آرزو نے کیا کھویا جستجو نے کیا پایا
تجھ سے ہمکلامی میں موت کا مزا پایا
اتصال روحوں کا جسم جسم کب ہوگا
دوست جس کو سمجھے ہم ، دشمنِ وفا پایا
گھر چراغ سے خالی ، رہگزر چراغاں ہے
ایک ہی تصور کو بارہا جدا پایا
آئینے کو پتھر پر کیوں گرا رہا ہوں میں
کس نے اس زمانے میں پیار کا صلہ پایا
نام ہے ظفر میرا غم ملا تو غم کیسا
ہر شکست پر خود کو جرات آزما پایا
**<<~*~*~*~>>**
Bookmarks