Results 1 to 7 of 7

Thread: ھماری مسلمان بہنیں۔۔

  1. #1
    Touqeer Shah's Avatar
    Touqeer Shah is offline Senior Member+
    Last Online
    13th March 2019 @ 10:29 PM
    Join Date
    30 Sep 2006
    Location
    Abbottabad
    Posts
    334
    Threads
    24
    Credits
    1,155
    Thanked
    0

    Default ھماری مسلمان بہنیں۔۔

    میں نے انسان کی بجائے خدا کا راستہ منتخب کیا

    نومسلم بہن ام کلثوم (سیلائن لودک)کے قبول اسلام کی روداد



    میں تقریباً تین سال قبل رمضان کے بعد اور عید الاضحیٰ سے پہلے مسلمان ہوگئی تھی۔ ہدایت کی طرف میرا سفر تقریباً تیس سال پر محیط ہے۔ میں ایک کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئی تھی۔ لیکن اس مذہب کی کئی چیزیں ایسی تھیں جن سے میں متفق نہیں تھی۔ میں حضرت عیسٰی کو مانتی تھی لیکن یہ نہیں مانتی تھی کہ وہ خدا کے بیٹے تھے یا خود خدا تھے۔ میں نے اپنے طور پر یہ اندازہ کرلیا تھا کہ وہ ایک سردار اور قانون دان تھے کیونکہ وہ ایک تعلیم یافتہ یہودی اور ایک استاد تھے۔ اسی وجہ سے میں نے اس طرح کے قانون دانوں سے تعلیم حاصل کرنا شروع کردی اور "تنخ" (Tanakh)،تورات اور یہودیت کے بعض قوانین سیکھے۔ میں نے "کوشر"(Kosher) کے قوانین اور کھانے پکانے کے صحیح اصول بھی سیکھے اور یہ بھی کہ ایک عورت کو کس طرح ہونا چاہیئے۔
    اگرچہ "یہودیت" میرے سوالوں کاجواب نہیں تھا تاہم میں نے اس کے مذہبی اور روحانی طور طریقوں سے واقفیت حاصل کر لی تھی۔
    پھر میں نے اس کی روحانیت پر نظر ڈالی لیکن مجھے اس میں کوئی کمی سی نظر آئی ۔ اس میں عملی طور پر ہمیشہ ہی ایک خدا کو نہیں مانا جاتا تھا کیونکہ وہ ایک دیوی پر یقین رکھتی تھیں۔ وہ ایک نیا طرز زندگی ایجاد کرکے اس روحانیت کی کئی تعلیمات کی نفی کرتی تھیں۔ مجھے خدا کے معاملے میں بحثیت ایک عورت کافی مسائل کا سامنا تھا کیونکہ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتی تھی کہ خدا ایک انسان ہے۔ مجھے یہودیت کی یہ بات اچھی لگی کہ خدا ان دیکھا اور انجانا ہے۔ اسی وجہ سے میں اس کی تعلیمات تو نہ سمجھ سکی مگر اس کی مساوات مردو زن کی قائل ہوگئی۔
    اس مساوات کی وجہ سے میں نے ان کی جستجو کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اگرچہ اس جستجو کی خاطر اختیار کئے جانے والے طریقے مجھے متاثر نہ کرسکتے۔
    1990 میں میں نے ایک اور روحانی فرقے کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اگرچہ وہ ایک خالق و مالک اور ایک دنیا کے ماننے والے تھے لیکن میں ان جیسی نہ بن سکی۔مجھے خود اپنی روحانیت تلاش کرنا تھی۔ جب 1990 ء میں ہمارے ملک کینڈر کی "موہاک" سےجنگ چھڑ گئی تو مجھے سخت صدمہ ہوا۔ میں مردوں کے شانہ بشانہ پانچ سال تک لڑائی میں شریک رہی اب میرےسامنے دو ہی راستے تھے مجھے ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تھا۔ ایک رستہ خدا کا تھا جبکہ دوسرا انسان کا راستہ تھا۔ میں نے شعوری طور پر خدا کا راستہ من منتخب کرلیا اور عہد کیا کہ میں اسی کی عبادت کروں گی اور اس کے پیغام کر دوسروں تک پہنچانے کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کروں گی۔ خدا کا پیغام دراصل امن اور انصاف کا پیغام تھا۔
    میں نے انسان کی بجائے خدا کا راستہ منتخب کیا۔ جب پانچ سال بعد جنگ ختم ہوگئی تو خدا نے دوبارہ روحانی بنیادوں کی طرف میری رہنمائی کی۔
    میری زیادہ تر زندگی ایسے دوستوں کے درمیان گزری تھی جن کا تعلق شمالی افریقہ اور مشرقی وسطٰی سے تھا۔ ان میں یہودی ، عیسائی اور مسلمان بھی شامل تھے لیکن کیا وہ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔ مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ کیونکہ میں کسی منظم مذہب کے حق میں نہیں تھی۔ میں اپنی تمام زندگی سختی سے اس بات کی قائل رہی تھی کہ مجھے براہ راست خدا سے باتیں کرنی چاہیئیں اور اپنی ضرورت بیان کرنی چاہیئے۔ اور جو کچھ اس نےمجھے دیا ہے اس پر شکر ادا کرنا چاہیئے۔ میں مساوات مردو زن کی بھی شدت سے قائل تھی اور اس بات کی بھی کہ خدا اور انسانوں کی نظر میں تمام رنگ و نسل اور طبقوں کے لوگ برابر ہونے چاہیئیں۔ عیسائیت نے مجھے مسیح کی تعلیم دی جس پر میں ایمان رکھتی تھی۔ یہودیت نے مجھے بتایا کہ میں خدا سے براہ راست بات کرسکتی ہوں اور یہ کہ خدا کے انوکھے قوانین ہیں۔ کسی نے مجھے بتایاکہ عورت اور مرد یکساں تھے، اگرچہ ان کے فرائض الگ الگ ہیں۔ مجھے یہ تمام چیزیں کہاں پر اکٹھی مل سکیں گی۔ کوئی بھی مذہب ان سب تعلیمات کو مشترکہ صورت میں نہیں پیش کر رہا تھا لیکن میری رہنمائی کے لیے میرا خدا موجود تھا۔
    25سال کی عمر میں مجھے ایک شخص سے محبت ہوگئی۔ وہ پیدائشی طور پر عراقی تھا جب کہ مذہباً یہودی تھا اور کئی سالوں سے اسرائیل میں رہ رہا تھا۔ وہ1970 ء میں کینیڈا آیا جہاں ہماری ملاقات ہوگئی۔ یہ ملاقات محبت میں بدل گئی۔ پھر لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ ہمیں جلد ہی شادی کرنی تھی جس کے بعد اس نے واپس جا کر اپنی فوج کے ساتھ مل کر لڑائی میں شریک ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ افسوس کہ وہ قتل ہوگیا۔ کئی سالوں تک میں اس کے قتل کے دکھ اور درد کو اندر ہی اندر محسوس کرتی رہی۔ لیکن اللہ نے مرا دل بچا لیا اور مجھے ایک بہترین تحفہ عنایت کیا۔ میری ملاقات ایک لبنانی لڑکی سے ہوئی وہ شیعہ مسلمان تھی۔ وہ بہت زیادہ مذہبی نہیں تھی لیکن پھر بھی اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتی تھی۔ ہم نے آپس میں گفتگو کی۔ میں نے اسے تمام حالات بتادیئے۔ اس نے اپنی آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا کہ اسی جنگ میں اس کابھائی بھی مرگیا تھا۔ آج تک ہم یہ نہیں جان سکے کہ اس کے بھائی نے میرے بوائے فرینڈ کو قتل کیا تھا یا میرے بوائے فرینڈ نے اس کے بھائی کو قتل کیا تھا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ ان دونوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کو قتل نہ کیا ہو۔ مشترکہ آنسووں اور دکھ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم دونوں بہترین دوست بن گئیں۔اس نے میرے زخمی دل کو ٹھیک ہونے میں کافی مدد دی۔ میں نے جنگ کی تباہ کاریاں بھی دیکھیں، جنگ حقیقت میں ایک گناہ ہے اس میں کتنے ہی لوگ مرجاتے ہیں اور کتنے ہی لوگ زخمی ہوجاتے ہیں۔
    1995 ء میں مونٹریال میں باحجاب خواتین کے بارے میں ایک مباحثے کا اہتمام کیاگیا تھا ۔ میں نے خود ہی اس کی دستاویز بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اور انٹرویوز ڈھونڈنے لگی کیونکہ میں 4سالوں تک ریڈیو سے منسلک رہی تھی جہاں شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی خبریں پیش کرتی تھی۔ میں ایک دوست کے ذریعے ایک عورت سے ملی۔ یہ عراقی تھی۔ اللہ بھی غیر معمولی اور انجانے رشتوں سے اپنی قدرت دکھاتا ہے۔ اس نے حجاب پہننے کی اہمیت پر باتیں کیں اور بتایا کہ اس کی نظر میں حجاب کی کیا حیثیت ہے مجھے اس کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کا اپنے خدا سے تعلق تھا جسے وہ "اللہ" کہہ کر پکارتی تھی۔ میں اس کی سچائی اور رحمدلی سے بہت متاثرہوئی۔
    اس نے مجھے اسلام کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اس نے بتایا کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ۔ مرد اور عورت برابر ہیں اور اللہ کی نظر میں سارے لوگ برابر ہیں اور یہ کہ حضرت عیسٰی اللہ کے پیغمبر تھے نہ کہ قانون دان۔ اور یہ کہ ان کی ماں حضرت مریم علیہا السلام اس کی بہترین نشانی تھی۔ اور یہ کہ اسلام کے قوانین یہودیت سے کم سخت ہیں۔ میرےلئے حیرانگی کی بات یہ تھی کہ ان ساری باتوں پر تو میں ایمان رکھتی تھی۔ میں نے اس کے ساتھ دوستی برقرر رکھی اور ایک ماہ کے اندر اندر میں بھی اس کی طرح مسلمان بن گئی۔میں نےاس کے سامنے کلمہ شہادت پڑھا۔ یہ تین سال پہلے کی بات ہے ۔ اب میں حجاب پہنتی ہوں اور بہت خوش ہوں میں یونیورسٹی واپس جا چکی ہوں اور مذاہب کا مضمون پڑھ رہی ہوں۔ میرا فیلڈ اسلام ہے اور میں اس پر ڈاکٹریٹ کرنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہوں اور عورتوں سے متعلق قوانین اور حدیث میں مہارت حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ آج کل میں 7ویں صدی میں عورت اور اسلام کے موضوع پر انگریزی میں کتاب لکھ رہی ہوں۔ اب میں ایک ریڈیو شو بھی کرتی ہوں جس میں میرے ساتھ وہ دوست بھی شریک ہے جس کے ذریعے میں مسلمان ہوئی تھی۔یہ شو ایک گھنٹے کا ہوتا ہے۔ ہم دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف مذاہب کی عورتوں سے گفتگو کرتی ہیں۔ میں اپنے اساتذہ اور مذہبی راہنماوں کی مدد سے کوشش کرتی ہوں کہ اسلام سے متعلق شبہات کو دور کرسکوں اور اسلام کا پیغام پھیلاوں۔میں مسلمان عورتوں اور معاشرے میں ان کے کرادار پر بھی ایک دستاویزی فلم بنانے کی کوشش کر رہی ہوں۔
    اللہ نے اسلام کے ذریعے میری رہنمائی کی اور مجھے وہ چیز عنایت کی جس کی مجھے تلاش تھی۔ اسی وجہ سے میں اپنے قلم اور ہوائی لہروں کے ذریعے اسلام کے مختلف پہلو وسیع انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتی ہوں اور اختلافات میں اتفاق دیکھنے کی کوشش کرتی ہوں جو کہ اسلام ہے۔ مسلمان ہونے کے بعد میرا نام ام کلثوم ہے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کا بھی تھا۔ اسی کی وجہ سے مجھے ایک اچھی عورت بننے کی تحریک ملی۔
    یہ ہے میری کہانی ۔۔۔۔ میری پہلی محبت ایک عراقی یہودی مرد تھا جو بے وقوفی سےجنگ میں مارا گیا۔ میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔ میں لبنان میں بکھری بکھری سی رہ گئی۔ تاہم ایک لبنانی عورت نے زخموں پر مرہم رکھنے کا کام شروع کیا۔ لیکن میرے زخمی دل کو آرام ایک دوسرے عراقی نے پہنچایا۔ اس مرتبہ یہ ایک عراقی مسلمان عورت تھی۔ کیونکہ اس نے مجھے اسلام سے متعارف کرایا اور مسلمان بننے کی دعوت دی۔ نقصان کےدکھ سے زندگی کی خوشی کا راستہ نکل آیا جو مجھے اللہ کے قریب لے آیا۔
    اللہ ان سب کی رہنمائی کرے جن کے دل ٹوٹ چکے ہیں یاد رکھئے کہ اسلام کا پیغام امن اور توازن کا پیغام ہے ۔ علاج سے پہلے ہمیں تکلیف کے بارے میں بتانا چاہیئے اور اللہ اس طریقے سے ہمارا علاج کردیتا ہے کہ ہمارے راستے میں ایسے لوگوں کو بٹھا دیتا ہے جو خدا کی طرف ہماری رہنمائی کردیتے ہیں۔

  2. #2
    priya_gul2001's Avatar
    priya_gul2001 is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd June 2017 @ 09:47 PM
    Join Date
    18 May 2007
    Posts
    404
    Threads
    7
    Credits
    989
    Thanked
    2

    Default

    nice sharing

  3. #3
    Real_Light is offline Member
    Last Online
    22nd February 2016 @ 03:49 AM
    Join Date
    15 Oct 2006
    Location
    Hong Kong
    Posts
    9,415
    Threads
    501
    Thanked
    0

    Default

    achi sharing hay...bohut shukria...

  4. #4
    Touqeer Shah's Avatar
    Touqeer Shah is offline Senior Member+
    Last Online
    13th March 2019 @ 10:29 PM
    Join Date
    30 Sep 2006
    Location
    Abbottabad
    Posts
    334
    Threads
    24
    Credits
    1,155
    Thanked
    0

    Default

    پسند کرنے کا شکریہ۔۔۔۔۔

  5. #5
    Touqeer Shah's Avatar
    Touqeer Shah is offline Senior Member+
    Last Online
    13th March 2019 @ 10:29 PM
    Join Date
    30 Sep 2006
    Location
    Abbottabad
    Posts
    334
    Threads
    24
    Credits
    1,155
    Thanked
    0

    Default


    مسجد اورباجماعت نماز کے منظرنے متاثر کیا
    محترمہ رحیمہ گرفتھس کا قبول اسلام

    کچھ عرصہ پہلے میرا تعلق عیسائی مذہب سے تھا لیکن اللہ کا شکر ہے اس نے مجھے اسلام کو سمجھنے اور قبول کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ اس عنایت پر میں اس کا جس قدر بھی شکر ادا کروں کم ہے۔
    میری عمر چھبیس برس ہے میں لندن کے ایک عیسائی خاندان میں پید اہوئی اور اس ڈھب پر عیش پرستانہ زندگی گزارنے اور ترقی کی دوڑ میں آگےبڑھنے کی کوشش کر رہی تھی جس پر ہمارے ملک کا بیشتر طبقہ کاربند ہے۔ مذہب عیسوی سے روایتی اور خاندانی وابستگی کی وجہ سے میں چرچ چلی جاتی تھی لیکن میرے ذہن نے عیسائیت کے عقائد کو کبھی قبول نہیں کیا نہ اس مذہب نے مجھے کبھی سکون سے آشنا کیا۔ بظاہر ساری سہولتوں کے باوجود زندگی سچے اطمینان اور قلبی راحت سےمحروم تھی اور میں ذہنی طور پر اپنے آپ کو خلا میں بھٹکتا ہوا محسوس کرتی تھی۔
    دل کو بہلانے کی خاطر میں سیاحت میں چل نکلی اور 1927ء میں مصر پہنچ گئی۔ایک ٹورسٹ کی حیثیت سے میں نے قاہرہ کی مشہور مسجد محمد علی کوبھی دیکھا۔ میں مسجد کے جلال و جمال سے بھی متاثر ہوئی اور سب سے زیادہ خوش قسمتی یہ ہوئی کہ مسجد کو ان اوقات میں دیکھنے کا موقع ملا جب لوگ باجماعت نماز ادا کر رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ امیر و غریب پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں اور یہاں اس طرح کا کوئی امتیاز نہیں ہے جس طرح کا مظاہرہ چرچ میں نظر آتا ہے یعنی امیر لوگوں کے لیے الگ نشست گاہیں اور غریبوں کے لیے الگ ہیں پھر ان لوگوں میں اخلاص اور باہمی محبت کی ایک ایسی فضا دیکھی جس کی کوئی نظیر یورپ کی زندگی میں نظر نہیں آئی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ اپنے معبود کے لیے انکا احترام اور خوف بے اختیار دل پر اثر کرتا تھا۔ نماز کے دوران " اللہ اکبر" کی صدا دل و دماغ کو مسحور کئے جارہی تھی۔میں اس سارے منظر کو دیکھ کر ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔
    اس بات کو چار پانچ برس بیت گئے۔ اس بار میں لندن کی ووکنگ مسجد میں چلی گئی اور ایک بار پھر اسی ذہنی کیفیت سے دوچار ہوئی جس سے قاہرہ کی مسجد محمد علی میں ہوئی تھی، وہی سکون اور راحت کا غیر معمولی احساس اور وہی اعلیٰ اخلاقی قدروں کا روح پرور نظارہ۔۔۔ نماز کے بعد ایک صاحب نے قرآن پاک کی پہلی سورۃ کے حوالے سے ایک لیکچر دیا اور مجھے پہلی بار اسلام اور قرآن کی تعلیمات کا تعارف حاصل ہوا۔ پتہ چلا کہ یہ سورۃ دراصل ایک دعا ہے۔ ہر مسلمان کے دل کی دعا ہر انسان کی دعا یہ بھی اندازہ ہوا کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اخوت اور محبت اس کا جوہر ہے اور یہ تمام نسلی لسانی اور علاقائی امتیازات سے بالاتر ہے توحیداسلام کی گویاجان ہے اور خدائے واحد کے سوا کوئی بھی کسی درجے میں عبادت کا مستحق نہیں ہے۔مسلمان سارے پیغمبروں کی یکساں عزت کرتے ہیں اوراسلام صحیح معنوں میں امن اوراخوت کا علمبردار ہے۔ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے۔عیسائیت اور یورپی اقوام کے حوالے سے یہ سب کچھ بہت ہی عجیب لگا ۔ یہ میرے لیے ذہنی اعتبار سے بالکل نیا تجربہ تھا چنانچہ میں نے تہیہ کر لیا کہ اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کروں گی۔ اسلام مجھے ایک قابل عمل مذہب محسوس ہوا اور اندازہ ہوا کہ فکر اور حوصلے کی جو وسعت اسلام میں ہے، اس سے عیسائیت محروم ہے چنانچہ میں نے اسلام کے بارے میں ضروری کتابیں حاصل کیں۔ قرآن پاک کا ایک نسخہ مسجد سے مل گیا اور امام صاحب نے میری رہنمائی شروع کردی۔ جہاں مشکل پیش آتی میں سوال کرتی، موصوف اس کا شافی جواب دے دیتے اور میں مطمئن ہوجاتی۔ تحقیق وتفتیش کا یہ سلسلہ تین ماہ تک چلا حتی کہ مجھے شرح صدر حاصل ہوگیا اور کلمہ پڑھ کر علانیہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔
    میرے نزدیک قرآن پاک ہیرے جواہرات کی ایک ایسی کان ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور قیامت تک ساری انسانیت کو سیراب کرتی رہے گی۔ یہ لازوال رہنمائی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسانی زندگی سے متعلق ایک ایک مسئلے میں رہبری کا فریضہ انجام دیتا ہے اوراس سے وابستہ ہوکر نہ کوئی انسان گمراہ ہوگا نہ اسے کسی پریشانی سے سابقہ پیش آئے گا چنانچہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے اسلام قبول کرنے اوراسلام سے تعلق جوڑنے کے بعد اب میرا دل اتنا مضبوط ہوگیا ہے اور ظاہری اعتبار سے میں ایک ایسے اعتماد سے روشناس ہوئی ہوں کہ کسی مشکل میں پریشانی قریب نہیں آتی۔قبول اسلام کے نتیجے میں میں بہت سی مشکلات اور ذہنی و عملی آزمائشوں سے دوچار ہوئی ہوں لیکن اللہ کا شکر ہے گھبراہٹ یا حزن میرے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ شادمانی اور راحت کی ایک ایسی مثالی کیفیت دل و دماغ پر طاری رہتی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے حالانکہ مجھے دین اسلام کی خاطر ایک معزز اور بھاری مشاہرے کی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں حالات سے بددل نہیں ہوئی۔


    ڈاکٹرعبدالغنی فاروق

  6. #6
    Pinkey's Avatar
    Pinkey is offline Senior Member+
    Last Online
    12th January 2008 @ 11:13 PM
    Join Date
    19 May 2007
    Age
    36
    Posts
    205
    Threads
    2
    Credits
    955
    Thanked
    0

    Default

    very nice sharing

  7. #7
    notansion's Avatar
    notansion is offline Senior Member+
    Last Online
    23rd October 2009 @ 08:55 AM
    Join Date
    03 Jul 2009
    Location
    Lahore
    Age
    36
    Posts
    267
    Threads
    5
    Credits
    0
    Thanked
    2

    Default

    very nice

Similar Threads

  1. Replies: 9
    Last Post: 12th April 2015, 08:54 AM
  2. Replies: 1
    Last Post: 17th December 2014, 02:57 PM
  3. Replies: 12
    Last Post: 4th March 2013, 01:45 AM
  4. قبر میں آنے والا دوست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    By Usman Attari in forum Sunnat aur Hadees
    Replies: 2
    Last Post: 25th December 2011, 11:15 PM
  5. Replies: 7
    Last Post: 5th July 2011, 04:44 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •