اب کون ہمیں دیکھے
اب کون ہمیں دیکھے
ہم لوگ کہ رستوں کی مٹی میں ہوئے مٹی!
اشکوںسے بھری آنکھیںدیکھیں تو کہاں دیکھیں
اب درد کے صحرا سے آواز نہیں آتی
رازوں سے بھرا رستہ خاموش ہے صدیوں سے
ہر سمت اُداسی ہے ہر سمت ہے ویرانی
عُمروں کی پریشانی
اس خاک پہ رکھی ہے وہ چاند سی پیشانی
جس کی تب و تابش نے صدیوں کو کیا روشن
وہ ہاتھ ہیں بے مایہ
تھیں جن کی قلم رو میں قرنوں کی جہانگیری
وہ پاؤں نہیں اُٹھتے
تھا جن کے تسلط میں امکاں کا ہر رستہ!
ہم لوگ کہ رستوں کی مٹی میں ہوئے مٹی
اب کون ہمیں دیکھے
Bookmarks