Results 1 to 3 of 3

Thread: بلبیرسنگھ: سابق صدر، شیو سینا یوتھ ونگ کی ا&am

  1. #1
    mohd umar's Avatar
    mohd umar is offline Senior Member+
    Last Online
    21st February 2024 @ 11:12 AM
    Join Date
    27 Aug 2008
    Location
    delhi/kairana(India)
    Age
    50
    Posts
    112
    Threads
    6
    Credits
    1,178
    Thanked
    0

    Default بلبیرسنگھ: سابق صدر، شیو سینا یوتھ ونگ کی ا&am

    بلبیرسنگھ: سابق صدر، شیو سینا یوتھ ونگ کی اسلام قبول کرکے ماسٹر محمد عامرہونے کی کہانی خود اُن کی زبانی

    ماسٹرمحمد عامر : السلام علیکم وحمتہ اللہ
    احمد اواہ : وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ‘


    سوال : آپ اپنا خاندانی تعارف کرائیں ؟
    جواب : میرا تعلق صوبہ ہریانہ کے پانی پت ضلع کے ایک گاﺅں سے ہے میری پیدائش ۶(چھ) دسمبر ۱۹۷۰ءکو ایک راجپوت گھرانے میں ہوئی، میرے والد صاحب ایک اچھے کسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پرائمری اس کول میں ہیڈ ماسٹر تھے، وہ بہت اچھے انسان تھے اور انسانیت دوستی ان کا مذہب تھا، کسی پر بھی کسی طرح کے ظلم سے انہیں سخت چڑ تھی ۱۹۴۷ءکے فسادات انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے وہ بہت کرب کے ساتھ ان کا ذکر کرتے اور مسلمانوں کے قتل عام کو ملک پر بڑا داغ سمجھتے تھے بچے کھچے مسلمانوں کو بسانے میں وہ بہت مدد کرتے تھے، اپنے اسکول میں مسلمان بچوں کی تعلیم کا وہ خاص خیال رکھتے تھے، میراپیدائشی نام بلبیر سنگھ تھا اپنے گاﺅں کے اسکول سے میں نے ہائی اسکول کرکے انٹرمیڈیٹ میں پانی پت میں داخلہ لیا، پانی پت شاید بمبئی کے بعد شیوسینا کا سب سے مضبوط گڑھ ہے، خاص طور پر جو ان طبقہ اور اسکول کے لوگ شیوسینا میں بہت لگے ہوئے ہیں، وہاں میری دوستی کچھ شیوسینکوں سے ہوگئی اور میں نے بھی پانی پت شاکھا میں نام لکھا لیا، پانی پت کے اتہاس (تاریخ) کے حوالے سے وہاں نوجوانوں میں، مسلمانوں خاص طور پر بابر اور دوسرے مسلمان بادشاہوں کے خلاف بڑی نفرت گھولی جاتی تھی، میرے والد صاحب کو جب میرے بارے میں معلوم ہوا کہ میں شیو سینا میں شامل ہوگیا ہوں تو انہوں نے مجھے بہت سمجھایا، انہوں نے مجھے اتہاس کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی، انہوں نے بابر خاص طور پر اورنگ زیب کی حکومت کے انصاف اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کے عمدہ سلوک کے قصے سنائے اور مجھے بتانے کی کوشش کی کہ انگریزوں نے غلط تاریخ ہمیں لڑانے کے لئے اور دیش کو کمزور کرنے کے لئے گھڑ کر تیار کی ہے، انہوں نے ۱۹۴۷ءکے ظلم اور قتل غارت گری کے قصوں کے حوالے سے مجھے شیوسینا سے باز رکھنے کی کوشش کی، مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔
    سوال : آپ نے پھلت کے قیام کے دوران بابری مسجد کی شہادت میں اپنی شرکت کا قصہ سنایاتھا، ذرا اب دوبارہ تفصیل سے سنایئے؟
    جواب : وہ قصہ اس طرح ہے کہ ۱۹۹۰ءمیں ایڈوانی جی کی رتھ یا ترا میںمجھے پانی پت کے پروگرام کی خاصی بڑی ذمہ داری سونپی گئی رتھ یاترا میں ان ذمہ داروں نے ہمارے روئیں روئیں میں مسلم نفرت کی آگ بھر دی میں نے شیواجی کی سوگندھ کھا ئی کہ کوئی کچھ بھی کرے میں خود ا کیلے جاکر رام مندر پر سے اس ظالمانہ ڈھانچہ کو مسمار کروں گا، اس یاترا میں میری کارکردگی کی وجہ سے مجھے شیو سینا کے یوتہ ونگ کا صدر بنا دیا گیا، میں اپنی نوجوان ٹیم کو لے کر ۳ اکتوبر کو ایودھیا گیا، راستہ میں ہمیں پولس نے فیض آباد میں روک دیا،میں اور کچھ ساتھی کسی طرح بچ بچا کر پھر بھی ایودھیا پہنچے، مگر پہنچنے میں دیر ہو گئی اور اس سے پہلے گولی چل چکی تھی اور بہت کوشش کے با وجود میں بابری مسجد کے پاس نہ پہنچ سکا میری نفرت کی آگ اس سے اور بھڑکی میں اپنے ساتھیوں سے بار بار کہتا تھا اس جیون سے مر جانا بہتر ہے رام کے دیش میں عرب لٹیروں کی وجہ سے رام کے بھگتوں پر رام جنم بھومی پر گولی چلا دی جائے، یہ کیسا انیائے اور ظلم ہے، مجھے بہت غصہ تھا، کبھی خیال ہوتا تھا کہ خود کشی کر لوں کبھی دل میں آتا تھا کہ لکھنو_¿ جا کر ملائم سنگھ کو اپنے ہاتھ سے گولی مار دوں، ملک میں فسادات چلتے رہے اور میں اس دن کی وجہ سے بے چین تھا کہ مجھے موقعہ ملے اور میں بابری مسجد کو اپنے ہاتھوں مسمار کروں۔
    ایک ایک دن کر کے وہ منحوس دن قریب آیا جسے میں اس وقت کاخوشی کا دن سمجھتا تھا میں اپنے کچھ جذباتی ساتھیوں کے ساتھ ایک دسمبر ۱۹۹۲ ءکو پہلے ایودھیا پہنچا میرے ساتھ سونی پت کے پاس ایک جاٹوں کے گاو_¿ں کا ایک نوجوان یوگیندر پال بھی تھا جو میرا سب سے قریبی دوست تھا،
    اس کے والد ایک بڑے زمیندار تھے اور وہ بھی بڑے انسان دوست آدمی تھے، انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو ایودھیا جانے سے بہت روکا اس کے تاو بھی بہت بگڑے مگر وہ نہیں رکا۔
    ہم لوگ چھ دسمبر سے پہلے کی رات میں بابری مسجد کے بالکل قریب پہنچ گئے اور ہم نے بابری مسجد کے سامنے کچھ مسلمانوں کے گھروں کی چھتوں پر رات گزاری، مجھے با ر بار خیال ہوتا تھا کہ کہیں ۳ اکتوبر کی طرح آج بھی ہم اس شبھ کام سے محروم نہ رہ جائیں، کئی بار خیال آیا کہ لیڈر نہ جانے کیا کریں، ہمیں خود جاکر کارسیوا شروع کرنی چاہیئے، مگر ہمارے سنچالک نے ہمیں روکا اور ڈسیپلن بنائے رکھنے کو کہا، اوما بھارتی نے بھاشن دیا اور کارسیوکوں میں آگ بھر دی میں بھاشن سنتے سنتے مکان کی چھت سے اتر کر کدال لے کر بابری مسجد کی چھت پر چڑھ گیا، یوگیندر بھی میرے ساتھ تھا، جیسے ہی اوما بھارتی نے نعرہ لگایا، ایک دھکا اور دو، بابری مسجد توڑ دو، بس میری مرادوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور میں نے بیچ والے گنبد پر کدال چلائی اور بھگوان رام کی جے کے زور زور سے نعرے لگائے، دیکھتے دیکھتے مسجد مسمار ہوگئی، مسجد کے گرنے سے پہلے ہم لوگ نیچے اتر آئے، ہم لوگ بڑے خوش تھے رام للا کے لگائے جانے کے بعد اس کے سامنے ماتھا ٹیک کر ہم لوگ خوشی سے گھر آئے اور بابری مسجد کی دو دو اینٹیں اپنے ساتھ لائے، جو میں نے خوشی خوشی پانی پت کے ساتھیوں کو دکھائیں، وہ لوگ میری پیٹھ ٹھونکتے تھے، شیو سینا کے دفتر میں وہ اینٹیں رکھ دی گئیں اور ایک جلسہ کیا گیا اور سب لوگوں نے بھاشن میں فخر سے میرا ذکر کیا کہ ہمیں گرَو (فخر)ہے کہ پانی پت کے نوجوان شیوسینک نے سب سے پہلے رام بھکتی میں کدال چلائی، میں نے گھر بھی خوشی سے جاکر بتایا میرے پتا جی بہت ناراض ہوئے اور انھوں نے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور مجھ سے صاف کہہ دیا کہ” اب اس گھر میں تو اور میں دونوں نہیں رہ سکتے، اگر تو رہے گا تو میں گھر چھوڑ کر چلاجاﺅں گا نہیں تو تو ہمارے گھر سے چلاجا، مالک کے گھر کے ڈھانے والے کی میں صورت دیکھنا نہیں چاہتا، میری موت تک تو مجھے کبھی صورت نہ دکھانا “مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا، میں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور پانی پت میں جو سماّن (عزت) مجھے اس کارنامہ پر ملا وہ بتانے کی کوشش کی انھوں نے کہا کہ یہ دیش ایسے ظالموں کی وجہ سے برباد ہوجائے گا اور غصہ میں گھر سے جانے لگے، میں نے موقع کو بھانپا اور کہا آپ گھر سے نہ جائیے میں خود اس گھر میں رہنا نہیں چاہتا جہاں رام مندر بھگت کو ظالم سمجھا جاتا ہو اور میں گھر چھوڑ کر آگیا اور پانی پت میں رہنے لگا ۔
    سوال : اپنے قبول اسلام کے بارے میں بتائیں ؟
    جواب : پیارے بھائی احمد !میرے اللہ کیسے کریم ہیں کہ ظلم اور شرک کے اندھیرے سے مجھے، نہ چاہتے ہوئے، اسلام کے نور اور ہدایت سے مالا مال کیا، مجھ جیسے ظالم کو جس نے اس کا مقدس گھر شہید کیا ہدایت سے نوازا، ہوا یہ کہ میرے دوست یوگیندر نے بابری مسجد کی اینٹیں لاکر رکھیں اور مائک سے اعلان کیا کہ رام مندر پر بنے ظالمانہ ڈھانچہ کی اینٹیں سوبھاگیہ(خوش قسمتی ) سے ہماری تقدیر میں آگئی ہیں سب ہندو بھائی آکر ان پر (موت دان ) پیشاب کریں، پھر کےا تھا،بھیڑلگ گئی، ہر کوئی آتا تھا اور ان اینٹوں پر حقارت سے پیشاب کرتا تھا مسجد کے مالک کو اپنی شان بھی دکھانی تھی چار پانچ روز کے بعد یوگیندر کا دماغ خراب ہوگیا، پاگل ہوکر وہ ننگا رہنے لگا، سارے کپڑے اتاراتھا، وہ عزت والے زمیندار چودھری کا اکلوتا بیٹا تھا، اس پاگل پن میں وہ بار بار اپنی ماں کے کپڑے اتار کر اس سے منھ کالا کر نے کو کہتا، بار بار اس گندے جذبہ سے اس کو لپٹ جاتا اس کے والد بہت پریشان ہوئے بہت سے سیانے اور مولانا لوگوں کو دکھایا، بار بار مالک سے معافی مانگتے، دان کرتے، مگر اس کی حالت اور بگڑتی تھی، ایک روز وہ باہر گئے تو اس نے اپنی ماں کے ساتھ گندی حرکت کرنی چاہی، اس نے شور مچایا دیا، محلہ والے آئے، تو جان بچی، اس کو زنجیر میں میں باند ھ دیا گیا، یوگیندر کے والد عزت والے آدمی تھے، انھوں نے اس کو گولی مارنے کا اراد ہ کرلیاکسی نے بتایا کہ یہاں سونی پت میں عیدگاہ میں ایک مدرسہ ہے وہاں بڑے مولانا صاحب آتے ہیں، آپ ایک دفعہ ان سے اور مل لیں، اگر وہاں کوئی حل نہ ہو تو پھر جو چاہے کرنا، وہ سونی پت گئے تو معلوم ہوا کہ مولانا صاحب تو یہاں پہلی تاریخ کو آتے ہیں اور پرسوں پہلی جنوری کو آکر ۲تاریخ کی صبح میں جاچکے ہیں، چودھری صاحب بہت مایوس ہوئے اور کسی جھاڑ پھونک کرنے والے کو معلوم کیا، معلوم ہواکہ مدرسہ کے ذمہ دار قاری صاحب یہ کام کر دیتے ہیں، مگر وہ بھی مولانا صاحب کے ساتھ سفر پر نکل گئے ہیں، عیدگاہ میں ایک دوکاندار نے انہیں مولانا کا دہلی کا پتہ بتایا کہ پرسوں بدھ میں حضرت مولانا نے (بوانے، دہلی )میں ان کے یہاں آنے کا وعدہ کیا ہے، وہ لڑکے کو زنجیر میں باندھ کر بوانہ کے امام صاحب کے پاس لے گئے، وہ آپ کے والد صاحب کے مرید تھے اور بہت زمانے سے ان سے بوانہ کے لئے تاریخ لیناچاہتے تھے مولانا صاحب ہر بار ان سے معذرت کررہے تھے، اس بار انھوں نے ادھر کے سفر میں دو روز کے بعد ظہر کی نماز پڑھنے کا وعدہ کر لیا تھا،بوانہ کے امام صاحب نے بتایا کہ حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے ۶ (چھ)دسمبر ۱۹۹۲ءسے پہلے ہریانہ کے بہت سے امام اور مدرسین یہاں سے یوپی اپنے گھروں کو چلے گئے تھے اور ان میں سے بعض ایک مہینہ تک نہیں آئے اس لئے مولانا صاحب نے پہلی تاریخ کواس موضوع پر تقریر کی اور بڑا زور دے کریہ بات کہی کہ مسلمان نے ان غیر مسلم بھائیوں کو اگر دعوت دی ہوتی اور اسلام، اللہ اور مساجد کا تعارف کرایا ہوتا تو ایسے واقعات پیش نہ آتے، انھوں نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بیک واسطہ ہم مسلمان ذمہ دار ہیں اور اگر اب بھی ہمیں ہوش آجائے اور ہم دعوت کا حق ادا کرنے لگیں تو یہ مسجد گرانے والے، مسجدیں بنانے اور کرنے والے بن سکتے ہیں، ایسے موقع پر ہمارے آقااللّھم اھد قومی فانھم لا یعلمون (اے اللہ، میری قوم کو ہدایت دے، اس لئے کہ یہ لوگ جانتے نہیں)فرمایا کرتے تھے۔
    یوگیندر کے والد چودھری رگھوبیر سنگھ جب بوانہ کے کے امام (جن کا نام شاید مولانا بشیر احمد تھا )کے پاس پہنچے، تو ان پر اس وقت اپنے شیخ کی تقریر کا بڑااثرتھا، انھوں نے چودھری صاحب سے کہا کہ میں جھاڑ پھونک کا کام کرتا تھا مگر اب ہمارے حضرت نے ہمیں اس کام سے روک دیا، کیونکہ اس پیشہ میں جھوٹ اور عورتوں سے اختلاط (میل ملاپ )بہت ہوتا ہے اور اس لڑکے پر کوئی اثر یا جادو وغیرہ نہیں بلکہ مالک کا عذاب ہے، آپ کے لئے ایک موقع ہے، ہمارے بڑے حضرت صاحب پر سوں بدھ کے روز دوپہر کو یہاں آرہے ہیں، آپ ان کے سامنے بات رکھیں، آپ کا بیٹا ہمیں امید ہے کہ ٹھیک ہو جائے گا، مگر آپ کو ایک کام کرنا پڑے گا، وہ یہ کہ اگر آپ کا بیٹا ٹھیک ہو جائے تو مسلمان ہونا پڑے گا، چودھری صاحب نے کہا کہ میرا بیٹا ٹھیک ہو جائے تو میں سب کام کرنے کو تیار ہوں۔
    تیسرے روز بدھ تھا چودھری رگھو بیر صاحب یو گیندر کو لے کر صبح ۸بجے بوانہ پہنچ گئے، دوپہر کو ظہر سے پہلے مولانا صاحب آئے، یو گیندر زنجیر میں بندھا ننگ دھڑنگ کھڑا تھا، چودھری صاحب روتے ہوئے مولانا کے قدموں میں گر گئے اور بولے کہ مولانا صاحب میں نے اس کمینہ کو بہت روکا، مگر یہ پانی پت کے ایک اوت کے چکر میں آگیا مولانا صاحب مجھے شما کرا دیجئے میرے گھر کو بچا لیجئے مولانا صاحب نے سختی سے انہیں سر اٹھانے کے لئے کہا اور پورا واقعہ سنا۔
    Last edited by Net-Rider; 9th December 2011 at 07:20 PM. Reason: Blog link not allowed

  2. #2
    mohd umar's Avatar
    mohd umar is offline Senior Member+
    Last Online
    21st February 2024 @ 11:12 AM
    Join Date
    27 Aug 2008
    Location
    delhi/kairana(India)
    Age
    50
    Posts
    112
    Threads
    6
    Credits
    1,178
    Thanked
    0

    Default

    is tarah ke 60 interview inpage file men mere pass hen jo chahta he mail kare
    Last edited by mohd umar; 15th April 2010 at 03:12 PM.

  3. #3
    raz24726's Avatar
    raz24726 is offline Senior Member+
    Last Online
    9th October 2019 @ 07:51 PM
    Join Date
    16 Dec 2009
    Location
    Agr Milu To Muj
    Gender
    Male
    Posts
    5,502
    Threads
    79
    Credits
    969
    Thanked
    432

    Default

    یہاں ایمیل آئی ڈی الاؤ نہیں ہے

Similar Threads

  1. Replies: 16
    Last Post: 6th February 2021, 07:30 PM
  2. Solved بھارتی بھگوڑا ائیر چیف پاکستانی قید میں
    By Shehzad Iqbal in forum Contest Section
    Replies: 35
    Last Post: 26th September 2015, 10:17 AM
  3. Replies: 32
    Last Post: 14th April 2013, 09:54 AM
  4. Replies: 9
    Last Post: 29th June 2011, 02:14 PM
  5. Replies: 41
    Last Post: 15th July 2010, 12:39 PM

Tags for this Thread

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •