اس دنیا میں ہر آنے والا ، اصلاً جانے کے لیے ہی آتا ہے ۔ یہ جانا یعنی موت سب سے بڑا "سچ" اور زندگی سب سے بڑا "جھوٹ" ہے لیکن انسان کا یہ المیہ ہے کہ وہ اسی سچ سے نظریں چراتا رہتا ہے۔ اس زندگی کی حقیقت ایک سراب یا حباب سے زیادہ کچھ نہیں۔ کہ اک لمحہ ہے اور دوسرے لمحے کچھ بھی نہیں۔ اس دنیا کی سطح پر یہ حباب نمودار ہوتے رہتے ہیں اور غائب ہوتے رہتے ہیں اور یہ ایک سلسلہ ہے جو نامعلوم عرصے سے جاری ہے اور نہ معلوم کتنا عرصہ جاری رہے گا لیکن اسے بہر حال ختم ضرور ہونا ہے۔ اور جب ختم ہوگا تو نہ صرف یہ سلسلہ ہائے روز و شب ختم ہوگا بلکہ یہ نیلگوں آسماں اور اس پہ روشن چاند ستارے سب ہی ختم ہو جائیں گے۔ اور قرآن کے الفاظ میں
"جبکہ آسمان پھٹ جائے گا اور جبکہ ستارے بکھر جائیں گے اور جبکہ سمندر پھٹ پڑیں گے اور جبکہ قبریں اگلوائی جائیں گی تب ہر جان کو پتا چلے گا کہ اس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا" (82: 1۔ 5)
اس وقت انسان کو اپنے خالق کے حضور تن تنہا کھڑے ہونا ہوگا۔ اور موت جس سے کسی انسان کو مفر نہ تھا آج اس کو بھی موت آجائے گی۔ دنیا میں انسان موت سے لرزاں و ترساں رہتا تھا لیکن اس دنیا میں اسے موت سے بھی زیادہ بھیانک چیز کا سامنا ہوگا اور وہ ہوگا ابدی کامیابی یا ابدی ناکامی یعنی جنت یا جہنم۔ ابھی وقت ہے کہ ہم سب اس لمحے کا سامنا کرنے کی تیاری کرلیں ورنہ اگر ناکامی ہوگئی تو پھر انسان مر بھی نہ سکے گا اور پکارے گا کہ کاش وہ مٹی ہوتا۔
Bookmarks