پاکستان کا شمار دنیا میں کھجور پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں سالانہ 0.5 ملین ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے ۔ پاکستان میں کھجور کا کل پیداواری رقبہ تقریباً 82ہزار ہیکڑ ہے۔ بلوچستان میں 192800ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے۔ پنجاب میں 42ہزار 6سو ٹن، سندھ میں 2لاکھ 52ہزار 3سو ٹن جبکہ سرحد میں 8ہزار 9سو ٹن کھجور پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں کھجور کی تقریباً 150اقسام پائی جاتی ہیں صرف مکران ڈویژن میں 130سے زائد اقسام ہیں۔
پاکستان میں پیدا ھونے کھجور کی مشہور اقسام
صوبہ سرحد میں ڈھکی، گلستان، بصرہ، شکری، نلی اور جلی ہڈی وغیرہ کی اقسام کافی مشہور ہیں۔ صوبہ پنجاب میں حلاوی، زیدی ڈگلٹ نور، شامران، خود روی، ڈوڈا وغیرہ صوبہ سندھ میں اصیل، کربلائن، فصلی، بھدیر، کپرو اور میتھری وغیرہ جبکہ صوبہ بلوچستان میں بیگم جھنگی، کہرابا، مزاوتی، کوزن آباد، حلینی گوکنا، حسینی، ڈنڈاری، سبزو برنئی، جوانسر اور آب ونداں کی قسمیں کافی مشہور ہیں۔
کھجور کی برآمد اور منافع
پاکستان دنیا میں کھجور پیدا کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہونے کے باوجود کوالٹی کے باعث اس کی کھجوروں کی بر آمد اس طرح نہیں جس طرح ہونی چاہئے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان مختلف ممالک کی 23مارکیٹوں میں اپنی کھجور بر امد کرتا ہے جن میں زیادہ اہم بھارت، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی اور نیپال شامل ہیں۔ زیادہ تر کھجور خشک حالت میں بر آمد کی جاتی ہے۔ تازہ کھجور کوالٹی زیادہ بہتر نہ ہونے کے باعث کم بر آمد کی جاتی ہے۔ بھارت پاکستانی کھجور کی بر آمد کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، پاکستان اپنی کھجور کی بر آمد کا 84 فیصد حصہ صرف بھارت کو بر آمد کرتا تھا مگر گزشتہ 5 سالوں کے دوران اس میں بہت زیادہ کمی آگئی ہے۔ بھارتی مارکیٹ میں کوالٹی کے باعث آئندہ سخت مقابلے کا سامنا ہوگا کیونکہ ایران کی کھجور کی کوالٹی ہماری کھجور سے بہتر ہے۔ پاکستانی کھجور کی بر آمد میں بھی 2006-07ء کے مقابلے میں 2007-08میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ 2006-07میں پاکستان نے مختلف ممالک کو 38.3ملین ڈالر کی کھجور بر آمد کی جبکہ 2007-08میں یہ کم ہو کر نصف تک 19.4ملین ڈالر ہوگئی۔ پاکستان نے 2001-02میں 27.6ملین ڈالر کھجور بر آمد کی 2002-03میں 25.1ملین ڈالر، 2003-04میں 22.7ملین ڈالر، 2004-05میں 29.7ملین ڈالر، 2005-06میں 32.4ملین ڈالر کی کھجور بیرون ممالک بر آمد کی گئی۔
پیداوار میں کمی اور بیماریاں
کھجور کی پیداوار میں کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ مختلف بیماریاں ہیں جن سے متاثر ہو کر ہر عمر کا پودا نہ صرف خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے بلکہ ان متاثرہ پودوں پر بہت کم اور ناقص پھل لگتے ہیں۔ اکثر ان پودوں کے ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے کیڑے بھی کھجور کے پودوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف بیماریوں کے باعث نوجوان پودے مررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اچھا معیار برقرار نہ رکھنے کے باعث عالمی مارکیٹ میں پاکستانی کھجور وہ مقام نہیں بنارہی ہے جو اس کا ہونا چاہئے۔
حکومتی نااہلی پر ایک نظر اور کچھ مثبت تجاویز
ہمارے پاس پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں باہمی رابطوں میں بہت زیادہ کمی ہے ہمارے ہاں مارکیٹنگ انفارمیشن سسٹم کی کمی ہے کول چین سسٹم انفراسٹرکچر کی بھی کمی ہے جس میں سٹوریج، پروسیسنگ انڈسٹری اور لیبارٹریوں کی کمی بھی شامل ہے۔ ہمیں کھجور کی کوالٹی کو بہتر بنانے کیلئے بہترین انتظامات کرنے چاہیں۔ ہم اپنی برآمدات کو پیداواری نقصانات کو کم کرکے اور اچھی قسم کی کھجوریں اگا کر بڑھاسکتے ہیں۔ ہمیں اپنی کھجور کی کوالٹی کو بہتر بنانے کیلئے جہاں اچھی اور نئی نئی ورائٹی کی کھجوروں کے پودے آگانے چاہیں وہاں پھل کی کوالٹی کو برقرار رکھنے کیلئے ایگروپروسیسنگ زونز بھی قائم کرنے چاہیں۔ زرعی ماہرین کے مطابق پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے مشترکہ تعاون سے ایگروپرسیسنگ زونز قائم کئے جارہے ہیں جہاں فصل کی برداشت کے بعد عالمی مارکیٹ کی ریکوائرمنٹس کے مطابق پھل کی پروسیسنگ ہوسکے گی۔ اس سلسلے میں صوبائی حکومتیں زمین فراہم کرینگی جبکہ انفراسٹرکچر ای ڈی ایف کے تعاون سے تیار کیا جائیگا اس سے پرائیویٹ سیکٹر کو پروسیسنگ کی بہت سی سہولیات میسر آسکیں گی۔ حکومت کو اس مسئلے کی طرف فوری توجہ دینی چاہئے تاکہ نہ صرف کھجور کی بر آمدات میں جو کوالٹی کے باعث کمی آئی ہے اس پر قابو پایا جاسکے بلکہ کھجور کی بر آمدات میں اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ حاصل کیا جائے۔ کھجور کے پودے دوسروے پودوں مثلاً ترشاوہ پودوں وغیرہ کے مقابلہ میں بہت ہی کم زمین گھیرتے ہیں اس لئے اس زمین سے مناسب آمدنی حاصل کرنے کیلئے باغ میں دیگر فصلوں کی بھی کاشت کی جاسکتی ہے اور اس زمین سے ڈبل فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً پھلی دار اجناس، لونگ، ماش، گوارا، بریسم اور چنے وغیرہ کاشت کئے جاسکتے ہیں۔ باغ لگانے کے چند سال بعد گندم اور جو وغیرہ بھی کاشت کئے جاسکتے ہیں جس سے کسان زمین سے دوہرا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارے زرعی سائنسدانوں کو بھی کھجور کی کوالٹی اور اسکی پیداوار کو بہتر بنانے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ اسے بر آمد کرکے زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ حاصل کیا جاسکے اور پاکستانی عوام کو بھی ایک معیاری کھجور کھانے کو مل سکے۔
طبی فوائد
رمضان المبارک کے دوران شہروں میں فروخت کی جانے والی مختلف اقسام کی کھجور اتنی ناقص اور غیر معیاری ہوتی ہیں جو کھانے کے قابل نہیں ہوتیں حالانکہ
طبی لحاظ سے کھجور کے بے شمار فوائد بیان کئے جاتے ہیں مثلاً بلخم اور سردی کے اثر سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں کھجور کھانا مفید ہے، دماغی ضعف کو ختم کرتی ہے جبکہ یاد داشت میں بھی تیزی لاتی ہے۔ قلب کو تقویت بخشتی ہے جبکہ بدن میں خون کی کمی کو رفع کرتی ہے، گردوں کو قوت دیتی ہیں جبکہ کھجور سانس کی بیماریوں میں بھی سود مند ہے۔
Bookmarks