پاکستان کے دفتر خارجہ نے امریکی کانگریس کی طرف سے منظور ہونیوالے ’نائن الیون کمیشن‘ کی تجاویز پر مشتمل انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں مایوس کن قرار دیا ہے۔

دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی ’نائن الیون کمیشن‘ کی بعض تجاویز پاکستان اور امریکہ کے موجودہ باہمی تعلقات کو متاثر کرنے کے مترداف ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ میں پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے ’دہشت گردوں کی جنت‘ اور ’ایٹمی پھیلاؤ کے نیٹ ورک‘ جیسے بے بنیاد الزامات لگائے گئے ہیں۔ ’ایسے حوالہ جات پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کے طے شدہ اغراض و مقاصد کے لیے مناسب نہیں ہیں۔‘

اسی طرح پاکستان کے اندرونی سیاسی عمل اور افغانستان سے تعلقات پر کیے جانے والے تبصرے بھی غیر ضروری ہیں۔ ’دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو دی جانے والی امداد کو مشروط کرنے سے غیر مقبول پریسلر ترمیم کی یاد تازہ ہوگئی ہے، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے تھے۔‘

فتر خارجہ کے مطابق بِل کی تیاری کے دوران امریکی انتظامیہ اور ارکان کانگریس کو پاکستانی اعتراضات سے مطلع کیا گیا تھا، خاص طور پر (امریکی) معاونت اور انسداد دہشت گردی سے متعلق پاکستانی کوششوں کے بارے میں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف اپنے قومی مفاد میں لڑ رہا ہے۔ ’ہم القاعدہ، طالبانائزیشن اور دوسرے انتہا پسند و دہشت گرد عناصر کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور اس حوالے سے ہم بین الاقوامی برادری سے پابندیوں اور الزامات کی بجائے حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔‘

وائٹ ہاؤس کی ایک ترجمان سِنڈی برگمین نے بی بی سی اردو سروس کے ثقلین امام سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نائن الیون کمیشن‘ کا بل امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر اثر انداز نہیں ہوگا اور نہ ہی پاکستان سے تعاون میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ ان کا کہنا تھا ’اس بل کا تعلق دراصل امریکہ کے اندرونی معاملات سے ہے‘۔

امریکی کانگریس نے جمعہ کو انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے ایک نیا قانون منظور کیا ہے، جس کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد پاکستان کی سر زمین سے القاعدہ، طالبان اور دوسری شدت پسند تنظیموں کی کارروائیوں کے خاتمے سے مشروط کی گئی ہے۔