل تھا۔
واضح رہے کہ فرنچ ریڈکراس اور کیئر انٹر نیشنل آٹھ اکتوبر کے زلزلے کے بعد علاقے میں زلزلہ متاثرین کی بحالی کے کاموں میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف مقامی صحافی احسان داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ بٹگرام میں سخت کشیدگی پائی جاتی ہے اور مسلح افراد نے پہاڑوں پر چڑھ کر مورچے سنبھال لیے ہیں۔ وہ کلاشنکوف اور دیگر ہلکے اسلحے سے لیس ہیں۔
ان کے مطابق مسلح افراد وقتاً فوقتاً پہاڑوں سے فائرنگ کر رہے ہیں جبکہ مشتعل افراد نے شمالی علاقہ جات کو پاکستان کے دیگر علاقوں سے ملانے والی شاہراہ ریشم کو ہرقسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا ہے۔ تاہم حکام کا دعویٰ ہے کہ شاہراہِ ریشم کو کھول دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ لال مسجد میں زیرِ تعلیم زیادہ تر طلبہ کا تعلق صوبہ سرحد کے ضلع دیر اور بٹگرام سے ہے۔
Bookmarks